تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز
مسلمانوں کے نقصانات، منافقت اور BJP کی ‘B ٹیم’ کے الزامات کی تفصیلی جائزہ و تعار ف کراتے ہوئے بتانا چاہتے ہیں کہ اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران، سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور رام پور کے سابق ایم پی اعظم خان نے حیدرآباد کے ایم پی اور AIMIM کے صدر اسدالدین اویسی پر سخت تنقید کی۔ اعظم خان نے اویسی سے اپیل کی کہ وہ "کمزور مسلمانوں پر رحم کریں، ترس کھائیں، ان کی بربادی کا انتظام نہ کریں اور اپنے معمولی سیاسی فائدے کے لیے ملک کی دوسری بڑی آبادی (مسلمانوں) کے ساتھ ظلم نہ کریں”۔ یہ بیان محض ذاتی حملہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل عرصے سے چلے آ رہے الزامات کی عکاسی کرتا ہے کہ اویسی کی سیاست مسلمانوں کو تقسیم کرتی ہے، سیکولر جماعتوں کو کمزور کرتی ہے اور بالواسطہ طور پر بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس مضمون میں اعظم خان کے بیان کو مرکز میں رکھتے ہوئے اویسی کی سیاست کے ان پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی جارہی ہے۔
اویسی کی مبینہ منافقت، BJP کی ‘B ٹیم’ کے طور پر کام کرنے کی پالیسی، اور سیکولر جماعتوں کی رہنمائی میں اویسی پر BJP کی مدد کے الزامات۔ یہ تجزیہ تاریخی سیاق، انتخابی اعداد و شمار اور سیاسی مبصرین کے خیالات پر مبنی ہے۔اعظم خان کے بیان کے پس منظر اور سیاق یہ ہے کہ اعظم خان کا بیان بہار انتخابات کے تناظر میں آیا جب AIMIM نے سیمانچل (Seemanchal) علاقے میں، جو مسلمانوں کی بڑی آبادی والا خطہ ہے، اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ اعظم خان، جو خود ایک طاقتور مسلم لیڈر ہیں اور سماجوادی پارٹی کے ذریعے سیکولر سیاست کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں، نے اویسی کو خبردار کیا کہ ان کی الگ مسلم پارٹی مسلمانوں کو تقسیم کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، اویسی کا فوکس "معمولی سیاسی فائدہ” ہے جو مجموعی طور پر مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی (ہندوستان میں تقریباً 20 کروڑ مسلمان) کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ بیان سوشل میڈیا میں وائرل ہوا اور متعدد سیکولر لیڈروں نے اس کی تائید کی، جیسے کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد اور RJD کے تیجسوی یادو نے بالواسطہ طور پر اویسی کی مخالفت کی۔
اعظم خان کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت اتحاد میں ہے، نہ کہ تقسیم میں۔ اویسی سے مسلمانوں کو ہونے والے نقصانات کے طور پر بتاتے ہوئے چلیں کہ تقسیم اور کمزوری کی سیاست اویسی کی پارٹی AIMIM کو مسلم ووٹ بینک کی سیاست کا الزام لگتا ہے، جو مسلمانوں کو مزید کمزور کرتی ہے۔ تاریخی طور پر، ہندوستان میں مسلمان سیکولر جماعتوں (کانگریس، SP، RJD وغیرہ) کے ذریعے نمائندگی حاصل کرتے رہے ہیں۔ اویسی کی الگ مسلم نام کی پارٹی مسلمان ووٹوں کو تقسیم کرتی ہے، جس سے سیکولر امیدوار کمزور ہوتے ہیں اور BJP کو فائدہ ہوتا ہے۔بہار میں 2020 کا مثال بیان کرتے ہوئے چلیں تو AIMIM نے 5 سیٹیں جیتیں (جیسے امروہا، کشن گنج)، لیکن ان سیٹوں پر مسلم ووٹ تقسیم ہوئے۔ مثال کے طور پر، کشن گنج میں RJD کے امیدوار کو ہار کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسلم ووٹ AIMIM اور RJD میں بٹ گئے، جبکہ BJP الائنس نے فائدہ اٹھایا۔ انتخابی اعداد و شمار کے مطابق، شام میں مسلمان 40-50% ووٹ ہیں، لیکن تقسیم سے NDA کو 20 سے زائد سیٹیں ملیں۔
اتر پردیش 2022میں AIMIM نے 100 سے زائد سیٹیں لڑیں، لیکن صرف 0 سیٹیں جیتیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں SP-BSP الائنس کمزور ہوا، اور Yogi Adityanath کی BJP کو دوسری مدت ملی۔ سیاسی تجزیہ کاروں جیسے یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ اویسی کی وجہ سے مسلم ووٹ 10-15% تقسیم ہوئے، جو BJP کے لیے "ووٹ کٹر” کا کام کرتے ہیں۔مجموعی نقصان کے طور پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کی نمائندگی پارلیمنٹ میں کم ہوئی ہے (2019 میں صرف 27 مسلم ایم پی، جن میں سے اویسی واحد AIMIM ہیں)۔ اویسی کی "مسلم پرائیڈ” کی سیاست مسلمانوں کو الگ تھلگ کرتی ہے، جس سے ہندو پولرائزیشن بڑھتی ہے اور مسلمانوں پر حملے (جیسے لنچنگ، CAA-NRC احتجاج) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اویسی کی مسلمانوں سے منافقت کے طور پر دیکھیں تو دعوی بمقابلہ عم ،ااویسی خود کو مسلمانوں کا "نڈر آواز” کہتے ہیں، لیکن ناقدین ان پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ مسلم مسائل (جیسے بابری مسجد، triple talaq) پر پارلیمنٹ میں بولتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی پارٹی محدود علاقوں (حیدرآباد، بہار کے کچھ حصے) تک محدود ہے۔ اویسی BJP کو "کٹر ہندو” کہتے ہیں، لیکن 2018 میں تلنگانہ اسمبلی میں TRS (جو BJP الائنس میں شامل ہوئی) کی حمایت کی۔ وہ سیکولرزم کی بات کرتے ہیں لیکن مسلم لیگ جیسے کمیونل گروپوں سے اتحاد کرتے ہیں۔ اعظم خان کا کہنا ہے کہ اویسی "کمزور مسلمانوں” کی بربادی کا انتظام کرتے ہیں کیونکہ ان کی سیاست صرف "شو آف” ہے، نہ کہ زمینی ترقی (تعلیم، روزگار) پر فوکس۔ AIMIM کی آمدنی اور اثاثے بڑھے ہیں (اویسی خاندان کے کاروبار)، جبکہ مسلم علاقوں میں غربت برقرار ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اویسی مسلم خوف کو استعمال کر کے ووٹ لیتے ہیں، لیکن مسائل حل نہیں کرتے۔
BJP کی ‘B ٹیم’ کے طور پر کام کرنے کی پالیسی کے طور پر سب سے بڑا الزام ہے کہ اویسی BJP کی ‘B ٹیم’ ہیں، جو مسلم ووٹ تقسیم کر کے ہندو ووٹوں کو BJP کی طرف موڑتی ہے۔ یہ الزام 2014 سے چلا آ رہا ہے جب اویسی نے UP میں سیٹیں لڑیں اور BJP کو فائدہ ہوا۔پالیسی کی مثالیںیہ ہیں کہ 2017 UP انتخابات میں AIMIM نے 38 سیٹیں لڑیں، مسلم ووٹ بٹے، BJP کو 312 سیٹیں ملیں۔اور2019 لوک سبھا الیکشن میں اویسی نے متعدد سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے، جہاں سیکولر امیدوار ہارے۔سیاسی مبصرین جیسے پرش کشور کا کہنا ہے کہ اویسی کی موجودگی BJP کے لیے "سوفٹ ٹارگٹ” ہے جو ہندوو¿ں کو پولرائز کرتی ہے۔اویسی کی تقریریں (جیسے "ہندوستان مسلم ملک نہیں”) میڈیا میں چلتی ہیں، جو BJP کے narrative کو تقویت دیتی ہیں۔سیکولر لیڈرز جیسے اعظم خان، لالو یادو، مایاوتی اور حتیٰ کہ کانگریس کے کچھ اہم ارکان راہل گاندھی اور عمران پرتاپ گڑھی اویسی کو BJP کی مددگار قرار دیتے ہیں۔ SP اور RJD کہتے ہیں کہ اویسی سیکولر الائنس کو توڑتے ہیں۔ بہار 2020 میں مہا گٹھ بندھن سے الگ ہو کر AIMIM نے NDA کو فائدہ پہنچایا۔اور 2024 لوک سبھاالیکشن میں اویسی نے بی جے پی مخالف سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے، جہاں INDI الائنس کمزور ہوا۔ مبصرین جیسے اشوتوش (دی وائر) لکھتے ہیں کہ اویسی کی سیاست "مسلم کمیونلزم” ہے جو ہندو کمیونلزم کو جنم دیتی ہے۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتحاد کی ضرورت یا الگ شناخت کی جدوجہد کی ہندستان کے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو ضرورت ہے ؟ اعظم خان کا بیان ایک یاد دہانی ہے کہ مسلم سیاست میں اتحاد ضروری ہے۔ اویسی کی سیاست نے کچھ مسلم علاقوں میں نمائندگی دی، لیکن مجموعی طور پر تقسیم، منافقت اور BJP کو فائدہ پہنچایا۔ اگر مسلمان ترقی چاہتے ہیں تو سیکولر پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہو گا، نہ کہ الگ پارٹیوں میں بٹنا۔ یہ بحث جاری رہے گی، لیکن اعداد و شمار اور تاریخی مثالیں اویسی کی سیاست کے نقصانات کو واضح کرتی ہیں۔یہاں پر مولانا ابو الکلام آزاد کے اس قول کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جس میں مولانا آزاد نے جناح کی مسلم لیگ پارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان ہندستان میں سیکولرزم میں ہی اپنا وجود تلاش کریں، اگر مسلمان تقسیم کی سیاست اپنائیں گے تو سو سال کیا ہزار سال بھی اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکیں گے۔

