میں چھوڑ ا:ایم.ڈبلیو.انصاری (آئی .پی.ایس)
بھارت کی تاریخ میں اگر کسی خاتون حکمراں نے علم، انصاف، تہذیب اور ترقی کو بیک وقت فروغ دیا تو وہ صرف سلطان جہاں بیگم تھیں۔ بھوپال کی یہ روشن خیال، مدبر اور دور اندیش حکمران نہ صرف سیاسی میدان میں فعال تھیں، بلکہ انہوں نے سماجی ترقی، مذہبی رواداری، فنِ تعمیر اور تعلیم کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم، عوامی صحت، لائبریریوں اور عوامی میدانوں کا قیام اُن کی دور اندیشی کی گواہی دیتا ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں ریاست بھوپال ایک ایسا ماڈل بن چکا تھا جس پر فخر کیا جاتا تھا۔
مگر آج جب ہم بھوپال کی گلیوں اور چوراہوں سے گزرتے ہیں تو ان کی بنائی ہوئی یادگاریں ویران پڑی ملتی ہیں۔بھوپال کا اقبال میدان ہو یا تاج محل ، بینظیر گراؤنڈ ہو یا وسیع و عریض عیدگاہ، بڑے تالاب کے کنارے واقع تاریخی مقامات ہوں یا وہ شاہی قبرستان ، جہاں شہر کے مشاہیر مدفون ہیں — ہر مقام زوال، خاموشی اور بے حسی کا شکار ہے۔ یہ وہی مقامات ہیں جو کبھی سماجی ہم آہنگی، علمی سرگرمیوں اور زندگی کی علامت تھے، مگر آج ان پر یا تو نجی قبضے ہو چکے ہیں یا حکومتی لاپرواہی نے انہیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اقبال میدان، جہاں سے کبھی مختلف پروگرموں کی صدائیں گونجتی تھیں، آج سنّاٹے اورویرانی کی نذر ہو چکا ہے۔ تاج محل بھوپال، جہاں کبھی علمی و ثقافتی محفلیں سجی رہتی تھیں، اب زنگ آلود در و دیوار میں گم ہوچکا ہے ۔ یہ صرف عمارات نہیں تھیں، یہ ایک سوچ، ایک نظریہ، اور ایک تہذیبی پیغام کی نمائندہ تھیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال ان قبرستانوں کی ہے جہاں بھوپال کی تاریخ دفن ہے۔ جن مقابر پر کبھی دعائیں پڑھی جاتی تھیں، آج وہاں کچرا، بدبو اور گندگی کا عالم ہے۔ یہ قبرستان صرف دفن گاہیں نہیں بلکہ ایک قوم کی تہذیبی حساسیت کے آئینے ہوتے ہیں۔ ان کی بدحالی ہمارا سماجی زوال بیان کرتی ہے۔
شاپنگ مال چمک رہے ہیں، مگر تاریخ کی قبریں سسک رہی ہیں، تاریخی وراثت ویران ہے، جس بھوپال نے انصاف کی بنیاد رکھی، وہاں آج قبرستان بھی ناانصافی کا شکار ہیں یہ حالت ہوگئی ہے ہمارے بھوپال کی۔۔۔۔۔
ادھر، سلطان جہاں بیگم کے قائم کردہ تعلیمی ادارے اور لائبریریاں، جو کبھی علم و آگہی کا سرچشمہ تھیں، اب یا تو بند ہو چکی ہیں یا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ جن عمارتوں میں تعلیم، تحقیق اور سماجی بہتری کے منصوبے پروان چڑھتے تھے، آج وہاں ہوٹل، بینک اور دکانیں کھل چکی ہیں۔
یہ سوچنا صرف حکومت کا کام نہیں کہ ورثے کی حفاظت کیسے ہو — یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معاشرہ، نوجوان نسل، دانشور، اور ہر باشعور فرد اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو، اپنی تہذیب کو، اپنی جڑوں کو محفوظ رکھے۔ اگر ہم آج اپنے ورثے کو بچانے کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو آنے والی نسلیں نہ بھوپال کو پہچانیں گی، نہ سلطان جہاں بیگم کو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تہذیبی یادگاروں کو صرف ’ماضی‘ نہ سمجھیں بلکہ انہیں حال کا حصہ بنائیں۔ لائبریریوں کی بحالی، میدانوں کی مرمت، قبرستانوں کی صفائی اور تاریخی عمارتوں کا تحفظ ایک عوامی تحریک بنائی جائے۔ تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں اور مقامی حکومتیں مل کر وہ وقار واپس لائیں جو سلطان جہاں بیگم نے اپنی ریاست کے لیے قائم کیا تھا۔
اگر ہم نے آج بھی خوابِ غفلت سے آنکھ نہ کھولی، تو ہماری بے حسی نہ صرف بھوپال کی شناخت کو مٹائے گی بلکہ تاریخ ہمیں ایک خاموش تماشائی کے طور پر یاد رکھے گی — جنہوں نے اپنے شاندار ماضی کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ کیا۔وقت ہے اپنے شہر، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنی وراثت بچانے کا جس کے لئے ہم سب کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے یہی حقیقی معنوں میں سلطان جہاں بیگم کی وراثت کی حفاظت ہوگی اور انہیں سچی خراج عقیدت ہوگی۔