اسدالدین اویسی کو پرسنل لا بورڈ سے فوری برطرف کرنے کا مطالبہ
علماءکیخلاف مبینہ گستاخیوں کی تفصیلی فہرست بھی جاری
نئی دہلی، (نیوز رپورٹ :پریس ریلیز: مطیع الرحمن عزیز) –آل انڈیا علماءبورڈ نے ایک غیر معمولی سخت اور تفصیلی کھلا خط جاری کر کے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے مطالبہ کیا ہے کہ مجلسِ اسلامیہ ہند کے سربراہ اور حیدرآباد سے پانچ بار کے رکنِ پارلیمان جناب اسدالدین اویسی کو فوری طور پر پرسنل لا بورڈ کی تمام کمیٹیوں، اجلاسوں اور پلیٹ فارمز سے برطرف کیا جائے۔ یہ خط آل انڈیا علماءبورڈ کے جنرل سیکریٹری علامہ بنی حسنی نے تحریر کیا ہے اور اسے ممبئی سے جاری کیا گیا۔ خط کی کاپیاں ملک بھر کے سینکڑوں بڑے علماءکرام، دینی مدارس، مساجد اور میڈیا کو بھی روانہ کی گئی ہیں۔ خط میں اویسی پر لگائے گئے ایک ایک الزام کی تفصیل دینی مدارس کے طلبہ کے بارے میں "جھوٹا اور توہین آمیز” بیان، حال ہی میں حیدرآباد کے ایک بڑے سیمینار "بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا کردار” میں اویسی نے کہا تھا کہ "مدرسے کا کوئی بچہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا، بلکہ مدرسوں کے بچے دہشت پسند بنتے ہیں”۔ علماءبورڈ نے اس بیان کو "سراسر جھوٹ، شدید پروپیگنڈہ اور دینی مدارس کی بے حرمتی” قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مدد ملتی ہے۔
مولانا سلمان ندوی پر "شدید ذاتی حملہ”اویسی نے کھلے اجلاسوں میں مولانا سلمان ندوی پر الزام لگایا تھا کہ وہ "بابری مسجد کے بدلے میں کچھ اور لینے کے لیے تیار تھے”۔ علماءبورڈ نے اسے "بے بنیاد اور عالمِ دین کی توہین” قرار دیا۔ مہاراشٹر میں نکاح رجسٹریشن اور "لف پلینٹ” تنازعہ، اویسی اور ان کی پارٹی کے کارکنوں نے مہاراشٹر میں نکاح کی نئی پالیسی اور "لف پلینٹ” (محبت جہاد قانون) کے خلاف احتجاج کے دوران علماءکو "حکومت کے ایجنٹ” اور "خاموش تماشائی” و ” لفافوں پر زندگی گزارنے والا“ کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔
جمعیت علماءہند کے صدر مولانا ارشاد مدنی پر "گستاخانہ” حملہ، اویسی نے ایک انٹرویو میں مولانا ارشد مدنی کے بارے میں کہا تھا کہ "یہ لوگ صرف بیان بازی کرتے ہیں، عملی جدوجہد نہیں کرتے”۔ علماءبورڈ نے اسے بزرگ عالم دین کی بے ادبی قرار دیا۔ کشمیر تنازعہ اور اویسی خاندان کے بیانات، آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد اویسی کے بھائی اکبرالدین اویسی نے بھی کئی مواقع پر دیوبندی علماءکو "غدار” اور "حکومت کے پالتو” کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو برادران وطن کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خط کا سب سے سخت جملہ”اگر پرسنل لا بورڈ اس طرح کے شخص کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ دیتا رہا تو یہ علماءکرام کی عزت و وقار، دینی مدارس کے تقدس اور امت کے اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔ "پس منظر اور ممکنہ نتائج، ذرائع کے مطابق یہ تنازعہ گزشتہ دو سال سے چلا آ رہا ہے، لیکن حال ہی میں حیدرآباد کے سیمینار میں اویسی کے بیان نے دیوبندی حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا۔ آل انڈیا علماءبورڈ بنیادی طور پر دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماءکا پلیٹ فارم ہے اور ملک بھر میں اس کے ہزاروں ارکان ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ،اگر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اویسی کو برطرف کرتے ہیں تو پرسنل لا بورڈ کی قیادت پر "دیوبندی دباو¿” کا الزام لگے گا اور بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ ارکان میں ناراضی بڑھے گی۔ اگر وہ خط کو نظر انداز کرتے ہیں تو دیوبندی علماءکی ایک بڑی تعداد پرسنل لا بورڈ سے لاتعلقی کا اعلان کر سکتی ہے جس سے بورڈ کی نمائندگی کمزور پڑ جائے گی۔فوری ردِ عمل ،جمعیت علماءہند (محمود مدنی گروپ) کے ذرائع نے غیر آفیشیل طور پر اس خط کی حمایت کی ہے۔ جماعت اسلامی ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے کچھ سینئر ارکان نے کہا ہے کہ "معاملہ اندرونی طور پر حل کیا جائے گا”۔ AIMIM کے ترجمان نے ابھی تک کوئی آفیشیل بیان جاری نہیں کیا، البتہ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ "یہ دیوبندی لابی کی پرانی سازش ہے، اویسی صاحب مسلم حقوق کے سب سے بڑے نڈر آواز ہیں”۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اگلا اجلاس دسمبر کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی اجلاس میں اس خط پر حتمی فیصلہ متوقع ہے۔ اس وقت پورے ملک میں مسلم سیاسی و دینی حلقوں میں یہ خط سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع بنا ہوا ہے۔
خلاصہ کلام کے طور پر اگر دیکھا جائے تو آل انڈیا علماءبورڈ کا مطالبہ حق بجانب ہے، کیونکہ ایک سیاسی شخص یعنی اسد اویسی کا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے عہدے پر فائز رہنا،پرسنل لاءبورڈ کی اہمیت اور افادیت کو کم کردیتی ہے، اور اسلامی اصولوں پر بھی کلام کیا جائے تو اسدا ویسی سودی کاروبار میں دارالسلام بینک کے ذریعہ کروڑو کی لین دین کرتے ہیں، اور سود اللہ و رسول سے دشمنی کے ارتکاب اور لعنت قرار دی گئی ہے، اس کے علاوہ دیگر طریقے سے بھی سودی کاروبار کرنے والے کیلئے مذہب اسلام میں پھٹکار سنائی گئی ہے، جس طرح سے ایک زناکار کو، ایک چور اور ڈاکو ، و بدعنوان شخص کو کسی اسلامی نام کے دفاتر کا رکن نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی رکنیت سے بھی ایسے شخص کو برطرف کردینا چاہئے جس کے بارے میں مذہب اسلام میں سخت وعید اور پھٹکار صراحتا بیان کی گئی ہے۔

