مفتی محمد عبداللہ قاسمی
استاد فقہ و ادب جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
موبائل فون:8688514639
دین اسلام ایک جامع و مکمل نظام حیات ہے، اس کی ہدایات و تعلیمات پوری نوع انسانیت کے لیے باعث رحمت ہیں،اس آفاقی دین نے زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہنمائی کی ہے اور انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو بحسن و خوبی حل کیا ہے ، اسلام وہ ابر کرم ہے جس کی باران رحمت ہی سے آج کی پیاسی انسانیت کی تشنگی دور ہو سکتی ہے، یہ وہ شفا بخش مسیحا دم ہے جو زخم خوردہ دلوں کے زخم پر مرہم رکھتی ہے، یہ وہ شجر طوبی ہے جس کے سایہ میں پوری نوع انسانیت کو امن و اطمینان اور چین وسکون کی ٹھنڈک نصیب ہو سکتی ہے۔
دشمنان اسلام کا اعتراض
لیکن برا ہو دشمنان اسلام کا جو اسلامی تعلیمات پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں ، تعصب اور جانب داری کی نگاہ سے اسلامی احکام کو دیکھتے ہیں، اور اپنی محدود اور کوتاہ عقل کے پیمانے میں تولنے بیٹھ جاتے ہیں ، ان کا ایک بڑا واویلا یہ ہے کہ اسلام میں طلاق کا اختیار صرف مردوں کو کیوں دیا گیا؟ جیسے نکاح کا رشتہ میاں بیوی کے باہمی رضامندی سے استوار ہوتا ہے ایسے ہی فرقت اور علیحدگی کا عمل بھی یا تو دونوں کی رضامندی سے مکمل ہونا چاہیے یا طلاق کا اختیار مرد و عورت ہردو کو برابر طور پر ملنا چاہیے ، مرد کو صرف طلاق کا اختیار دے کر اسلام نے ایک طرح سے عورتوں کی تذلیل اور توہین کی ہے، اور صنفی ناہمواری کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔
طلاق کا حکیمانہ نظام
اسلام نے صرف مردوں کو جو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے اس کے پیچھے بہت سی مصالح اور حکمتیں کارفرما ہیں، نکاح اور ازدواجی رشتہ چوں کہ اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، سماجی ڈھانچہ کو تقویت اور مضبوطی بخشنے کا ذریعہ ہے، خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کا وسیلہ ہے ؛ اس لیے اسلام نے طلاق کا ایسا حکیمانہ اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ نظام وضع کیا ہے جو نتائج و ثمرات کے لحاظ سے نہ صرف فطری تقاضوں کو پورا کرتا ہے ؛ بلکہ معاشرتی توازن کو بھی برقرار رکھتا ہے، اور اس نظام سے بغاوت اور اس سے سر مو انحراف خاندانی نظام کو کھوکھلا کرنے والا اور سماجی رشتوں کو سبوتاژکرنے والا ہے، آئیے اب ہم ان اہم مصالح اور حکمتوں پر نظر ڈالتے ہیں جو مرد کو طلاق کا اختیار دینے کے پس پردہ کارفرما ہیں۔
اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ہم تین مرکزی نکات پر غور کریں گے:
(١) کیا باہمی معاہدات کے اندر اختیارات کی تقسیم میں مساوات اور توازن عملی طور پر ممکن ہے؟
(٢) مرد کو حق طلاق دینے کے پیچھے شرعی مصالح اور حکمتیں کیا ہیں؟
(٣) عورت کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار دے دیا جائے تو اس کے معاشرتی نقصانات کیا ہوں گے؟
اب ہم ترتیب وار انداز میں ان تینوں نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(١)باہمی معاہدوں کے اندر اختیارات کی تقسیم میں مساوات کے منفی نتائج
سب سے پہلے ہم اس مرکزی اور اساسی نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا باہمی معاہدوں میں اختیارات کی تقسیم میں مساوات اور برابری کا تصور کیا جا سکتا ہے؟کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ باہمی معاملات میں ہر فریق کو وہی اختیارات ملیں جو دوسرے فریق کو حاصل ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ باہمی معاہدات میں جانبین میں سے ہر ایک کو آزادانہ طور پر کلیدی اور حتمی فیصلہ سازی کا حق ہو؟اگر آپ اس مفروضہ کو عملی جامہ پہنانے کا تصور کرتے ہیں، اور اس نظریہ کو قابل عمل خیال کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر گہرے اور دیرپا منفی اثرات مرتب ہوں گے، اور نظام عالم کی کارکردگی متاثر ہوگی، اور اس کی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی۔
(الف) قوت فیصلہ کا فقدان
اگر دونوں فریق کو یکساں اور مساوی اختیارات حاصل ہوں تو فیصلہ سازی کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے،ایسی صورت میں کوئی بھی فریق بہتر اور مفید نتائج تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے، کیوں کہ اسے ہمیشہ یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ وہ غور و خوض کے بعد جو راستہ اختیار کرے دوسرا فریق اسے قبول کرے گا یا نہیں؟ اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں جو چیز دونوں کے لیے مفید سمجھی جائے، اس کے بارے میں یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دوسرا فریق بھی اسی تناظر میں اسے دیکھے گا،نتیجتاً مساوی اختیارات نہ صرف فیصلہ کرنے کی قوت کو کمزور کرتے ہیں؛ بلکہ سوچ بچار کے عمل کو بھی غیر مؤثر اور غیر فعال بنا دیتے ہیں۔
(ب) احساس ذمہ داری کا فقدان
اگر اختیارات کی تقسیم میں یکسانیت اور مساوات کو اصل الاصول بنالیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ احساسِ ذمہ داری کے فقدان کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے، کیوں کہ ایسی صورت حال میں دونوں فریق اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور لاپرواہی برتتے ہیں، ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے سستی وکاہلی کے شکار ہو جاتے ہیں، اگر مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوں تو کوئی بھی فریق جواب دہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا؛ بلکہ ہر ایک اپنی ناکامیوں کا الزام دوسرے کے سر تھوپ دیتا ہے، جب اجتماعی امور میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو نہ صرف باہمی رشتے متاثر ہوتے ہیں؛ بلکہ تہذیبی ارتقاء کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے۔
(ج) اجتماعی مفادات متاثر ہونے کا خطرہ
تیسرے یکساںاور مساوی اختیارات رکھنے والے فریقین چوں کہ انسان ہیں،اور انسان اپنے مفادات اور خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا؛ لہذا ہر دو فریق اپنے لیے وہی سوچتے ہیں جو ان کے لیے مفید اور نفع بخش ثابت ہو،اسی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہیں جو ان کے تابناک اور روشن مستقبل کے لیے راستہ فراہم کرے؛ لہذا جب برابر درجہ کے اختیارات رکھنے والے فریقین اپنے اپنے مفادات کو مرکز توجہ بنائیں اور اجتماعی مفادات کو ثانوی حیثیت دیں تو فریقین کی منزل مقصود تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے، اور یہ مشترکہ سفر نہ صرف طویل ہو جاتا ہے؛ بلکہ دشوار گزار گھاٹیوں سے بھر جاتا ہے، اور شاہ راہ ترقی پر کاروان زندگی کا سفر متاثر ہوجاتا ہے۔
(د) تنازعات اور جھگڑے جنم لینے کا اندیشہ
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ فریقین کے مابین اختیارات کی یکساں اور مساوی تقسیم فریقین کے مابین بسا اوقات تنازعات پیدا کرتی ہے ، ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی اور جھگڑے کے دونوں فریق شکار ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ اختیارات میں مساوات اور برابری کی وجہ سے ہر فریق دوسرے فریق پر غلبہ اور برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور دوسرے فریق کو نیچا اور کمزور کرنے کی تگ ودوہ میں لگا رہتا ہے، جب یہی باہمی تنازعات خطرناک شکل اختیار کر لیتے ہیں تو فریقین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں ، ایک دوسرے کو مارنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، اس سے اجتماعی سطح پر جو معاشرتی نقصانات مرتب ہوتے ہیں وہ محتاج بیاں نہیں ہیں۔
مرد و عورت دونوں کو طلاق کا اختیار دینا معاشرتی توازن کے مغائر
مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہو گیا کہ باہمی معاہدات میں دونوں فریق کو یکساں اور مساوی اختیارات حاصل ہونا بس ایک خوش نما اور جاذب نظر خیال ہے ، یہ اگرچہ فکری سطح پر پرکشش اور انسانی مساوات کے اصولوں سے ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے؛ لیکن حقیقی زندگی میں اس کا نفاذ نہ صرف یہ کہ مشکل ہے؛ بلکہ بہت سے مضرات اور منفی اثرات کا حامل بھی ہے؛ لہذا نکاح جو ایک باہمی معاہدہ ہے، زوجین؛ بلکہ دو خاندانوں کے تعلقات کو بہتر اور خوش گوار بنانے کا ذریعہ ہے ، سماج میں محبت و بھائی چارہ کو فروغ دینے کا وسیلہ ہے، اس میں میاں بیوی میں سے ہر ایک کو مساوی اور یکساں اختیارات دینے سے رشتہ نکاح کمزور اور مضمحل ہوگا، خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا ، اور سماجی رشتوں میں تلخی اور بدمزگی پیدا ہوگی؛ اس لیے مرد و عورت ہر دو کو طلاق کا اختیار دینے کا مطالبہ معاشرتی استحکام کے لیے تباہ کن ہے، اور تجرباتی شواہد کے خلاف بھی ہے۔
(٢) مرد ہی کو طلاق کا حق کیوں ؟
جب مرد و عورت دونوں کو طلاق کا یکساں اختیار دینا ناقابلِ عمل ثابت ہوا اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرناک نتائج کا حامل ٹھہرا تو اب ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ شرعی تناظر میں مرد کو یہ اختیار کیوں تفویض کیا گیا، جب کہ عورت کو اس حق سے کیوں محروم رکھا گیا،اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ان اسباب وعوامل کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا جو اس کے پیچھے کارفرما ہیں:
(الف) معاشی پہلو
دنیا کا یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ جو فریق معاشی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے اور مالی بوجھ برداشت کرتا ہے، اُسے دوسرے فریق کے مقابلے میں زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسا فریق فیصلہ لینے میں مستقل اور خودمختار ہوتا ہے، اس اصول کی عملی مثال یوں سمجھیے کہ اگر ایک مسافر نے سکندر آباد سے نئی دہلی کا ریلوے ٹکٹ خریدا ہے، تو اُس مسافر کو جس نے رقم ادا کرکے ٹکٹ حاصل کیا ہے، سکندر آباد سے دہلی تک سفر کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے، اسی طرح اگر وہ درمیانِ راہ کسی وجہ سے سفر چھوڑنا چاہے یا سفر ہی کو بالکلیہ ملتوی کرنا چاہے تو اِس کا بھی اُسے حق حاصل ہوتا ہے،تاہم ریلوے کی ذمہ داری صرف سکندر آباد سے دہلی تک سفر کی سہولت فراہم کرنا ہوتی ہے،ریلوے کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مسافر کو سفر جاری رکھنے،یا اسے ملتوی کرنے، یا درمیان میں سفر روکنے پر مجبور کرے۔
اس اصول کی تفہیم کے لیے ہم ایک دوسری مثال کا سہارا لیتے ہیں، فرض کیجیے کہ ایک شخص نے اپنے مکان کی تعمیر کے لیے ایک مزدور کو یومیہ اجرت پر رکھا، اور کام شروع کرنے سے پہلے ہی پیشگی رقم ادا کر دی، ایسی صورت میں مالی ذمہ داری اٹھانے والے فریق کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ مزدور سے مقررہ وقت کی پابندی کے ساتھ کام لے، ساتھ ہی اپنی ضرورت یا مرضی کی بنیاد پر اُسے کام سے روک بھی سکتا ہے؛ تاہم مزدور صرف اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ طے شدہ وقت پر اپنے فرائض انجام دے، اُسے یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ بغیر اجازت کام ادھورا چھوڑ کر چلا جائے یا معاہدہ کی شرائط کی خلاف ورزی کرے۔
اب آپ مرد و عورت کے رشتہ نکاح میں غور کریں، اور نکاح کی وجہ سے ایک دوسرے پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور حقوق کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ نکاح کی وجہ سے جیسے عورت پر کچھ حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں، ایسے ہی شادی کے بعد مرد کے کاندھوں پر بہت سے حقوق اور فرائض عائد ہوتے ہیں؛ تاہم اسلام میں ساری معاشی ذمہ داریاں صرف مرد پر رکھی گئی ہیں، اور عورتوں کو کلی طور پر معاشی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے، ہم ذیل میں مرد کے اُن فرائض اور ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہیں جو معاشی پہلو سے متعلق ہیں:
(الف) رشتہ نکاح قائم ہوتے ہی مرد کے ذمہ مہر کی ادائیگی کو لازم کیا گیا ہے، یہ مہر دراصل عورت کے شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مبارک بادی پیش کرنے کا عنوان ہے، اور اسے ہدیۂ خلوص و محبت پیش کرنے کا مظہر ہے، تاکہ عورت کو قرار اور دلی سکون نصیب ہو اور اجنبیت و بیگانگی کا احساس اُس کے اندر نہ ابھرے، اس مہر کو خود قرآن مجید نے عورتوں کا ناقابل تنسیخ حق قرار دیا ہے، اور خوش دلی اور طیب خاطر کے ساتھ اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، جب کہ عورت پر اِس طرح کی کوئی مالی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے۔
(ب) شادی کے بعد بیوی کے تمام اخراجات: خواہ وہ خوراک و رہائش کے لیے ہوں، علاج و معالجہ سے متعلق ہوں، لباس اور زیبائش کے سامان کی فراہمی پر مشتمل ہوں، یا زندگی کی دیگر معاشی ضروریات پوری کرنے سے تعلق رکھتے ہوں، شرعی طور پر ان کا انتظام کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اسلام نے بیوی کو ان تمام مالی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھا ہے؛ بلکہ بیوی کی اپنی ذاتی آمدنی یا جائیداد پر بھی شوہر کا کوئی حق نہیں، شریعت نے ان ساری معاشی ذمہ داریوں کو شوہر کے کاندھوں پر ڈال کر عورت کی مکمل معاشی کفالت کرنے کا ضامن بنایا ہے۔
(ج) اولاد میاں بیوی دونوں کے رشتے کا پھل ہوتی ہے، اور ماں باپ دونوں کا اُس سے قلبی لگاؤ یکساں ہوتا ہے؛ تاہم اسلام نے اولاد کی تمام معاشی ضروریات بشمول علاج، تعلیم، رہائش، شادی بیاہ کے اخراجات؛ بلکہ اُس کے خود کفیل ہونے تک کی مکمل مالی کفالت کی ذمہ داری صرف مرد پر عائد کی ہے، عورت کو اِن معاشی الجھنوں سے مکمل طور پر آزاد رکھا گیا ہے۔
(د) مرد و عورت کے مقدس رشتۂ نکاح میں بندھنے کے بعد اسلام نے اِس پاکیزہ رشتہ کو بغیر کسی معقول وجہ کے توڑنے یا ختم کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے، اور زوجین کو متعدد ہدایات دے کر اِسے مضبوط اور پائیدار بنانے کی تلقین فرمائی ہے، تاہم اگر کبھی زوجین کے درمیان نااتفاقی اور تلخی اس حد تک بڑھ جائے کہ دونوں کی زندگی اجیرن ہو جائے،اور دونوں کا ایک ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہو جائے تو ایسی صورت میں فِراق اور جدائیگی ہی واحد حل رہ جاتا ہے، اِس مرحلے پر بھی اسلام نے مرد کو شرعی ضابطوں کے مطابق عدت کی مدت (جو عام حالات میں تین ماہ، جب کہ حمل کی صورت میں وضعِ حمل تک ہوتی ہے) کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا پابند بنایا ہے، اِس مشکل وقت میں بھی عورت پر کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا، بلکہ اُس کے تمام حقوق کو شوہر کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
(ھ) اِن امور کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ نکاح مرد و عورت کے درمیان محض ایک قانونی معاہدہ نہیں، بلکہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے جس کی بنیاد باہمی محبت والفت، تعاون وہمدردی، اور آپسی اعتماد پر رکھی گئی ہے، اسلام نے اِس رشتے کو صرف قانونی بندشوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اِسے اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں سے بھی جوڑا ہے، مرد کو نہ صرف عورت کی معاشی کفالت کا پابند بنایا گیا، بلکہ اُس کی جان، مال، عزت، اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اُس پر ڈالی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
جو شخص اپنی بیوی کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے، وہ شہید ہے۔(سنن ابوداؤد)۔
اِسی طرح بے جا طور پر بیوی کو تکلیف پہنچانے، اُسے جسمانی یا ذہنی اذیت دینے، یا اُس کے دل کو رنجیدہ کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اِس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ عدل و احسان کا معاملہ کریں، اور اِس معاملے میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہترین سلوک کرے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مرد پر عورت کی معاشی ذمہ داریاں نہ صرف زندگی کے تمام پہلوؤں (خوراک، رہائش، علاج، تعلیم وغیرہ) کو محیط ہیں، بلکہ اخلاقی و روحانی لحاظ سے بھی اُسے عورت کے حقوق کا محافظ اور ضامن بنایا گیا ہے، ایسی صورت میں اگر طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے تو کیا یہ فطری تقاضوں کے مطابق نہیں؟کیا معاشی، اخلاقی، اور قانونی ذمہ داریاں اُٹھانے والے فریق کو فِراق و علاحدگی کا اختیار دینا، اور ساتھ ہی اُسے اِس عمل کے نتائج کا قانونی طور پر جواب دہ ٹھہرانا معاشرتی انصاف کو برقرار رکھنے کی غمازی نہیں کرتا؟
(ب) نفسیاتی پہلو
مرد اور عورت کی خصوصیات اور طبعی رجحانات میں فطری طور پر فرق پایا جاتا ہے، دونوں کی جسمانی ساخت سے لے کر ذہنی اور فکری صلاحیتیں مختلف رکھی گئی ہیں ، مشکلات میں صبر کرنا، اچانک پریشانیوں میں سنبھل جانا، اور جذباتی معاملات میں عقلمندی سے کام لینا یہ وہ خوبیاں ہیں جو عام طور پر مردوں کے اندر عورتوں کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہیں ، اسی بنیاد پر اسلام نے طلاق جیسے اہم حق کو مرد کے سپرد کیا ہے، جب کہ عورت میں جذباتی حساسیت اور فوری ردِ عمل کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، حالات سے جلدی متاثر ہونے یا ناگہانی فیصلوں کی صورت میں عقل و تدبر کے بجائے جذباتی دباؤ کا شکار ہونے کا امکان عورتوں میں زیادہ دیکھا گیا ہے، اگرچہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عورتیں ایثار و قربانی، محبت و وفا شعاری، اور گھریلو نظام کی تشکیل جیسی لازوال صفات میں مردوں پر فوقیت رکھتی ہیں، لہذا طلاق جیسے نازک معاملے کو انہیں تفویض کرنے سے نہ صرف اس حق کے غلط استعمال کا خطرہ تھا، بلکہ خاندانی ڈھانچے کے بکھرنے کا بھی اندیشہ تھا، اسی لیے شریعت نے طلاق کے حق کو مرد کی ذمہ داری بنایا، جب کہ عورت کو خلع کے ذریعے راستہ دیا گیا تاکہ دونوں فریق کے درمیان توازن قائم رہے، اور معاشرتی استحکام برقرار رہے۔
اگر مغربی مستشرقین کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے طلاق کے تشریعی نظام پر اعتراض ہے، اور وہ مرد و عورت کے درمیان نفسیاتی و فطری فرق کو تسلیم کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں تو میں ان سے پوچھتا ہوں:
(١)اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے داڑھی کیوں بنائی اور عورتیں اس سے کیوں محروم ہیں؟
(٢)مرد و عورت کے جنسی اعضا مختلف کیوں ہیں؟
(٣)بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ عورت پر کیوں عائد ہوتی ہے؟
(٤)دودھ پلانے کی صلاحیت صرف عورتوں کو کیوں دی گئی؟
(٥)حیض، نفاس، حمل اور وضع حمل کی تکلیفیں صرف خواتین ہی کو کیوں اٹھانی پڑتی ہیں؟
پتہ نہیں ان سوالات کا جواب وہ کیا دیں گے؟ ہم کہتے ہیں کہ جب اللہ کے تکوینی نظام (فطری و جسمانی ساخت) پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، اور وہ ان امور کو فطری تفاوت کا نتیجہ مانتے ہیں، تو پھر انہیں تشریعی نظام (طلاق کا اختیار مرد کو دینے ) پر اعتراض کیوں؟ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی صلاحیت، نفسیات اور جسمانی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ایک کے فرائض جیسے الگ مقرر کیے ہیں اسی طرح طلاق کا اختیار بھی مرد کو دیا گیا ہے، کیوں کہ اس میں دونوں فریق کے حقوق اور معاشرتی توازن کو پیش نظر رکھا گیا ہے، یہ ایک جامع اور متوازن نظام ہے، جس میں مرد و عورت کے مخصوص کرداروں کو تسلیم کیا گیا ہے، لہٰذا جس طرح تکوینی نظام پر سوال نہیں اٹھایا جاتا اسی طرح تشریعی نظام پر بھی اعتراض بے بنیاد ہے۔
(٣) عورت کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار دینے کے منفی نتائج
اگر عورت کے ہاتھ میں طلاق کا مکمل اختیار دے دیا جائے تو اس کے سنگین سماجی ومعاشرتی نقصانات مرتب ہوں گے،خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا، نکاح جیسا مضبوط اور اٹوٹ رشتہ مذاق اور کھیل بن جائے گا، اولاد کی جسمانی دیکھ بھال اور اخلاقی نگہداشت ناقابل یقین حد تک متاثر ہوگی، ذیل میں عورتوں کو حق طلاق تفويض کرنے کے منفی نتائج پر ہم روشنی ڈالتے ہیں:
(الف) مردوں کے مالی استحصال کا خطرہ
ایک ممکنہ خطرہ یہ ہے کہ بعض لالچی خواتین اس حق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شادی کو ایک کاروباری ذریعہ بنا لیں، جہاں ایک عورت مہر کی خطیر رقم وصول کرنے کے بعد فوری طلاق دے دے، پھر دوسرے مرد سے شادی کر کے یہی عمل دہرائے، اس طرح تجارت و کاروبار کا ایک خطرناک کھیل شروع ہو جائے گا جس میں نہ صرف مردوں کا مالی استحصال ہوگا؛ بلکہ خاندانی نظام کی بنیادیں بھی متزلزل ہو جائیں گی،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں کون سا قانونی یا اخلاقی ضابطہ اس استحصالی کاروبار کو روک پائے گا؟ خاندانی ڈھانچے کو بکھرنے سے بچانے کے لیے کون سی مؤثر پابندیاں عائد کی جا سکیں گی؟
(ب) خاندان کے لیے قربانی دینے کے جذبے کا فقدان
عورتوں کو طلاق کا غیر مشروط اختیار دینے سے خاندانی ڈھانچہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مرد کے دل میں عورت کے لیے وہ گہرا رشتہ اور ذمہ داری کا جذبہ پیدا نہیں ہو پائے گا جو اسے گھر اور خاندان کی کفالت پر آمادہ کرتا ہے، ایک مرد جو دن رات محنت کرکے اور خون پسینہ ایک کرکے اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر اسے یہ احساس ہو کہ اس کی محنتوں کا صلہ کسی بھی وقت طلاق کی صورت میں مل سکتا ہے تو اس کے اندر خاندان کے لیے وہ قربانی دینے کا جذبہ باقی نہیں رہے گا، ایسی صورت میں لازمی طورپر شادی کا رشتہ کمزور پڑ جائے گا، کیوں کہ فریقین کے درمیان اعتماد اور تحفظ کا وہ مضبوط رشتہ قائم نہیں ہو پائے گا جو ایک پائیدار ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے، جب شادی میں استحکام اور پائیداری کا یقین نہ ہو تو لوگ شادی کے بندھن میں بندھنے سے ہچکچائیں گے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا، ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلاق کے اختیارات عورت کے ہاتھ میں نہ دینے میں کتنی حکمت اور مصلحت وابستہ ہے۔
(ج) مغرب میں خاندانی نظام بکھرنے کا ایک بنیادی سبب
یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں عورتوں کو غیر مشروط طلاق کا حق دینے سے خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے، نکاح ۔۔۔جو ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے، اور ایک صالح معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہے۔۔۔ محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے، چنانچہ مغربی معاشرہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر عورتیں طلاق کا فیصلہ کر لیتی ہیں، جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے شوہروں سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی ممالک کے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا، مغربی معاشرہ اپنی ظاہری چکا چوند کے باوجود اندر سے کھوکھلا ہو گیا، شرافت و اخلاق کا جنازہ نکل گیا،یہ محض ہمارا زبانی دعویٰ نہیں، بلکہ ان ممالک کے تجربات سے ثابت شدہ حقیقت ہے جہاں عورتوں کو غیر مشروط حق طلاق دیا گیا، متعدد شواہد اور عدالتی ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح اس حق کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعدد خواتین نے معمولی اختلافات یا وقتی جذبات کی بنیاد پر ازدواجی رشتوں کو ختم کرديا، ذیل میں ہم بین الاقوامی میڈیا رپورٹس اور عدالتی فیصلوں کے چند واقعات پیش کر رہے ہیں جو مغربی معاشروں میں عورتوں کی جانب سے بے جاحق طلاق استعمال کرنے اور نکاح جیسے مقدس رشتے کو عجلت اور جلد بازی میں پامال کرنے کوواضح کرتے ہیں:
شادی کے 72 منٹ بعد طلاق
لاس ویگاس میں 12 جولائی 2019 کو ایک جوڑے نے شراب کے نشے میں شادی کی، جب عورت کو پتا چلا کہ شوہر نے اپنی مالی حالت کے بارے میں جھوٹ بولا ہےتو اس نے شادی کے صرف 72 منٹ بعد طلاق کی درخواست دے دی۔( Las Vegas Review-Journal, 13 جولائی 2019
شادی کی رات ڈنر پر نہ لے جانے کی وجہ سے طلاق
اٹلی میں 15 ستمبر 2021 کو ایک خاتون نے شادی کے ایک ہفتے بعد طلاق لے لی ،کیونکہ اس کا شوہر شادی کی رات اسے ڈ نرپر نہیں لے گیا، بلکہ دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنے چلا گیا۔( Corriere della Sera, 16 ستمبر 2021
چاکلیٹ کیک نہ کھلانے پر طلاق
فرانس میں 8 مارچ 2018 کو ایک خاتون نے شادی کے دو ہفتے بعد طلاق لے لی ،کیونکہ اس کا شوہر وزن بڑھنے کے ڈر سےاسے چاکلیٹ کیک کھانے نہیں دیتا تھا۔) Le Monde, 9 مارچ 2018
ننگے پیر گھومنے پر طلاق
ڈنمارک میں 3 مئی 2020 کو ایک خاتون نے طلاق لے لی ،کیونکہ اس کا شوہر گھر میں ہمیشہ ننگے پیر گھومتا تھا۔) BT, 4 مئی 2020
یہاں صرف چند واقعات کو بہ طور نمونہ پیش کیا گیا ہے، ورنہ اگر مغربی عدالتوں کے ریکارڈز یا میڈیا کی رپورٹوں کا باریکی سے جائزہ لیں گے تو معمولی اختلاف اور ناچاقی کی بنیاد پر خواتین کی طرف سے طلاق کی دائر کی گئی درخواستوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کو جمع کرنے کے لیے ایک مستقل دفتر یا ضخیم کتاب تیار کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، یہ صورت حال نہ صرف خاندانی نظام کے لیے تشویش ناک ہے، بلکہ معاشرہ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے نتیجے میںمغرب میں خاندانی نظام سسک سسک کر اپنی آخری سانسیں لے رہاہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اسلام کا نظامِ طلاق ایک حکیمانہ اور متوازن نظام ہے، مرد کو طلاق کا حق دینے میں نکاح کے تقدس اور خاندانی استحکام کی حفاظت کا پہلو مضمر اور پوشیدہ ہے، جب کہ عورت کو غیر مشروط طور پر حق نہ دینے کا مقصد سماجی انصاف اور معاشرتی توازن کو برقرار رکھنا ہے۔