Articles مضامین

علماءکی گرفتاری، تاریخ، موجودہ وقت اور اس کا حل

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

یہ مضمون شیخ مولانا شبیر صاحب مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ کی گرفتاری کے تناظر میں تحریر کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز 2020 معاملے کو ایف آئی آر کی شکل دے دی گئی، حالانکہ یہ معاملہ 2021میں سلجھ گیا تھا، لیکن چونکہ بوکھلائی ہوئی حکومت کو اپنے گرگوں کو خوش کرنے کیلئے گوبر ، پیشاب کے بعد ان کے نامور پڑوسیوں کو ستانے اور ان کے اعلیٰ مقاصد و عزائم کو توڑنے کے لئے سازشی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت کچھ کام نا کر پانے سے بوکھلائی ہوئی ہے اور اپنی جہالت میں کہیں اسکول بند کر رہی ہے تو کہیں بزرگ ماہر تعلیم اور سیدھے سادے علماءکی گرفتاریاں لے رہی ہے۔ جہالت زدہ حکومتوں کا یہ کوئی نیا رویہ نہیں ہے، ہمیشہ ہر زمانے میں فرعون صفتوں نے اپنی جہالت کو چھپانے کیلئے ایسے اقدام کئے ہیں، اور نتیجے کے طور پر تاریخ نے انہیں جاہل اور نااہل حکمران کا ہی خطاب دیا ہے۔ شیخ مولانا شبیر صاحب مدنی چالیس سالہ ماہر تعلیم بلا تفریق مذہب وملت اپنے پچھڑے ہوئے علاقے کو تعلیم کی روشنی سے فیضیاب کر رہے ہیں، آج مولانا شبیر صاحب مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں اور جدوجہد سے ہزاروں طلبا الگ الگ میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ اور یہی ان کی خطا او رقصورثابت ہوا کہ جہالت کی تاریکی میں انہوں نے روشنی کی قندیل کیوں جلائی؟ کیونکہ اس جہالت کے دور ہوتے اندھیروں نے جاہل حکمرانوں کو آئینہ دکھا دیا ہے کہ تم نام نہاد حکمراں ہو کر بھی کچھ نا کر سکے اور یہ دیکھو شیخ مولانا شبیر صاحب مدنی نے اپنی کم وسعتی کے باوجود علاقے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے علم کی روشنی سے اہل علاقہ کو فلاح وبہبود کے راستے پر گامزن کیا ہے۔
تاریخ اس بات کا گواہ رہا ہے کہ ہمیشہ ہر زمانے میں جاہل حکمرانوں نے اہل علم کو اپنی جہالت کا نشانہ بنایا ہے۔ ہمارے قائد مفسر قرآن اور ماہرس سیاستدان، ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد رحمة اللہ علیہ کی زندگی کے ہر ہفتے کا ایک دن قید وبند کی صعوبتوں میں گزرا ہے، لیکن اہل علم نے اس قید وبند کو اپنے لئے سنت یوسف علیہ السلام سمجھا اور اس قید وبند کو بھی اللہ کی دی ہوئی نعمت اور موقعے کو غنیمت مانتے ہوئے جیلوں میں بھی اپنے علم سے لوگوں کو روشناس کرایا، اور جیل میں بھی ایسا علمی کارنامہ انجام دیا کہ رہتی دنیا تک علم کے قدردانوں کے لئے مشعل راہ رہے گی۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی کتاب ”غبار خاطر“ اسی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے لکھی گئی تحریر ہے، جو آج دسیوں ایڈیشن شائع ہوکر علم کے متوالوں کو فیضیاب کر رہی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزادلکھتے ہیں کہ یہ جیل کی تنہائی مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ طاقتوں نے مجھے جیل بھیج کر اس بات سے روشناس کرایا کہ جیلوں میں بھی ایک بڑی آبادی رہتی ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جیل میں رہنے والوں کی فلاح وبہبود کیلئے تمہیں بھیجا ہے، لہذا یوسف علیہ السلام کہتے ہیں کہ ” اے میرے جیل کے ساتھیو ۔ کیا بہت سارے رب جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو وہ بہتر ہیں یا وہ اکیلا رب جو تمام دنیا کا پالنے اور کھلانے پلانے والا ہے۔“
آج کی موجودہ علماءاور اکابرین میں جناب ذاکر نائیک، جناب مولانا جرجیس سراجی، جناب مولانا سید معراج ربانی، عالمہ ڈاکٹر نوہیر اشیخ جیسی شخصیات ایسی ہیں جنہیں ان کے کام اور دین کے نشر و اشاعت کے عوض ہی باطل طاقتوں نے نشانہ بنایا ہے، ان علماءاور اکابرین کی کوئی ایسی غلطی نہیں تھی کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے، ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا جائے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا، بلکہ ان سب کا اگر کوئی جرم تھا تووہ تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیناہے، کچھ وقت کے لئے ہم غلط فہمیوں کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن اگر قریب جا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان سب کا جرم اپنے دین کی نشرواشاعت اور دعوت دین اور تعلیم کی روشنی کو عوام میں پھیلانا تھا۔ جہالت اور تاریکی کا متضاد ہمیشہ روشنی اور علم ہوتا ہے ، لہذا جاہل کبھی نہیں چاہے گا کہ لوگ علم کی روشنی سے فیضیاب ہوں اور سب پھلتے پھولتے اور آگے بڑھتے ہوئے نظر آئیں۔
ان چیلنجز اور سختیوں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہر زمانے میں اہل علم کے ساتھ یہ سلوک چلتا رہا ہے۔ لہذا آج ہمیں تعلیم اور سیاست میں اپنی پہنچ بنانی ہونی ہو گی۔ سرکاری دفاتر کے اعلیٰ عہدوں پر تعلیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنا ہوگا۔ سیاست میں حصہ داری کرتے ہوئے پر امن اور سیکولر لوگوں کو پہنچانا ہو گا۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے لیڈر ہوں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر مسلم ہم وطن لیڈران نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیا ہے جو ہمارے اپنے ہم مذہب لوگوں سے نہیں ہو سکا۔ یہ وقت سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا بہترین وقت ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ آج ہم کتنے بے سہارا اور بے راہ رو ہیں۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ جب جب ملک اور قوم کو ضرورت پڑی ہے ہمارے علما ءنے ہی قربانیاں دی ہیں، شیخ مولانا شبیر صاحب مدنی چند دنوں میں ہمارے عظیم ملک کے عظیم قانون کی بدولت بازیاب ہو کر باہر آ جائیں گے ، لیکن ہم کو سبق سیکھنا ہوگا کہ ایسی دوسری واردات دوبارہ نا ہو تو اس کا سدباب کرنے کیلئے ہمارے اندر طاقت موجود اور ہمیں اگلیں بغلیں جھانکنے کی ضرورت محسوس نا ہو، ہم خود کو بے سہارا نا پائیں۔
قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک نیک اور عالم شخص کو جھوٹے الزامات کے تحت قید کیا گیا۔ جیل میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے علم اور حکمت سے لوگوں کی رہنمائی کی اور جیل کے ساتھیوں کو توحید کی دعوت دی۔ ان کا قول کہ "اے میرے جیل کے ساتھیو، کیا بہت سارے رب جو تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو بہتر ہیں یا وہ اکیلا رب جو تمام دنیا کا پالنہار ہے؟” (سورہ یوسف: 39) اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ علماءمشکل حالات میں بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ ہندوستان کے عظیم عالم، مفسر قرآن، اور آزادی کے مجاہد مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ علماءنے قید و بند کی صعوبتوں کو اپنے مشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اپنی کتاب غبار خاطر جیل کی تنہائی میں تحریر کی، جو آج بھی اہل علم کے لیے مشعل راہ ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ جیل کی تنہائی نے انہیں معاشرے کے مسائل پر غور کرنے اور ان کے حل تلاش کرنے کا موقع دیا۔ خلافت عثمانیہ کی حمایت میں تحریک چلانے کی وجہ سے شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مولانا حسین احمد مدنی کو مالٹا کی جیل میں قید کیا گیا۔ اس دوران بھی انہوں نے اپنی علمی خدمات جاری رکھیں اور قید کو اپنے عزائم کے لیے رکاوٹ نہ بننے دیا۔علماءدیوبند، جیسے مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور دیگر، نے اپنی زندگیوں میں نہ صرف علمی خدمات انجام دیں بلکہ استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد بھی کی۔ انہوں نے اپنے علم کو معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کیا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔تاریخی طور پر، علماءکو ان کی حق گوئی، تعلیمی خدمات، اور معاشرتی اصلاح کی کوششوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جہالت کے حامل حکمرانوں نے ہمیشہ علم کی روشنی سے خوفزدہ ہو کر اہل علم کو دبانے کی کوشش کی، لیکن علماءنے ہر دور میں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ حکومتیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اکثر اہل علم کو نشانہ بناتی ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ مولانا شبیر مدنی کی گرفتاری اسی سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔اہل علم معاشرے میں شعور بیدار کرتے ہیں، جو جہالت پر مبنی نظام کے لیے خطرہ بنتا ہے۔ مولانا شبیر مدنی کی تعلیمی خدمات نے پسماندہ علاقوں میں ترقی کی راہ ہموار کی، جو جہالت کے حامیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ایف آئی آر اور دیگر قانونی آلات کو سیاسی مخالفین یا اہل علم کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ معاشرے میں عدم اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔

Related posts

والدِ گرامی شیخ_عزیزالرحمٰن_سلفی حفظہ اللہ کی ایک اور شاہکار تصنیف

Paigam Madre Watan

شادی کی بے جا رسومات اور ان کا حل

Paigam Madre Watan

ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب حَمیدی حفظہ اللہ

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar