نئی دہلی (نیوز رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز) – جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو یکم جولائی 2017 کو نافذ کیا گیا تھا، جسے مودی حکومت نے "ایک ملک، ایک ٹیکس” کے نعرے کے تحت تاریخی اصلاح قرار دیا۔ اس کا مقصد متعدد بالواسطہ ٹیکسوں (جیسے ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، سروس ٹیکس) کو ایک یکساں ٹیکس نظام میں ضم کرنا تھا تاکہ ٹیکس کے ڈھانچے کو سادہ کیا جائے، شفافیت بڑھائی جائے، اور معاشی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ تاہم، اس کے نفاذ میں متعدد چیلنجز سامنے آئے، جنہوں نے معاشی اور سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جی ایس ٹی کو چار اہم سلیبس (5%، 12%، 18%، 28%) میں تقسیم کیا گیا، جس میں لگژری اشیاءاور نقصان دہ مصنوعات (جیسے تمباکو) پر اضافی سیس شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ، چھوٹے کاروباروں کے لیے کمپوزیشن اسکیم متعارف کرائی گئی، لیکن اس کے پیچیدہ قواعد نے چھوٹے تاجروں کو پریشانی میں مبتلا کیا۔ جی ایس ٹی کے ابتدائی نفاذ میں تکنیکی مسائل (جیسے جی ایس ٹی این پورٹل کی ناکامی)، پیچیدہ کمپلائنس تقاضے، اور بار بار شرحوں میں تبدیلی نے کاروباری طبقے، خاص طور پر غیر منظم شعبے (جو بھارت کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے)، کو شدید متاثر کیا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، جی ایس ٹی کی وصولیوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا۔ دسمبر 2024 تک، 17 کھرب بھارتی روپے جی ایس ٹی کی مد میں جمع کیے گئے، جو 2023 کے مقابلے میں 7.3% زیادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جی ایس ٹی نے حکومتی خزانے کو مضبوط کیا، جو بنیادی ڈھانچے اور سماجی بہبود کے پروگراموں کے لیے استعمال ہوا۔ جی ایس ٹی نے ڈیجیٹل ٹیکس سسٹم کو فروغ دیا، جس سے بدعنوانی میں کمی آئی۔ مثال کے طور پر، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور بینک کھاتوں کے ساتھ انضمام نے مالی شمولیت کو بڑھایا، اور مارچ 2021 تک جی ڈی پی کے 1.1% کے برابر بچت ہوئی۔
مودی حکومت کے دعووں کے مطابق، جی ایس ٹی نے کاروبار کے ماحول کو بہتر بنایا۔ ورلڈ بینک کی رینکنگ میں بھارت 2014 میں 142 ویں نمبر سے 2019 میں 77 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ ملک کا غیر منظم شعبہ، جو معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے، جی ایس ٹی کے پیچیدہ تقاضوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا۔ چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو ڈیجیٹل کمپلائنس اور کاغذی کارروائی کے بوجھ نے نقصان پہنچایا، جس سے بہت سے کاروبار بند ہوئے یا کمزور ہوئے۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا، خاص طور پر ضروری اشیاء (جیسے ادویات، گھریلو اشیائ) پر، جس نے متوسط اور نچلے طبقے کی قوت خرید کو متاثر کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جی ایس ٹی جیسے بالواسطہ ٹیکسوں نے صارفین کی خریداری کی صلاحیت کو کم کیا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد، نجی سرمایہ کاری جی ڈی پی کے تناسب سے 2007-08 میں 27.5% سے کم ہوکر 2020-21 میں 19.6% رہ گئی۔ اس کی وجہ کاروباری عدم اعتماد اور معاشی سست روی تھی، جو جی ایس ٹی کے پیچیدہ نفاذ سے مزید بڑھی۔ مودی حکومت نے متوسط طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک انکم ٹیکس سے چھوٹ دی، لیکن جی ایس ٹی جیسے بالواسطہ ٹیکسوں نے اس طبقے پر بوجھ برقرار رکھا۔ یہ پالیسی سیاسی فائدے کے لیے اٹھائی گئی، لیکن اس سے معاشی دباو مکمل طور پر کم نہ ہوا۔ غیر منظم شعبے کے تاجروں نے جی ایس ٹی کے خلاف احتجاج کیا، کیونکہ اس نے ان کے کاروباری اخراجات بڑھائے اور منافع کو کم کیا۔ اس سے روزگار کے مواقع کم ہوئے، جس نے عوامی ناراضی کو بڑھایا۔ اگرچہ مودی حکومت نے آیوشمان بھارت اور جن دھن یوجنا جیسے پروگراموں کے ذریعے غربت کم کرنے کی کوشش کی، لیکن جی ایس ٹی کے بوجھ نے نچلے طبقے پر اضافی دباو ڈالا، جس سے معاشی عدم مساوات بڑھی۔
جی ایس ٹی کے نفاذ کے سیاسی نتائج مودی حکومت کے استحکام پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی، لیکن 2024 کے انتخابات میں اسے اتحادی جماعتوں پر انحصار کرنا پڑا، کیونکہ وہ تنہا اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشی پالیسیوں، بشمول جی ایس ٹی، سے عوامی ناراضی بڑھی۔ اپوزیشن اتحاد "انڈیا”، خاص طور پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی، نے جی ایس ٹی کے نفاذ اور اس کے اثرات پر تنقید کی۔ راہل گاندھی نے مودی حکومت پر تاریخ مسخ کرنے اور معاشی بدانتظامی کا الزام لگایا۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی مقبولیت، خاص طور پر نوجوانوں میں، بڑھ رہی ہے، جو بی جے پی کے لیے خطرہ ہے۔ جی ایس ٹی کے علاوہ، مودی حکومت پر ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینے کے الزامات نے بھی سیاسی ماحول کو گرم کیا۔ مثال کے طور پر، "انڈیا” کے بجائے "بھارت” کے استعمال نے اپوزیشن کی تنقید کو جنم دیا، جس سے سیاسی تقسیم بڑھی۔ مودی حکومت نے معاشی ترقی کے کئی شعبوں میں کامیابی حاصل کی، جیسے کہ ڈیجیٹل شمولیت، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور بین الاقوامی ساکھ ۔ مثال کے طور پر، بھارت نے 2023 میں چین کو آبادی کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے متبادل منزل کے طور پر ابھرا۔ تاہم، جی ایس ٹی کے منفی اثرات، جیسے کہ غیر منظم شعبے کی تباہی اور مہنگائی، نے عوامی حمایت کو نقصان پہنچایا۔ 2024 کے انتخابات میں بی جے پی کی کمزور کارکردگی نے ظاہر کیا کہ مودی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، لیکن ان کی تیسری مدت کے آغاز نے ان کے سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھا۔ اتحادی جماعتوں کی حمایت نے حکومت کو عارضی استحکام دیا، لیکن یہ اتحاد کمزور ہو سکتا ہے اگر معاشی دباو بڑھے۔ جی ایس ٹی سے متاثرہ طبقات، جیسے کہ چھوٹے تاجر اور متوسط طبقہ، احتجاج کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر اپوزیشن ان ناراضیوں کو موثر طریقے سے سیاسی تحریک میں تبدیل کرے، تو مودی حکومت کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جی ایس ٹی ایک تاریخی اصلاح تھی جس نے بھارت کے ٹیکس نظام کو جدید بنانے کی کوشش کی، لیکن اس کے نفاذ میں خامیاں، خاص طور پر غیر منظم شعبے اور متوسط طبقے پر بوجھ، نے معاشی اور سماجی مسائل کو جنم دیا۔ اگرچہ مودی حکومت نے ڈیجیٹلائزیشن، بنیادی ڈھانچے، اور بین الاقوامی ساکھ کے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں، لیکن جی ایس ٹی سے پیدا ہونے والی عوامی ناراضی اور اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سیاسی استحکام کو خطرے میں ڈالا ہے۔ تاہم، یہ کہنا کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے مودی حکومت کا خاتمہ قریب ہے، قبل از وقت ہو گا۔ مودی کی مضبوط خارجہ پالیسی، ہندوتوا ایجنڈے کی حمایت، اور اتحادی جماعتوں کی موجودگی نے ابھی تک انہیں اقتدار میں برقرار رکھا ہے۔ لیکن اگر معاشی دباو اور عوامی ناراضی بڑھتی رہی، اور اپوزیشن اسے سیاسی طور پر استعمال کر سکی، تو حکومت کے لیے چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔
Related posts
Click to comment