Articles مضامین

بے حیائی کا ایک اہم سبب وقت پر شادی نہ کرنا ہے

رضوان اللہ عبد الرؤف سراجی ؔ (استاد : مرکز امام بخاری :تلولی) محترم قارئین ! اللہ تعالی نے ہمیں بے حیائیوں کے قریب جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا{وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ}(الأنعام:۱۵۱) ترجمہ : اور بےحیائی کے( جتنے طریقے ہیں ان کے) پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوںیا پوشیدہ ۔ حتی کہ نہ ماننے کی صورت میں ہمیں دنیا و آخرت میںدردناک عذاب کی وعید سنایاجیسا کہ فرمایا{اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ } (النور:۱۹) ترجمہ : جولوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتےہو۔ اس ممانعت اور اتنی خطرناک وعید کے باوجوہمارامعاشرہ بروقت بے شمار برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،عصمت دری وزنا بالجبر جیسے گھناونے فعل کے انجام دینے میں ذرہ برابر عار محسوس نہیںکیا جا رہاہے ،لڑکیاں اجنبی لڑکو کے ساتھ پارکوں اورہوٹلوں کا چکر کاٹ رہی ہیں لیکن ماں باپ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے ، لڑکے بے راہ روہی کا شکار ہیں لیکن ذمہ داران احساس سے عاری ہیں،بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈکے نام پر لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نا قابل تحریر اعمال انجام دینے میںمصروف ہیں اور گارجین جانتے ہوئےبھی خاموش ہیں۔ اس کے کیا اسباب ہیں ؟یہ برائیاں ہمارے معاشرے میں کیوں پنپ رہی ہیں ؟جہاں اس کے بہت سارے اسباب ہیں وہیں ایک اہم سبب وقت پر شادی نہ کرنا بھی ہے ، چونکہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کا اصول فطرت کے مطابق ہے ،اسلام نے جہاں ہمیں ہر چیز بتایا وہیں شادی کا وقت بھی بتایاکہ ایک انسان جوان ہوتے ہی شادی کرلے کیوں کہ برائیوں میں جانے کا سب سے خطرناک وقت یہی ہےجیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے واضح ہے کہتے ہیں’’ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ، وَأَنَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي العَنَتَ، وَلاَ أَجِدُ مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ النِّسَاءَ، فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قُلْتُ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قُلْتُ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ القَلَمُ بِمَا أَنْتَ لاَقٍ فَاخْتَصِ عَلَى ذَلِكَ أَوْ ذَرْ‘‘ (صحیح بخاری: 5076)
ترجمہ : میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیاکہ میں جوان ہوں اور مجھے خوف ہے کہ مجھ سے زنا نہ ہوجائے اور مجھ میں نکاح کی طاقت نہیں، آپ ﷺ نے کچھ جواب نہ دیا، میں نے پھر یہی عرض کیا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر عرض کیا، تب بھی آپ نے کچھ جواب نہ دیا، میں نے پھر اسی طرح عرض کیا، آخر آپ نے جواب دیا، ابوہریرہ جو کچھ تیری تقدیر میں تھا قلم (اسے لکھ کر) خشک ہوگیا، اب حکم الہٰی میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، چاہے تو خصی ہو یا نہ ہو۔ مذکورہ روایت میں اس بات کی کھلی وضاحت ہے کہ برائیوں میں جانے کا سب سے خطرناک وقت جوانی ہے ،اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ترغیب دیا ہے کہ انسان جوان ہوتے ہی شادی کرلے جیسا کہ علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ منٰی کی طرف پیدل چل رہا تھا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو ان کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے ،عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اے ابو عبدالرحمن! کیا ہم تیرا نکاح ایک ایسی جوان لڑکی سے نہ کردیں جو تجھے تیری گزری ہوئی عمر میں سے کچھ یاد دلا دے؟ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا :
’’ تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ‘‘ ( صحیح بخاری : 5090) ترجمہ : اے نوجوانوں کی جماعت !تم میں جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نکاح آنکھوں کو بہت زیادہ نیچے رکھنے والا اور زنا سے محفوظ رکھنے والا ہے اور جو نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے،روزہ اس کو خصی کر دیتا ہے (شہوت کم کر دیتا ہے)۔ علقمہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں دیکھئے آپ ﷺ نے صاف لفظوں میں’’ اے جوانوں کی جماعت‘‘ کہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ انسان جب جوان ہوجاتاہےتواس سے برائیوں کے صدور کا قوی امکان ہوتا ہے،لہذا جوان ہوتے ہی شادی کر لینا چاہئے، شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور ایسے بچوں کی شادی کرنے میں ماں باپ کو بھی تاخیر نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ اس سے معاشرہ بد امنی و فحاشی کا شکار ہوگا۔ اسلام نے جہاں شادی کا وقت بتایا وہیں یہ بھی بتایا کہ شادی کے لئے لڑکےیا لڑکی کا انتخاب کرتے وقت کن کن صفات پہ دھیان دینا چاہئے؟لڑکے کے سلسلے میںابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ‘‘(جامع ترمذی: 1084 ) ترجمہ :جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین واخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو اگر ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بہت فساد ہوگا۔ گویا لڑکے کا انتخاب کرنے میںہمیںاس کے دین و اخلاق پر دھیان دینا چاہئے کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میںرسول ﷺنے ہمیں فساد کی وعید سنایا ہے ۔ لڑکی کے سلسلے میں شریعت نےہمیں رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکی ویسے مالدار ہو ،حسب و نسب کے اعتبار سے بہتر ہو،خوبصورت ہواور دین دار ہوتو بہت اچھا ہے لیکن اگر کچھ نہ ہو تو دین دار ضرور ہو کیوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ‘‘ ( صحیح بخاری : 5090) ترجمہ : شادی کے لئے عورت کی چار باتیں دیکھی جاتی ہیں، مال، نسب، خوبصورتی، دین، تجھے دیندار کو حاصل کرنا چاہئے (اگر تو نہ مانے) تو تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں گے ۔ اسی طرح بعض روایتوں میں لڑکی کی ایک صفت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ لڑکی کنواری ہو(لیکن یہ کوئی ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے)کیوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے مثال دے کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہےجس سے یہ بات صحیح طور سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ بہتر یہ ہے کہ شادی کے لئے لڑکی کنواری ہومثال پیش کرتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!’’قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ نَزَلْتَ وَادِيًا وَفِيهِ شَجَرَةٌ قَدْ أُكِلَ مِنْهَا، وَوَجَدْتَ شَجَرًا لَمْ يُؤْكَلْ مِنْهَا، فِي أَيِّهَا كُنْتَ تُرْتِعُ بَعِيرَكَ؟ قَالَ: فِي الَّذِي لَمْ يُرْتَعْ مِنْهَا تَعْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَتَزَوَّجْ بِكْرًا غَيْرَهَا ‘‘ (صحیح بخاری: 5077) اگر آپ کسی مقام پر اتریں اور اس میں ایسے درخت ہوں جس میں سے کھایا ہوا ہو اور کوئی درخت آپ کو ایسا ملےجس میں کچھ نہ کھایا گیا ہو تو بتائیے آپ کون سے پیڑ سے اپنے اونٹ کوچرائیں گے؟آپ ﷺ نے فرمایا جس سے نہ چرایا گیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس سے مراد یہ تھی کی رسول اللہ ﷺ نے میرے علاوہ کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی۔ اور دوسرا یہ کہ جب آپ ﷺ کو پتہ چلا کہ جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے شادی کسی ثیبہ عورت سے کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ أَفَلَا بِكْرٌ تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ‘‘ (سنن ابوداؤد: 2048) ترجمہ : تو نے کنواری لڑکی سے نکاح کیوں نہ کیا کہ تو اس کے ساتھ کھیلتا اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی۔ اسی طرح ایک اور روایت میں زیادہ محبت کرنے والی اورزیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورت سے شادی رچانے کاحکم دیا گیا ہےجیسا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ایک عورت ملی ہے جو خوبصورت بھی ہے اور خاندانی بھی لیکن اس کے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں پھر وہ دوسری مرتبہ آیا آپ ﷺ نے پھر منع فرما دیا پھر وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ‘‘ (سنن ابوداؤد: 2050) ترجمہ : ایسی عورت سے نکاح کرو جو شوہر سے محبت کرنے والی اور خوب بچے جننے والی ہو کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں سابقہ امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا۔ یہ بات واضح رہے کہ لڑکی کے انتخاب میں جو باتیں آئی ہیں ان میں اولیت دین داری ہی کو حاصل ہے کیوں کہ ساری خوبیاں اللہ کے رسول ﷺنے بیان تو کیا لیکن دین داری پہ جتنا زور دیا اتنا کسی پر نہیں دیاجو اس بات دلیل ہے کہ دین داری اصل ہے یعنی اگر ساری خوبیاں ہوں لیکن عورت دین دار نہ ہو تو یہ ساری خوبیاں بے کار ہیں ۔ شادی کے سلسلے میںیہ شریعت کا نظام ہےجس کا لب لباب یہ نکلا کہ اولا انسان جوان ہوتے ہی شادی کرلے ،ثانیا شادی کے لئے دین دار، با اخلاق لڑکے یا لڑکی کا انتخاب کرے ،اس نظام کے تحت اگر ہم اپنے بچوں کی شادی کریں تو معاشرے میں بد امنی نہ پھیلے ،سماج برائیوں کا شکار نہ ہو،شریعت نے شادی کا جو وقت اور شادی کے لئے لڑکے و لڑکی کی جو صفت بتایا بوقت شادی اگر ہم ان کی رعایت کریں تو ہماری عزت تار تار نہ ہو ،ہم ذلیل و رسوا نہ ہوں لیکن ہم نے اس نظام کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپنے اعتبار سے دوسرا نظام مقرر کرلیا ،شریعت کی روشنی میں شادی کا جو مناسب وقت ہے اور شادی کے لئے جو مناسب ضابطہ ہے اس کی رعایت کوئی نہیں کرتا ،شریعت ہمیں اس بات کی رہنمائی کرتی ہےکہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ماں باپ اپنے بچوں ( خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) کی شادی کردیا کریںلیکن بہت سے لوگ شریعت کے اس ضابطے پر عمل نہیں کرتے،لڑکا جوان ہو جاتا ہے لیکن ماں باپ شادی نہیں کرتے ۔ لڑکے کے سلسلے میں ماں باپ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیںہواہے ،ابھی خود دوسرے کی کمائی کھارہا ہے تو کیسے اس کی شادی کردوں ؟ اس طرح کی باتیں کہہ کروالدین لڑکے کی شادی وقت پر نہیں کرتے بلکہ اسے پاؤں پہ کھڑاکرنے میں مشغول ہوتے ہیں جب تک لڑکا اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوتا ہے تب تک اس کی جوانی کا اکثر حصہ ضائع ہوجاتا ہے بلکہ یو کہہ لیجئے کہ پاؤں پہ کھڑا ہوتے ہوتے اس کے گھٹنے میں درد ہونے لگتا ہے۔ اور جب بچہ کسی نہ کسی طرح اپنے پاؤں پرکھڑاہو جاتا ہے اور اب ماں باپ کو شادی کی سوجھتی ہےتو دوسرا مسئلہ یہ رونما ہوجاتا ہےکہ کس لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی رچائیں ، لڑکا چاہتا ہے کہ ہمیں خوبصورت اورہینڈسم بیوی ملے ،ماں باپ چاہتے ہیں کہ ہم ایسی بہو لائیںجو جہیز سے میرا گھر بھر دے ،عمر کا کچھ حصہ یہی فیصلہ لینے میں صرف ہوجاتا ہے ۔ ٭ رہی بات لڑکی کے شادی میں تاخیر کی تو یہاں عجیب و غریب معاملہ ہے،چونکہ شریعت نے ہمیں جہاں لڑکی کے اوصاف سے آگاہ کیا وہیں ہمیں لڑکے کی صفات سے بھی آگاہ کیا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا : ’’ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ‘‘(جامع ترمذی: 1084 ) ترجمہ :جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین واخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو اگر ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بہت فساد ہوگا۔ لیکن شریعت کا یہ قانون بھی ہم نے پس پشت ڈال دیا ،اسے چھوڑ کر لڑکے کا انتخاب کرتے وقت جتنے منہ اتنی باتیں ہوجاتی ہیں ،لڑکی چاہتی ہے کہ میرا شوہر حسین و جمیل اور خوبصورت ہو ،ماں باپ چاہتے ہیں کہ ہمارا داماد مالدار ہو ،ڈھیر سارے پیسے کمانے والا انسان ہو ،ہماری بچی بارہویں پڑھی ہے تو لڑکا کم از کم ڈاکٹر ہو ،انجینئر ہو ،کسی بڑے پوسٹ کا مالک ہو ،ہماری بچی ڈاکٹر ہے تو ہم ڈاکٹر ہی سے شادی کریں گے ،یہی تلاش کرنے میں لڑکی کی اصل عمر ختم ہوجاتی ہے ،جب اس کے لیبل کا لڑکا اسے ملتا ہے تب تک وہ ناکام و نا مراد ہو جاتی ہے، لڑکا بیوی اور لڑکی شوہر کے قابل نہیں رہ جاتی ہے ۔ گویا لڑکے و لڑکی دونوں کے معاملے میں ہم نے تنگ نظری کا ثبوت دیا اور دونوں کا نقصان سامنے آیا ،لڑکے کاایک تو اس طور پر کہ پوری جوانی بچے کو پاؤں پہ کھڑا کرنے اور بیوی کا انتخاب کرنے میں گزار دیا ،اب جب بڑھاپا آگیا ،جب بیوی کی خواہش پورا کرنے کی طاقت اس میںنہیں رہ گئی تو ماں باپ نے شادی کیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد بیوی کسی اور کے ساتھ فرار ہو گئی اورظاہر سی بات ہے کہ ہرشخص اپنی زندگی کی امنگیں دیکھنا چاہتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت، اور نہ ہونے کی صورت میں وہ بے حیائی و فحاشی کا مظاہرہ کرےگا ۔ اور دوسرا اس طور پر کہ لڑکے کی جوانی کا جو حصہ تنہائی میں گزرتا ہے کیا وہ صاف و شفاف گزرتا ہے؟نہیں بلکہ وہ برائیوں کا شکار ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کی جوانی خود اسے بر انگیختہ کرے گی اور اسے برائیوں پر اکسائے گی ،اب اس کے پاس اگر بیوی ہوتی تو اس کی تمنا اور اس کی شہوت پوری ہوجاتی لیکن جب بیوی نہیں ہوتی ہے تویاتوکسی لڑکی سے اس کا معاشقہ ہوجاتا ہےیاپھر کسی برائی کے اڈے پر وہ چکر کاٹنا شروع کردیتا ہے ،اگر اسے کچھ نہیں ملا تو مشت زنی جیسی بیماری میں ملوث ہوجاتا ہے جس سے روکنے کی طاقت کسی میں نہیں،اس طرح سے وہ خود کو بھی ذلیل و رسوا کرتا ہے اور اپنے ساتھ اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کو بھی بدنام کرتا ہے ۔ اسی طرح لڑکی کو بھی لے لیجئے اسے بھی جب اپنی جوانی کی امنگیں پوری کرنے کا حلال موقع نہیں ملے گا تو حرام طریقے سے پورا کرنا شروع کر دیتی ہے، اگر ماں باپ وقت پر اس کی شادی کردیںتو وہ اپنے شوہر سے اٹکھیلیاں کھیلے لیکن کسی غیر کا شکار نہ ہو ۔ خلاصہ یہ کہ ہر انسان جوان ہوتے ہی شادی جیسے پاکیزہ رشتہ میں بندھ جائے اور بوقت شادی انہیں اصولوں کی پاسداری کرے جو اصول شریعت نے ہمیں بتایا ہے تب تو ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے گا اور برائیوں کا سرے سے خاتمہ ہوگا لوگوں کی ایک بہترین اورصاف ستھری زندگی گزرےگی ۔

Related posts

Owaisi has seized Waqf property worth 3,000 crores.

Paigam Madre Watan

بچوں کے مستقبل پر موجودہ ماحول کا اثر

Paigam Madre Watan

ओवैसी ने 3,000 करोड़ की वक्फ संपत्ति जब्त की है।

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar