جناب مولانا عبد الوحید صاحب سلفی رحمہ اللہ سابق ناظم اعلی جامعہ سلفیہ بنا رس و سابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی حیات و خدمات پر مشتمل ماہنا محدث بنا رس کا خصوصی شمارہ قارئین کرام کے ہاتھوں میں ہے ،مرحوم کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالنے کے لئے یہ شمارہ کس قدر مفید ہے اس کا فیصلہ قارئین کرام فرمائیں گے۔ہم نے مواد کے جمع ترتیب کے لیے لمبا وقفہ صرف کیا ہے ۔اس کے لیے محدث میں پیہم اعلانات شائع کئے گئے اور جماعت و جمعیت کے ذمہ دار صاحب کو انفرادی طور پر خطوط لکھے گئے کئی حضرات نے خمو شی گفتگو ہے بے زباں میری کے رویہ کا اظہار فرمایا بہرحال مرحوم سے متعلق جماعت و جمعیت نے ماہنا مہ محدث کو اپنی تحریروں اور تاثرات کا جو حصہ عطا فرمایا وہ ہدیہ قارئین ہے اخلاص اور عمل صالح کی جنس کامیاب کے خریداورں کے لئے چند فقرے بھی کافی ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے جماعت سلفین کے ہر دور میں بڑی بڑی شخصیات کے ٹھیک ٹھیک احوال و اعمال کو احاطہ تحریر میں لے آنا یقینا اہم کام ہے ۔البتہ اعمال کے اثرات کی جو تحریریں جمہور کے دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں ،ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس خصوصی شمارہ میں دوران تحریر اگر کہیں کچھ اانتقادات آجائیں تو ان کے متعلق کسی جذبات کا شکار ہونے کے بجائے تو ازن کی ر اہ اپنا نا چاہئے صحافتی امانت کا تقاضا ہے کہ تحریریں من وعن شائع کی جائیں قارئین کرام سے بھی گذارش ہے کہ امانت ودیانت کے زاویہ سے ان مطالعہ فرمائیں نقداگر بے جا ہو تو سلیم الفہم انسانوں کے لئے اس میں کلام کی گنجائش ہوتی ہے اور اگر برمحل اور صحیح ہو تو اسے تسلیم کر لینا عین اسلام ہے قرآن مجید نے متعدد انبیاء ورسل پر نقد کیا ہے ،اور اسے قیامت تک کے لئے نوع انسانی کی بڑی بڑی شخصیات کے احوال کو پر کھنے کا معیار قرار دے دیا ہے۔ ناظم صاحب رحمہ اللہ علیہ ہزاروں افراد پر مشتمل اپنے ذی ثروت قبیلہ کے سر دار ہونے بڑے دولت مند ہونے کے ساتھ علم دین سے آراستہ ہونے ممتار تاجر ہونے کے ناطے شہر اور بیرون شہر کے حلقہ تجار میں نمایاں حیثیت رکھنے خاندانی شرف دو جاہت کے سبب شہرو بیرون شہر میں برادارن وطن کے درمیان سیاسی روابط اثر ورسوخ اور وزن رکھنے مختلف ملی تنظیموں اور کاموں میں شریک دسہیم ہونے اور مشہور ادارہ جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلی ہونے اور پھر مرکزی جمیتہ اہلحدیث کے صدر اور امیر ہونے کی حیثیت سے ایسی تہ دار اور پہلو دار شخصیت کے مالک تھے ۔کہ بزور انشاء ان کا ایک ایسا مفصل تذکرہ مرتب کیا جا سکتا ہے جو انہیں حالیہ ملی تاریخ کی اہم شخصیات کے درمیان ایک نمایاں مقام دلاسکتا ہے لیکن شخصیات اوران کے ناموں کو اچھا لنا جماعت السلفین کا شیوہ نہیں اس کا اعتقاد ہے کہ فاما لزبد فیذھب جفاء و اماما ینفع الناس فیکمث فی الارض میل کچیل رائگاں ہو جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔ وہ زمین میںٹک جا تا ہے۔ ناظم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے حسنات میں سے اپنے خصوصی دست راست جناب ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی معیت میںجا معہ سلفیہ بنارس کی بھر پور خدمت اور اسکی ذیشان نظامت ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کی جماعت اہل حدیث کے غیور و جسور علما ء کرام کے روابط مملکت سعود عربیہ کے موحد و متبع سنت ملوک سے ہمیشہ رہے ہیں ان روابطہ کی واحد بنیا د توحید ادر اتباع سنت تھی تقسیم ملک سے خصوصیت شمالی ہندوستان کی جماعت اہلحدیث کی اجتماعی ہیت پارہ پارہ ہوگئی تھی ۔مرکزی جمعیت کی سرپر ستی میں قائم ہونے والے ادارہ جامعہ سلفیہ کے توسط سے جماعت کو بڑا سہارا ملا،موحد مملکت سے روابط اس طرح استوار ہوئے کہ جا معہ سلفیہ کو نہ صرف شا ندار عمارت ملیں بلکہ سو سے زائد طلباء بھی مملکت میں تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان روابط کی استواری میں بنارس کے اعیان جماعت کا بڑا دخل تھا، اہل حدیث خاندانوں کے روابط موحد مملکت سے بہت پرانے تھے۔ جامعہ سلفیہ کے لئے ناظم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ان خدمات میں موحد مملکت سے جماعت و جمعیت اہل حدیث کے قدیم روابط کے ساتھ ان روابط کا بھی بڑا دخل تھا جا معہ سلفیہ نے جب روابط کو تعاون کے فیضان میں تبدیلی کر دیا تو جماعت کے ایک سے زیادہ اولوالعزم اور بالغ نظر علماء نے جماعت کے بڑے حلقہ کوکئی ناحیوں سے اس تعاون سے مالا مال کردیا۔ ناظم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو مرکزی جمعتہ اہل حدیث ہند کی قیادت کا بھی اعزار حاصل ہوا ۔تقسیم ملک کے بعد جمعیت بے خانماں تھی، آپ کے قیادت میںجمعیت کے مختلف شعبہ جات کے شایان شان ایک قیمتی عمارت خریدی گئی، گو جماعت ابھی تک اس کے بارے میں مطمئن نہیں، جماعت مسلک کے لئے جو بلند عزائم اپنے سینے میں بطور امانت رکھتی ہے، اس کے پیش نظر جماعت کے افراد عموعا اس بات کے شاکی ہیں کہ اس دور میں بھی اس کے لئے کوئی کام نہ ہو سکا میں سمجھتا ہوں کہ اس کر پوری ذمہ داری ناظم صاحب رحمتہ اللہ علیہ پرڈالنا درست نہیں ہے، قومی اور اکثر یتی معاشرہ میں طبقہ ورایت کی جڑیں ہزار وں برس پرانی ہیں تمام مصلحین اسے بطور ایک حقیقت کے مان کر اس کے دائرے میں اپنی اصلاحی مساعی کے کاروبار پھیلاتے رہے ہیںمسلم معاشرہ سماجی پور پر اسی کا عکس اور مثنی ہے جس سے بد قیمتی سے جماعت اہل حدیث بھی مثنی نہیں ہے ،جماعت اہل حدیث اپنے بلند مسلکی عزائم میںاسی وقت کا میاب ہو سکتی ہے جب اپنی راہ سے اس سنگ گراں کو ہٹالم جائے ورنہ جماعت کے قائدے سے صرف اتنی ہی توقع رکھنی چاہے جتنا یہ دائرہ اسے اجازت دے۔
اخیر میں ہم اپنے ان علماء کرام اور شعرا ء حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنی منثور ومنظوم دقیع نگارشات سے ہمیں نواز ااور خصوصی شمارہ کی افادیت اور زینت میں اضافہ فرمایا ،اللہ تعالی ہمیں اخلاص اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
previous post
Click to comment