اپنا ہی دائر کیا گیا مقدمہ بیرسٹر صاحب کے گلے کا چھچھوندر بنا
نئی دہلی (رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز) میرے بیس سالہ صحافتی دور کا اویسی وہ کردار ہے جن کے آباءواجداد کا اولین پیشہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنی ہی قوم کو کس طرح سے نگل لے، حالانکہ جاندار ، چرند و پرند اپنے قبیل کے لوگوں کا چھوڑ کر ہی شکار کرتے ہیں، وہ بھی پیٹ بھرنے کے لئے۔ لیکن اویسی صاحب دنیا کی ایسی مخلوق ہیں، کہ جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو زدو کوب کرنا، کمزور کرنا اور انہیں پسپا کرنا،نا صرف ان کا بلکہ آباءواجداد کا شوق رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں دہلی میں اسمبلی الیکشن کے دوران انہوں نے دو امیدوار میدان میں اتارے، کہنے کو تو یہ دو ہی افراد ہیں، لیکن سینئر وکیل محمود پراچا کے قول کے مطابق یہ دو امید وار دراصل دہلی کے مکمل 70 سیٹوں پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ گزشتہ دنوں دہلی میں فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔ جس میں اوکھلا سے شفاءالرحمن اور مصطفی آباد سے طاہر حسین کو قید ملی، جذباتی انداز میں ان دو لوگوں کو پیرول پر باہر لانا اور ان کو امیدوار بنانے کے پیچھے مکمل مقصد یہ تھا کہ شدت پسند پارٹی کو تقویت پہنچانا، کیونکہ شفاءالرحمن اور طاہر حسین ہماری نظر میں مظلوم ہو سکتے ہیں، مگر فریق پارٹی کی نظر میں وہ مجرم اور دیش دروہی ثابت کرائے جا رہے ہیں، اور یہی ہوا کہ فرقہ پرست پارٹی کو مضبوط مواد مل گیا اور انہوں نے دہلی کے عوام کے درمیان جا کر یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو کس طرح سے دہشت گردوںکو جیلوں سے نکال کر ہمارے ملک اور خاص طور سے دہلی کو غلامی اور دہشت گردی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ خیر یہ بات تو ایک ضمنی طور پر حالیہ منظر نامے پر ہم نے کہہ دی، لیکن حیدر آباد کی تاریخ میں غوطہ زن ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ چار مینا کو آپریٹیو بینک کے مالک کو وہاں کے مقامی لیڈران نے بری طرح سے چوٹ پہنچائی ، آخر کار ایک دن یہ خبر آئی کہ چار مینار جنتا کو آپریٹیو بینک کے مالک نے اپنی ہی ریوالور سے خود کشی کرلی، جب کہ وہاں کے مقامی بزرگوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کشی نہیں بلکہ قتل تھا جس کو خود کشی کا رخ دے دیا گیا تھا، اس واقعے کے بعد دار السلام بینک پروان چڑھا، اور ابھی گزشتہ سالوں میں جب نوٹ بندی کا دور چلا تو ماہرین نے بتایا کہ دار السلام بینک کے نوٹ بندی کے دوران سات برانچیز کھولے گئے، آخر کن لوگوں کی حمایت حاصل ہے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح سے 1998میں ہیرا گروپ آف کمپنیز نام کی سود سے پاک تجارت کا نعرہ لے کر چلنے والی کمپنی نے پندرہ سالوں کا سفر طے کیا تو پتہ چلا کہ ہیرا گروپ آف کمپنیز میں حصہ داری کے لئے مقامی افراد ضد اور زبردستی سے کام لے رہے ہیں، ٹھیک یہی طریقہ چار مینار کو آپریٹیو بینک میں اپنایا گیا تھا، جس میں بڑے بڑے بدعنوان قرض لینے والے داخل ہوئے اور مقامی طاقتوں کے اشاروں پر چلتے بنے۔ لہذا ہیرا گروپ آف کمپنیز نے خود کو اس جال سے بچایا اور کہا کہ ہم صرف اور صرف ان لوگوں کے لئے سود سے پاک تجارت کا نعرہ لے کر چل رہے ہیں جو کچھ لوگ چند ہزار روپیہ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے، ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی رقم کے ذریعہ سے انہیں فائدہ پہنچا کر انہیں سود اور قرض کی لعنت سے بچاتے ہیں۔ آخر کار جب شہہ زوروں کی طاقت آزمائی نہیں چلی تو اسد اویسی صاحب نے ہیرا گروپ آف کمپنیز پر جھوٹ اور فریب ہونے کا مقدمہ درج کردیا۔ اسد الدین اویسی صاحب کا دائر کیا گیا یہ مقدمہ چار سال تک بڑی اذیت ناک اور شدت پسندی سے جانچ پڑتال کی گئی، لیکن حق پر اپنی بنیاد رکھنے والی ہیرا گروپ آف کمپنیز نے تمام آزمائشوں سے نکل کر اسد اویسی کو ان کے ہی مقدمے میں شکست فاش دی۔ اور جواب کے طور پر بیرسٹر اسد اویسی پر ہتک عزت اور کمپنی کو توڑنے کے مقصد میں سو کروڑ روپیہ ہرجانے کا دائر کر دیا۔
بیرسٹر اسد اویسی پر دائر کیا گیا ہرجانے کا 100کروڑ کا مقدمہ اب ان کے گلے کی چھچھوندر بن گیا ہے، نا اسے اگلتے بن رہا ہے اور نا ہی نگلنے بن رہا ہے۔ اسد اویسی اپنے شہباز احمد خان جیسے مجرم شبیہ لیڈران سے عوام میں افواہ پھیلاتے ہیں کہ یہ مقدمہ خارج ہو گیا، اور کبھی وہ خود عدالت میں عرضی داخل کرتے ہیں کہ اس مقدمے کو منسوخ کردیا جائے۔ آخر بیرسٹر صاحب کو کیا غرض تھی ایک مسلم معیشت ، سود سے پاک تجارت کو تہہ و تیغ کریں۔ آخر اویسی صاحب کو سوائے اپنی قوم کے لئے نقصاندہ، ٹھیکہ دار اور دلال کے کچھ ثابت نا ہوسکے۔ زبانی جمع خرچ سے کام چلانے والے اسد اویسی، اپنے بینک میں ہر سال حیدر آباد کی غریب خواتین کے گہنے اور زیورات کے سینکڑوں کلو نیلام کرنے والے، ملک بھر میں گھوم پھر کر اقلیتوں کے حق رائے دئے کو مسمار کرنے ،ہم وطن بھائیوں کو مشتعل کرنے کے علاوہ کیا ہی کیا۔ لہذا عوام اس مکروہ چہرے کو پہچانے کہ مدد کے نام پر کبھی دو روپیہ کسی کے ہاتھ پر نا رکھنے والے، الیکشن اور ووٹ کے ذریعہ جیل میں بند رہنے والوں کی کوشش ہر شخص سمجھ سکتا ہے، بہتر تو یہ ہوتا کہ اسد اویسی صاحب خود بھی مسلم امہ کے لئے مددگار ثابت ہوتے، اور جیلوں میں بند بے قصوروں کو قانون اور اپنی بیرسٹری کی مدد سے باہر لانے کی کوشش کرتے اور جو لوگ قوم وملک کی خدمت کر رہے ہیں ان کے لئے مددگار اور حمایتی ثابت ہوتے ، لیکن افسوس در افسوس کہ مثبت کام کا ایک قدم اویسی صاحب نے آج تک نہیں دکھایا، البتہ ان کے آباءواجداد سے لے کر ان کے پرکھے تک زمینوں کے قبضہ کرنے، وقف کی زمینوں کے بٹوارے، سیکڑوں آثار قدیمہ کی مسجدوں پر تالے، ہزاروں مظلوموں کی آہ وبکااور پھر یہ تیس چالیس لاکھ آبادی کی روٹی روٹی سبھالنے والی کمپنی کے پیچھے اویسی صاحب کا مقدمہ اور پھر سو کروڑ کے ہتک عزت کیس اور اویسی صاحب کے گلے چھچھوندے جسے تر نوالہ سمجھ کر اویسی صاحب نے نگلنے کی پوری کوشش کی تھی، پھر آج جب گلے کا پھانس بن گیا ان کا مقدمہ تو چیخنے چلانے سے کیا فائدہ؟