از قلم : محمد فرقان
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی شناخت اس کی گنگا جمنی تہذیب، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے بنی ہے۔ صدیوں سے یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، جین، بدھ سبھی مذاہب کے لوگ نہ صرف ایک ساتھ رہتے آئے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہو کر محبت، اتحاد اور یکجہتی کی لازوال مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔ عیدین ہوں یا دیگر مذاہب کے تہوار ان سب مواقع پر ہندوستانی معاشرہ ایک رنگین گلدستے کی مانند نظر آتا تھا جہاں مذہب اور ثقافت، تعصب اور نفرت سے بالاتر ہوکر صرف انسانی اقدار اور اخوت کی بنیاد پر پروان چڑھتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ادھر چند دہائیوں سے اس گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی رواداری کو کسی کی نظر لگ گئی ہے اور فرقے پرست عناصر اس چراغِ کو مسلسل بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
عید الاضحی، جو قربانی، ایثار اور توحید کی علامت ہے، ہر سال پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی تزک و احتشام سے منائی جاتی ہے۔ حالیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ملک بھر میں تقریباً تیس کروڑ مسلمانوں نے نہایت سکون، صبر، اور باوقار انداز میں اپنے مذہبی فریضے ادا کیے۔ لاکھوں لاکھ مسلمان نماز عید کے لیے عیدگاہوں اور مساجد میں جمع ہوئے، اللہ کے حضور جھکے، اور پھر قربانی کی سنت ادا کی۔ یہ تمام سلسلہ ایسے وقت میں انجام پایا جب ہندوستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت نے فضا کو مکدر کر رکھا تھا، لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے اس موقع پر جس شعور، ذمہ داری اور ضبط کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور سیکولر کردار کا عملی ثبوت بھی ہے۔
بقرعید کے دوران، جب ملک کے لاکھوں مسلمان اپنے مذہبی فرض کی ادائیگی میں مصروف تھے، کچھ جگہوں پر ایسی مشکلات اور رکاوٹیں بھی سامنے آئیں جن کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچانا تھا بلکہ ان کے مذہبی جذبے کو بھی ٹھیس پہنچانا تھا۔ کئی شہروں میں جہاں مسلمانوں نے اپنی قربانی کی تیاری کی، وہاں کچھ اشتعال انگیز عناصر نے جان بوجھ کر مسائل پیدا کیے۔ مثلاً بعض علاقوں میں جانوروں کی خرید و فروخت میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، قربانی کے لیے مختص جگہوں پر پولیس یا انتظامیہ نے غیر ضروری پابندیاں عائد کیں، اور بعض مقامات پر ناپسندیدہ ہجوم نے مساجد یا عیدگاہوں کے گرد ہنگامہ برپا کیا۔
عید قرباں عطاء، ایثار اور روحانی وحدت کا پیغام لیے ہوتا ہے، لیکن 2025 میں بھارت کے کئی علاقوں میں مسلمان اس مقدس دن کو خوف، پابندیوں اور انتظامی مظالم میں گزارنے پر مجبور ہوئے۔ کشمیر کے سری نگر میں جامع مسجد کو عید کے دن انتظامیہ کی طرف سے بند کر دیا گیا۔ پوری وادی میں مسلمانوں کی عبادات پر خاموش پہرہ بٹھا دیا گیا۔ یہ سب ایک ایسے خطے میں ہوا جو پہلے ہی سیاسی قید میں ہے، اب مذہبی جبر کا بھی شکار ہو چکا ہے۔ اترپردیش میں مجمع بڑھنے پر سڑکوں پر نمازِ عید کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔ بعض مقامات پر پولیس نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اگر کسی نے سڑکوں پر نماز پڑھی تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ یوں لگتا ہے جیسے مسلمانوں کو ان کی عبادات بھی ریاست کی اجازت سے کرنی ہوں گی، اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے سڑکوں کا استعمال صرف مسلمانو پر ہی پابندی ہے دیگر مذاہب والے جو چاہئیں کرسکتے ہیں۔ قربانی کے لیے جانور لانے والوں کو کہیں گئو رکشکوں نے روکا، کہیں گاڑیوں کی تلاشی لی گئی، تو کہیں راستے میں پتھراؤ اور تشدد کی اطلاعات آئیں۔ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی قربانی کا نشانہ بنایا گیا، فرق صرف اتنا تھا کہ ان کا خون سڑکوں پر بہنے سے پہلے خوف کی زبان میں سلب کر لیا گیا۔ دہلی اور یوپی میں باقاعدہ اوپن اسپیس میں قربانی تک کرنے پر پابندی عائد کی گئی، ملک کے کئی علاقوں سے خبر موصول ہوئی کہ مقامی انتظامیہ نے گھروں سے قربانی کے جانوروں کو ضبط کرلیا، یہاں تک کہ جن ریاستوں میں اقتدار کی کرسی پر سیکولر کہلائے جانے والی پارٹیاں موجود ہے وہاں سے بھی ایسی خبریں موصول ہوئیں، بنگلور کے کئی علاقوں میں ہندوتوا عناصر کے دباؤ میں انتظامیہ نے قربانی کے جانور ضبط کئے۔ بقرعید سے پہلے اور دوران، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانات کا سیلاب آیا، سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف زہریلی ٹویٹس کی جارحانہ مہم چلائی گئی، بنگال میں بی جے پی کے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے بھی عید پر نفرت بھرا ماحول پیدا کیا۔ کچھ شدت پسند لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا۔ انہیں درندہ پرست، گوشت خور، اور غدار جیسے القاب سے نوازا گیا۔ مہاراشٹر کے وزیر نتیش رانے نے نفرت انگیز بیان دیتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ ’’قربانی کرنے والے پر ہماری ہندوتوا سرکار کاروائی کرے گی‘‘۔ کرناٹک، مہاراشٹرا، یوپی، بہار، دہلی، آسام کے مضافاتی علاقوں میں نفرت کا وطیرہ پھیلا، جس پر نہ میڈیا نے سوال اٹھایا، نہ قانون نے مداخلت کی، اور انتظامیہ مسلسل خاموش رہی۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہی ہے کہ ریاستی ادارے یا تو خاموش رہے یا بعض جگہوں پر اس ظلم کے معاون بنے۔ جبکہ یہ سب کچھ انسانی حقوق اور آئین کے مُبنی برابری فریم ورک کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 14، 19، 25، 28 ہر شہری کو مذہبی آزادی، مساوی حقوق، اور پرامن اجتماع کا حق دیتا ہے، مگر مسلمانوں سے یہ حقوق روز بروز چھین لیے جا رہے ہیں۔
لیکن ان تمام حالات کے باوجود مسلمانوں نے مکمل تحمل، صبر اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے نہ تو غصہ ظاہر کیا، نہ ہی انتشار پھیلایا بلکہ قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی عبادات جاری رکھیں۔ مثال کے طور پر، بہار اور مدھیہ پردیش کے چند علاقوں میں جب قربانی کے جانوروں کی خریداری میں رکاوٹیں پیش آئیں تو مسلمان کمیونٹی نے قانونی راستے اختیار کیے اور انتظامیہ سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ کہیں بھی عوامی مقامات پر شور شرابہ یا ناخوشگوار واقعات نہیں ہوئے، جس نے ملک بھر میں امن قائم رکھنے میں مدد دی۔ یہی نہیں، کئی جگہوں پر جہاں مخالف عناصر نے اشتعال انگیزی کی کوشش کی، وہاں مسلمانوں نے اپنی مثال آپ قائم کی۔ انہوں نے مسجد اور گھروں کے باہر صفائی کا خاص خیال رکھا، مقامی پولیس اور انتظامیہ کے تعاون سے اپنی قربانی کے عمل کو منظم انداز میں مکمل کیا، اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اس رویے نے نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی و اخلاقی تربیت کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا بلکہ ایک طرح سے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ اسلام مذہب میں صرف عبادت اور قربانی نہیں، بلکہ تحمل، برداشت اور بھائی چارہ بھی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قربانی کے موقع پر مختلف شہروں میں مسلمانوں نے ہندو، سکھ اور عیسائی پڑوسیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کیا، کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کیں اور ایک دوسرے کی مذہبی جگہوں کا احترام کیا۔ اس رویے نے اس بات کو ثابت کیا کہ مسلمانوں کا مذہب نفرت، تشدد اور انتشار کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ یہ رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر فرقہ پرست عناصر نے چھوٹے بڑے پیمانے پر جھگڑے یا رکاوٹیں پیدا کیں، لیکن ان کے باوجود پوری کمیونٹی نے تحمل اور قانون کی پاسداری کو مقدم رکھا، اور ہر قسم کے نقصان دہ عناصر کے خلاف صبر و بردباری سے کام لیا۔
یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ ہندوستانی مسلمان آج بھی ان روایات کے امین ہیں جو ان کے آبا و اجداد نے صدیوں پہلے قائم کی تھیں؛ وہ روایات جن میں دوسروں کے مذہب کا احترام، پڑوسیوں کے جذبات کا خیال، اور معاشرتی ہم آہنگی کو اولیت حاصل رہی ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کی وہ کہانیاں آج بھی بزرگوں کی زبان پر زندہ ہیں جن میں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت، ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے، اور غمی خوشی میں شریک ہونے کی روایت پائی جاتی تھی۔ اسی تاریخی ہم آہنگی کو عید الاضحٰی کے اس حالیہ موقع پر ایک بار پھر زندہ کر دیا گیا۔ عید کی نماز کیلئے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے اکھٹا ہونے کے باوجود کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان مذہب کے نام پر نفرت نہیں، بلکہ قربانی، ایثار، اور رواداری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ یہ وہ طرز عمل ہے جو صرف کسی ضابطے یا قانون کے خوف سے نہیں، بلکہ دلوں میں موجود اس محبت، اس اخلاقی فہم، اور اس دینی تربیت سے جنم لیتا ہے جو اسلام کا اصل جوہر ہے۔ اور یہی وہ رویہ ہے جو امن، بھائی چارے اور ملکی یکجہتی کی بنیاد بن سکتا ہے، بشرطیکہ اسے تسلیم کیا جائے، سراہا جائے، اور دوسروں کے لیے بھی ایک معیار بنایا جائے۔
لیکن اس مثبت طرز عمل کے برعکس ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جب بعض دوسرے مذاہب کے تہوار آتے ہیں، جیسے رام نومی، ہنومان جینتی، یا نوراتری کے مواقع پر، تو ملک کے مختلف حصوں سے ایسی خبریں موصول ہوتی ہیں جن سے مذہبی ہم آہنگی کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔ متعدد بار یہ دیکھا گیا ہے کہ جلوسوں کے نام پر مساجد کے سامنے دانستہ اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی، گانے بجائے گئے، تلواریں اور دیگر ہتھیار لہرائے گئے، اور بعض اوقات نشے کی حالت میں ہنگامہ آرائی بھی کی گئی اور مسجد میں توڑ پھوڑ اور اسے نذر آتش بھی کیا گیا۔ صرف 2023 میں رام نومی کے موقع پر بہار، مغربی بنگال، گجرات اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ کچھ جگہوں پر مساجد پر پتھراؤ ہوا، کچھ جگہوں پر مساجد کے باہر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے افراد نے نفرت آمیز نعرے بازی کی، اور کہیں پر مسجد کی دیواروں پر چڑھ کر جھنڈے لگانے کی کوششیں کی گئیں۔ حیدرآباد میں ٹی راجہ سنگھ نامی بی جے پی رکن اسمبلی نے رمضان اور عید کے دوران اشتعال انگیز بیانات دیے، جس میں مسلمانوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ ان کے بیانات کو لاکھوں افراد نے دیکھا، سنا اور سراہا، لیکن پولیس کی کارروائی کا حال یہ رہا کہ اکثر مقدمات یا تو دب گئے یا سست روی کا شکار ہو گئے۔ مغربی بنگال میں 2023 کی رام نومی کے موقع پر ہاؤڑہ اور بہالا میں شدید تشدد ہوا، جہاں مندروں کے قریب سے گزرنے والے جلوسوں نے مساجد کے سامنے رک کر گانے بجانے اور نعرے بازی کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران شرپسند عناصر نے پتھراؤ بھی کیا جس سے کئی مکانات اور دکانوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ بعض ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جلوس شرکاء نشے کی حالت میں مساجد کے سامنے ناچ رہے ہیں، اور بھڑکاؤ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ سال 2022 میں جودھ پور، راجستھان میں عید سے ایک دن پہلے ہندو مسلم جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب ایک خاص مجسمے کے مقام پر جھنڈا لگانے کے مسئلے کو لے کر دونوں کمیونٹی آمنے سامنے آ گئیں۔ پولیس کو کرفیو نافذ کرنا پڑا اور کئی دن تک انٹرنیٹ بند رہا۔ وہاں بھی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں نوجوان شراب کے نشے میں مساجد کے باہر ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی طرح ہنومان جینتی کے موقع پر دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 2022 میں جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو ڈھول، باجے اور تلواروں کے ساتھ مظاہرہ شروع ہوا۔ کچھ لوگوں نے مسجد کے سامنے رقص کیا، تو کچھ نے مسجد کے گیٹ کے اوپر چڑھ کر جھنڈے لگانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جو تصادم ہوا وہ کئی دنوں تک میڈیا میں چھایا رہا، مگر میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے ان اشتعال انگیز حرکات کو نظرانداز کیا اور صرف ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ یوپی کے کئی اضلاع، خاص طور پر علی گڑھ، کانپور اور میرٹھ میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ تہواروں کے دوران منظم طور پر مسجدوں کے قریب جلوس گزارے جاتے ہیں، اور وہاں نعرے بازی کی جاتی ہے۔ کئی بار پولیس کو لکھ کر اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ جلوس متبادل راستوں سے گزارے جائیں تاکہ امن برقرار رہے، لیکن اکثر اوقات انتظامیہ یا تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا ان عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے۔ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جہاں مسجدوں پر جھنڈے لگانے، لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے، اور یہاں تک کہ جان بوجھ کر نماز کے اوقات میں شور مچانے کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔
اس تمام پس منظر میں اگر مسلمانوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو ایک حیران کن تضاد سامنے آتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی، اتنی وسیع پیمانے پر اجتماعات، لیکن نہ کہیں مذہبی مقامات کی بے حرمتی، نہ کوئی انتشار، نہ کسی کی دل آزاری۔ نہ کسی مندروں کے سامنے مذہب مخالف نعرے، نہ کوئی ایسا واقعہ کہ مسلمانوں نے اپنے جلوس میں نفرت کو ہوا دی ہو۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر بعض عناصر جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلاتے ہیں، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان تہواروں کے دوران امن کے لیے خطرہ ہیں۔
ان تمام حالات اور مشاہدات کی روشنی میں اگر ہم ہندوستان میں واقعی ایک پرامن، جمہوری اور ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو اس کا واحد مؤثر اور دیرپا حل صرف انصاف، ایماندارانہ میڈیا کوریج، اور سخت قانونی کارروائی میں ہے۔ جب تک حکومتیں، پولیس، اور ریاستی ادارے اپنی جانبداری ترک نہیں کریں گے، اور جب تک نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف بلاتفریق اور فوری ایکشن نہیں ہوگا، تب تک فرقہ وارانہ کشیدگیاں یونہی بڑھتی رہیں گی، اور معاشرہ خوف، عدم اعتماد اور انتشار کا شکار ہوتا رہے گا۔ ملک کے ہر شہری کو اس کا مذہبی حق، اس کا وقار، اور اس کی عبادت کی آزادی بغیر کسی دباؤ، پابندی یا خوف کے حاصل ہونا چاہیے، یہ نہ صرف انسانی حق ہے بلکہ آئینِ ہند کی دفعات 14، 19، 25 اور 28 کی بھی بنیادی ضمانت ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ مذہبی یا سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر آئینی اصولوں کے مطابق غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں تاکہ کسی بھی برادری کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ میڈیا کو بھی اپنی بنیادی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سچائی، توازن اور اخلاقیات پر مبنی رپورٹنگ کرنی ہوگی، تاکہ وہ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے نہ کہ نفرت کو۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت انگیز مہمات کو روکنے کے لیے مؤثر سائبر قوانین کا اطلاق، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ اسی کے ساتھ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کے سلسلے میں لوگوں کو متوجہ کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کو محض قانون و امن کا مسئلہ نہ سمجھے، بلکہ اسے انسانی حقوق اور قومی یکجہتی کا مسئلہ تصور کرتے ہوئے دیرپا حل نکالے۔ مذہبی آزادی کا تحفظ حکومت، عدلیہ، اور سول سوسائٹی کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اور اس کے لیے ہر سطح پر بیداری، تربیت، اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں اور میڈیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری، اور سماجی وحدت کے پیغامات کو فروغ دینا ہوگا تاکہ نئی نسل کو نفرت کی بجائے محبت، احترام اور باہمی بقاء کا پیغام ملے اور ہم آہنگی کا شعور حاصل ہو۔ سب سے بڑھ کر، اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد، مذہبی رہنما، اور رائے ساز طبقہ اگر اقلیتوں کے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے کھل کر آواز بلند کریں، تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے جہاں ہر شخص کو بلاخوف اپنی عبادات، تہواروں اور شناخت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔ یہ سب اقدامات محض اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے جمہوری اور اخلاقی مستقبل کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ کیونکہ جب قانون، اخلاق، اور انصاف سب کے لیے برابر ہوں گے، تب ہی ہندوستان اپنی اصل شناخت یعنی ــ’’وحدت میں کثرت‘‘کے فلسفے پر قائم رہ سکے گا، اور نفرت و انتشار کے بجائے محبت، قربانی، ایثار اور اخوت کی روشنی میں ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔
اس تمام پس منظر میں، عید الاضحی جیسے مواقع پر ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جس تحمل، صبر، قانون پسندی، اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا، وہ نہ صرف ایک اخلاقی اور سماجی مثال ہے بلکہ ان تمام الزامات کو بھی جھٹلا دیتا ہے جو بعض شدت پسند حلقے مسلمانوں پر لگاتے ہیں۔ ان کا رویہ یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام صرف عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ رواداری، ایثار، اور معاشرتی ہم آہنگی کا بھی داعی ہے۔ اس طرز عمل کو نہ صرف سراہا جانا چاہیے بلکہ اکثریتی برادری اور ریاستی اداروں کے لیے ایک مشعل راہ بننا چاہیے۔ کیونکہ احترام صرف دوسروں سے مانگا نہیں جاتا، بلکہ اسے اپنے کردار، گفتار اور عمل سے کمایا جاتا ہے اور ہندوستانی مسلمان بار بار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے اہل ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست، سماج، اور میڈیا بھی اسی بالغ نظری، انصاف پسندی اور انسانی اقدار کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ ہندوستان واقعی ایک ایسا ملک بن سکے جہاں ”سب کا ساتھ، سب کا وِکاس” محض نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہو۔ کیونکہ بقرعید جیسے پُرامن اور روحانی تہوار پر ہندوستانی مسلمانوں نے جس صبر، نظم، اور اخلاق کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف ان کے کردار کی پختگی کا آئینہ ہے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک ضمیر کی دستک بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ایک فریق کو صرف صبر، قربانی اور خاموشی کی تلقین کی جاتی رہے گی، اور کب وہ دن آئے گا جب انصاف، برابری اور مذہبی آزادی کو عملی طور پر سب کے لیے یکساں بنایا جائے گا؟ اس مضمون کا مقصد صرف شکایت نہیں بلکہ شعور ہے؛ صرف زخم نہیں بلکہ علاج کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ہم واقعی ایک جمہوری، باوقار اور مہذب ہندوستان چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے صرف اقلیتوں کی رواداری پر انحصار نہیں کرنا ہوگا، بلکہ اکثریتی طبقے، ریاستی اداروں، اور میڈیا کو بھی اس روشنی کا حصہ بننا ہوگا۔ ورنہ یہ چراغ، جنہیں ابھی تک طوفانوں نے بجھنے نہیں دیا، ایک دن تھک کر خود ہی گل ہو سکتے ہیں، اور اس کا خمیازہ صرف اقلیتیں نہیں، بلکہ پورا ہندوستان بھگتے گا۔
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹرہیں)