ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514
(۱) قیامت تک کیا ہوگا:
حضرت حذیفہؓنے کہا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺایک جگہ پر کھڑے ہوئے اورکھڑے ہونے کے وقت سے قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی جواُنہوں نے بیان نہ کر دی۔کسی نے یاد رکھا اور کوئی اُسے بھول گیا۔ جب کوئی بات ظاہر ہوتی تو میرے ساتھیوں میں سے کوئی وہ بات بتا دیتا جس کو میں بھول گیاہوتا تو مجھے یاد آ جا تی جیسے غائب آدمی کا چہرہ یاد آ جاتا ہے اور میں اُسے دیکھ کر جان لیتا۔(بخاری، مسلم)
جو لوگ قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اُن کو موجودہ حالات کے بگاڑ کو دیکھ کر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اُن کو معلوم ہے کہ یہ سب ہونا ہے اور نبی ﷺ کی بتائی ہوئی بات غلط نہیں ہو سکتی ہے۔جو لوگ قرآن و سنت کا علم نہیں رکھتے ہیں وہ ادھر اُدھر کی بے بنیاد اورجھوٹی باتوں کو سنتے اور نقل کرتے رہتے ہیں ، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔یہ عمل اپنے آپ میں ایک سنگین گناہ ہے۔
(۲) قیامت سے پہلے پانچ باتیں ظاہر ہوں گی:
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:زمانہ قریب ہو جائے گا۔ علم اٹھا لیا جائے گا۔فتنے ظاہر ہوں گے۔ بخل (دلوں میں )ڈال دیا جائے گا۔اور ہرج (قتل) کی کثرت ہو جائے گی۔(بخاری،مسلم) وقت کا بے برکت ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ وقت بہت جلدی جلدی گزرنے لگے گا اور کام کرنے کے لئے وقت کم پڑنے لگے گا۔ایسا اس وقت ہو رہا ہے اور ہر آدمی اس کا تجربہ کر رہا ہے۔
علم سے لوگوں کا محروم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔ اسلام میں علم کا اصل مرکز قرآن مجید ہے۔آج وہ صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ عام آدمی کو تو چھوڑیے مسجدوں کے وہ امام جو پنج گانہ اور جمعہ کی نمازیں پڑھاتے ہیں وہ قرآن سے ناواقف اور بے علم ہو چکے ہیں۔یہ لوگ اپنے جمعہ کے خطبے یا تقریروں میں قرآن و سنت کی جگہ اپنے بڑوں کی سنی ہوئی باتوں کوسناتے رہتے ہیں جن میں اکثر غلط اور جھوٹی ہوتی ہیں۔ خود بھی گمراہ ہیں اور سننے والوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔موجودہ دور میں شاید ہی کوئی ایسا علم ملے گا جو اسلام کی تمام بنیادی باتوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں بتانے کی لیاقت رکھتا ہوگا۔یہ بے علمی کا دور ہے جس کی پیشین گوئی رسول اللہﷺ نے کی ہے۔
ایمان کو خطرے میں ڈالنے والے فتنوںکا ظاہر ہونا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے رنگ ڈھنگ ایسے ہو جائیں گے جن کی پیروی کرتے ہوئے ایمان والوں کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا، لیکن مسلمانوں کو ایمان سے محرومی کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔اُن کو شریعت کے مقابلے میں وقت کا فیشن زیادہ پیارا ہو جائے گا اور وہ آج ہو چکا ہے۔
مالدار ہونے کے باوجود بخیل ہو جانا اور دنیا داری بڑھ جانے کے سبب قتل و غارت گری کا حد سے زیادہ ہونے لگنا قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا جا رہا ہے۔ شریعت کے مطابق مالدار ہونے کے بعد اہل ایمان کو سخی اورفیاض ہونا چاہئے اور اپنے ناداررشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خبر گیری اور اُن کے کام آنا چاہئے۔لیکن آج کے مالدار لوگ انتہائی خود غرض ، بخیل اور کنجوس ہو چکے ہیں۔وہ اپنے شوق اور ارمان کے لئے لاکھوں اور کروڑوں خرچ کرتے ہیں لیکن نادار مسلمان بھائیوں کی اُنہیں کوئی پروا نہیں ہے،وہ اُن کے کچھ بھی کام نہیں آتے ہیں۔وہ ایک ساتھ کئی گناہ کر رہے ہیں۔ پہلا گناہ دولت میں خدا اور بندگان خدا کا جو حق ہے اُس میں بے ایمانی کے مجرم بن رہے ہیں،دوسرے مسلمان کا مسلمان پر جو حق ہے اُس کی حق تلفی کرنے کے مجرم بن رہے ہیں، تیسرے بد اخلاقی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں جس کے بعد اُن کا ایمان سلام رہ ہی نہیں سکتا ہے۔چوتھے اللہ کو راضی کرنے کی جگہ ناراض کر کے اُس کے عتاب اور عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔سنگین مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ اُن کا خوشامدی بن چکا ہے اور اُن کو اس پر ٹوکنے کی جگہ دعاؤں کے بھلاوا دے رہا ہے۔
(۳) امانت داری ختم ہو جائے گی:
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ امانت لوگوں کے دلوںپر نازل ہوتی ہے، پھر لوگ قرآن مجید سکھائے جاتے ہیں پھر سنت کا علم۔پھر نبی ﷺنے اُن کے اٹھنے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ آدمی سوئے گا تو امانت اُس کے دل سے کھینچ لی جائے گی…… پھر صبح کو لوگ خرید و فروخت کریں گے اور اُن میں امانت ادا کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں امانت دار آدمی ہے۔ کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کتنا عقل مند ،کتنا خوش مزاج اور کتنا ہوشیار ہے، لیکن اُس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔(بخاری، مسلم)
ایک دوسری حدیث میں منافق کی چار پہچان بتائی گئی ہے بات کرے تو جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، امانت میں خیانت کرے اور جھگڑ کرے تو گالم گلوج پر اتر آئے۔یہاں کہا جارہا ہے کہ لوگوں کے دل امانت سے محروم ہو جائیں گے یعنی وہ مومن نہیں بلکہ منافق بن جائیں گے۔ اور منافق کے متعلق قرآن میں لکھا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھے جائیں گے۔کتنی سنگین صورت حال ہے کہ آج عام طور پر لوگ امانت میں خیانت کرنے والے بن چکے ہیں۔نمازی اور حاجی ہو کر بھی منافق جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
(۴) فرقہ بندی گمراہی ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا اس خوف سے کہ کہیں وہ مجھ تک نہ پہنچ جائے۔میں نے نبیﷺسے عرض کیا کہ ہم لوگ دور جاہلیت میں شر میں تھے تو اللہ تعالیٰ خیر لے آیا کیا اس کے بعد بھی شر ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا شرکے بعدخیر ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا ہاں، لیکن اس میں دھواں ہوگا۔میں نے پوچھا اس کا دھواں کیا ہے ؟ نبیﷺنے فرمایا:لوگ میرے طریقے کے سوا دوسرا طریقہ اور میری عادت کے سوا دوسری عادت اختیار کریں گے۔اُن کی بعض باتیں اچھی ہوںگی اور بعض باتیں بری ہوں گی۔میں نے پوچھا کیا خیرکے بعد شر ہے ؟ نبیﷺ نے فرمایا ہاں، جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے، جو اُن کا کہا مانے گا اُسے آگ میں ڈا لا جائے گا……………(بخاری، مسلم)ابھی مسلمان جماعت کی جگہ فرقہ بندی میں پڑ ے ہوئے ہیں۔نبی ﷺ اس فرقہ بندی سے الگ رہنے کی ہدایت دے رہے ہیںاور بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ دین کا نام لے کر جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو اُن کا کہا مانے گا وہ جہنم میں جائے گا۔کاش سمجھ دار مسلمان نبیﷺ کی اس ہدایت کو یاد رکھیں اور ہر فرقے سے اپنا ناطہ توڑ کر سنت کی پیروی کریں۔
(۵) مال کی کثرت ہو جائے گی:
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مال بڑھ کر عام نہ ہو جائے،ایک آدمی مال(زکوٰۃ) لے کر نکلے گا مگر کوئی اُسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔یہاں تک کہ عرب کی سرزمین بھی چراگاہیں اور نہروں میں تبدیل ہو جائے گی۔ (مسلم) یہ وقت خلیفہ عثمان غنیؓ کے دور میں آچکا ہے ، اور اب پھر آ چکا ہے ۔تیل کی دولت نکلنے کے بعد عرب مالا مال ہو گئے ہیں۔اور صرف عرب ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمان مال و دولت کی ہوس میں مبتلا ہو کر دین و شریعت سے بیگانے ہو گئے ہیں اور صرف زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔کسی کو زکوٰۃ اور صدقہ دینے کی فکر نہیں ہے۔عرب میں اس وقت جو حالات بدل رہے ہیں اور وہاں عام آدمی تو چھوڑیے خود شاہی خاندان زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی تدبیریں کر رہا ہے اور حرمین شریفین کا احترام مجروح کرنے میں اُس کو ذرا افسوس اور ملال نہیں ہو رہا ہے۔
(۶) جھوٹ بولنے والے:
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سنا قیامت سے پہلے جھوٹ بولنے والے بہت ہوں گے، اُن سے دور ہی رہنا۔ (مسلم ) ……نبیﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہو گئی مسلمان کہتا ہے کہ آج جھوٹ بولے بغیر کام چل ہی نہیں سکتا ہے۔شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ملے گا جس کے متعلق کہا جا ئے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔عام آدمی کے ساتھ عالم فاضل،مسجدوں کے امام اور جماعتوں اور امارتوں کے امیر و سردار تک جھوٹ بول رہے ہیں۔اُن کا پہلا جھوٹ یہ ہے یہ وہ دین کی اصلی تعلیم جو قرآن و سنت کی بنیاد پر طے ہوتی ہے اُس کی تعلیم اپنے پیچھے چلنے والوں کو نہیں دے رہے ہیں۔اُن کا دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ زکوٰۃ، خیرات اور صدقہ کا اصل مصرف شریعت میںبتایا گیا مسلم عوام کو اُس کے متعلق نہیں بتا رہے ہیں اور سارا مال خود ہڑپ کر کھا رہے ہیں جو حرام ہے۔اُن کا تیسرا جھوٹ یہ ہے کہ نبیﷺ خطبہ دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ تم میں سے جو علم رکھتا ہے وہ بے علم کو اس سے آگاہ کرے لیکن ان میں کا کوئی فرد مسلم عوام کو دین کی تعلیم نہیں دے رہا ہے۔اور اس طرح رسول اللہﷺ کی نافرمانی کرنے کا مجرم بن رہاہے۔
(۷) دنیا نااہل کے حوالے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر پوچھا، قیامت کب ہوگی ؟ رسول اللہﷺنے فرمایا:جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔پوچھا گیا امانت کیسے ضائع کر دی جائے گی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دنیا کا کاروبار نااہل لوگوں کے حوالے کر دیا جائے گا تو قیامت کا انتظار کرنا۔(بخاری)
اس وقت دنیا کا سار ا انتظام نااہل لوگوںکے ہاتھوں میںہے اور ہر ملک کی عوام اپنے سیاسی آقاؤں کے ہاتھوںتباہ وبرباد کی جا رہی ہے۔یہ جرم صرف اہل باطل نہیں کر رہے ہیں دنیا بھر کے سارے مسلمان اس میں شریک اور شامل ہیں۔جتنی مسلم حکومتیںہیں اُن کا فرض تھا کہ سلطنت کا انتظام شریعت اسلامی کی بنیاد پرخلفائے راشدین کی پیروی کرتے ہوئے چلاتے یعنی ملک کا دستور شریعت کو بناتے، لیکن وہ یا تو ظالم بادشاہت کی پیروی کر رہے ہیں،یا دھوکہ دینے والی نقلی جمہوریت کے تحت اپنی حکومت چلا رہے ہیں۔ اوراس طرح اللہ اور انسان دونوں کی حق تلفی کے مجرم بن رہے ہیں۔
دین پسندوں کوعام مسلمانوں کو برائی سے روکنا اور نیکی کی تعلیم و تلقین کرنا تھا، لیکن وہ اس کی جگہ مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کی خوشامد اور چاپلوسی میں لگے ہوئے ہیں۔حق کا ساتھ دینے، حق کا کلمہ بلند کرنے اور حق کا جھنڈا اٹھانے کی اُن میں ہمت ہے ہی نہیں۔پچھلے مسلمانوں نے ملت کی بھلائی کے لیے جتنے اچھے کام کیے تھے اُن سبھوں کو ان لوگوںتباہ و برباد کر دیا ہے۔ کسی بھی ادارے،انجمن یا وقف کی جائیداد سے عام مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ ر ہا ہے۔
جو لوگ اس امید میں بیٹھے ہیں کہ حالات بدلیں گے اوربہتر ہوں گے وہ شدید غلط فہمی اور فریب کا شکار ہیں۔جب برائی کو بھلائی سے بدلنے کی کوشش ہو ہی نہیں رہی ہے تو حالات میں سدھار کیسے ہوگا ؟ برائیاں دن بہ دن بڑھتی چلی جائیں گی اور آنے والے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ انسان جن میں مسلمان بھی شامل ہیں وہ چاہے جتنی دولت اور اسباب جمع کر لے اُس کی زندگی کو چین اور سکون میسر ہونے والا نہیں ہے۔اُس کی مشکلات اور مسائل بڑھتے جائیں گے اوربیماریاں اُن کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیں گی۔اس کا نمونہ ابھی سبھوں کو دکھائی دے رہا ہے۔جن لوگوں نے ناجائز دولت جمع کر رکھی ہے وہ خوف کے سائے میں جی رہے ہیں کہ کب انکم ٹیکس کا چھاپہ پڑ جائے اور وہ جیل چلے جائیں۔ان حالات میں صرف اللہ کے نیک، متقی، صالح اور فرماں بردار بندے چین اور آرام سے رہیںگے جن کی پہچان یہ ہے کہ وہ دولت کے لالچی نہیں ہوتے، خود غرض نہیں ہوتے دوسروں کے کام آتے اور اُن کی مدد کرتے ہیں۔اُن سے اللہ کا وعدہ ہے ’’ہاں جو لو گ ایمان لے آئیںاور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریںاور زکوٰۃ دیں،اُن کا اجربیشک اُن کے رب کے پاس ہے اوراُن کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں ہے۔‘‘(البقرۃ:۲۷۷)
ژۃظضظۃژ