Articles مضامین

جوش ملیح آبادی اور نظم ’’حالاتِ حاضرہ‘‘کاتجزیہ

ترتیب: محمد فداء المصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر: 9037099731
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، کیرالا

 

جوشؔ ملیح آبادی کا نام اردو شعرو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ بلا شبہ بیسویں صدی کے ایک نامورقادر الکلام شاعر تھے۔ ترقی پسندشاعر کا ذکر آتے ہی چند معتبر شعراء کے ساتھ جوش کا نام بہ متوجہ کئے بغیر نہیں رہتا ، وہ بہ یک وقت شاعر شباب و شاعر انقلاب دونوں کی حیثیتوں سے سطح ذہن پر ابھرتے ہیں ۔ وہ ترقی پسند تحریک سے ابتدا تا انتہانہ صرف منسلک رہے بلکہ اپنی بیشتر تخلیقات میں ترقی پسندانہ نظریات کو بھی پیش کیا۔یہ تحریک آغاز سے ہی رونماہونے والی معاشی ، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا نقطئہ ارتقاء بھی تھی۔ لہٰذا ایسے عناصر کا جوشؔ کے کلام میں پایا جانا کوئی تعجب خیز نہیں کیونکہ یہ ترقی پسند تحریک کا مقصد ہی ادب برائے زندگی پر مشتمل تھاجو جوشؔ انسانی اقدار اور اخوت و مساوات کو ترجیح دینے کے پر زور کاوش تھی جس کے تحت بیشمار نظمیں وجود میں آئیں اور شعرو ادب میں محبوب اور محبوبیت کا ایک نیا تصور بھی سامنے آیا۔
جوشؔ ملیح آبادی کی شاعرانہ خصوصیات نیز مذکورہ نظم کا اس پس منظر میں جائزہ لیں اور جوشؔ کی شاعری کے موضوعات نظر ڈالیں تو جوشؔ کی ادبی حیثیت مسلم نظر آئیگی او روہ خالص نظم گو کی حیثیت سے بھی مصروف دکھائی دیں گے ۔ ان کی یہی حقیقت پسندی، انقلابی فکر، مذہبی، لہجہ، خطابت ان کی اجتہادی ذِہن کا ضامن ہے۔
پیشِ نظر نظم ”حالاتِ حاضرہ” (زمانہ جنگ) جو پہلی جنگِ عظیم کے زمانے میں لکھی گئی تھی۔ اس میں بھی جوشؔ کی دلگداز آہنگی اور جذباتیت نمایاں ہے۔ انہوں نے یہاں جس طرح اپنے سحرگرم جذبات کو عوام کے سامنے پیش کیا، کیسے غلام ہندوستان کے غیور لوگوں کو جنگی اور فتنہ اثرات کی طرح حیاتِ انسانی کے نقصانات سے بہرہ مند کیا، وہ یہ نقشہ ہے جس نے آزادی کا تصور، انقلابی نور، سحر و احتجاج جسے ہم فتح و کامیابی کی صورت دیکھتے ہیں۔ عالمی طور پر انہوں نے حالات سے جذبات مستعار تھے۔ تجزیہ و تحقیق کے ترجمانی ”حالاتِ حاضرہ” کے اشعار میں سنجیدگی محسوس کی جا سکتی ہے وہ فضا، جو ہندوستانی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے جنگ کے نقصانات بھی بتاتے ہیں اور اس کا احساس بھی دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ہر چیز پر سکوت ہے، ہر شے اداس ہے
غم حکمراںہے، دہر میں دنیا اداس ہے
کشتی رواں ہے زیست کی دریائے زہر میں
بجلی تڑپ رہی ہے مسرت کی لہر میں
عالم ہے شاخ گل میں عجب پیچ و تاب کا
کانٹے ہیں اور پھول نہیں ہے گلاب کا
ایسی جنگ کسی معنی میں مسرت و تسکین کا سامان نہیں بن سکتی کیونکہ جنگ کی صورت حال تو انسانی زندگی کو فطردار، پرملالحات و دگرگوں بنادیتی ہے، جنگ کو ہولناک بیچینی کا سبب بنتی ہے، اور کانوں سے بھری راہیں ہی استوار کرتی ہے کیونکہ جنگ کے دوران ہی جنگ کے انتقامی انجام ہمیشہ ہولناکی پر مبنی رہا ہے۔جنگ کی نقصانات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
صبحیں چھپی ہیں قبریںکی پر ہول رات میں
دوڑا ہے زہر چشمہ آبِ حیات میں
فطرت کو انتظام پر قدرت نہیں رہی
پانی گھٹا میں پھول میں نکہت نہیں رہی
سینوں میں قلب برف کے مانند سرور ہیں
بس حد ہوئی کہ چہرہ خواباں بھی زرد ہیں
جوش جو مناظرِ فطرت کو حسین ترین انداز میں پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ جوش کے یہاں منظر بولتے ہیں، وہی شاعر جب جنگ کے بھیانک منظر نگاری کا مظاہرہ کرتا ہے تو دیکھنے والے چونک کی قدر و معنویت خیال کی لذت سے بے بہرہ ہو کر اپنی بیبسی کا اندازہ کر اتاہے، ملاحظہ کریں:
یہ جنگ کیا ہے؟ ایک جسم جنون ہے
گلزرکائنات کے تھالوںمیں خون ہے
پچھلے پہر میں اب وہ صباحت نہیں رہی
وہ جھپٹے کی سانولی صورت نہیں رہی
گری کی شام اور کوئی بانکپن نہیں
جاڑوں کی صبح اور سنہری کرن نہیں
جنگ کے نتائج کس قدر نقصان دہ ہوتے ہیں، ایک جنگ اپنے ساتھ کتنی تباہیاں لاتی ہے، اور انسانی تصور ریزہ ریزہ ہوکر وبا، قحط،مفلسی،مہنگائی، بے روزگاری جیسے ہزارہ مسائل کو جنم دیتی ہے، جس سے فرار اختیارکرنے میں صدیوں لگ جاتی ہیں۔ اسی لیے شاعر ایسے ماحول سے نفرت کرتا ہے اسی پس مناظر میں کہیں بھی وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نوجوان نسل کی بیداری کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
سلطان بڑے ہیں دہر کے لشکر لئے ہوئے
اور ان کے ساتھ قحط بھی خنجرلئے ہوئے
خلقت تمام قطط سے بے آب و دانہ ہے
اس پر وبا کا زور، کیا زور،یہ کیسا زمانہ ہے
عالم کے بام و درد میں مریضوں کی آہ ہے
دنیا ئے طب ہجوم مرض کی گواہ ہے
نسخوں سے تھک گئی ہیںغریبوں کی انگلیاں
تبضوںنے کیں فگار طبیبوں کی انگلیاں
یعنی شاعر بتانا چاہتا ہے کہ جنگ نہ صرف مسائل کے انبار کھڑے کرتی آئی ہے بلکہ جنگ کے بعد کتنی بیماریاں پھیلتی ہیں، قحط کا دور آتا ہے، لوگ دوا و غذا کے محتاج ہو جاتے ہیں، مہنگائی عام بھی قابل رحم و قابل دید ہوتا ہے ۔
اب حد کے اختیار میں قیمت نہیں رہی
”ڈاکہ” رہا ہے رسمِ تجارت نہیں رہی
تجارت کے پردے میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو جاتا ہے، اور عام آدمی کی زندگی خوشی پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ایسے میں شاعری قوتِ احساس جواب دینے لگتی ہے، ہمارے مناظر منزل پڑھنے لگتے ہیں، تصورات کی دنیا تاریخ حرماں میں غرق ہونے لگتی ہے اور شاعر کہہ اٹھتا ہے کہ
جلوے ہیں شامِ غم میں نہاں صبحِ عید کے
دھندلے ہیں خط و خال عروسِ امید کے
ہستی کی مملکت میں تباہی کا راج ہے
ہشیار ہو کر فرق مصیبت پہ تاج ہے
محویت جنوں میں مری یاس مٹ گئی
دل یوںمٹاکہ قوتِ احساس مٹ گئی
جو ش جیسا شاعر جس نے بچپن سے ہی سیاسی، فوجی، علمی اور شعری اثرات ماحول میں آنکھ کھولی اور فطرتا کچھ باغیانہ لہجہ بھی مزاج میں ویعت کر گیا کیوں کہ اس وقت ملک کے حالات ہی فکر انگیز تیھ ہر لمحہ سیاسی حالات بدل رہے تھے ۔ انقلابی تصور کا ایسے میں جنم لینا بھی فطری تھا۔جوش جس کے دماغ میں بھی انسانیت کی خدمت اورجاگردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ جس نے ان سے ایسی بیشمار نظمیں تخلیق کروائیںجہاں وطن کو فرنگیوں کی قید سے آزاد کرانا مقصد اولین بن گیایہ انگریز دشمنی اور وطن کی محبت ہی تھی جس نے ان سے ہی تک کہلوایا کہ :
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
لیکن وہ ملک میں صحت مند انقلاب کے حامی تھے، غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور لوگوں کو انقلاب دے دینا بھی اپنا فرض سمجھتے تھے۔ شاعر ان اندازِ اسلوب کے اعتبار سے نظم میں بہا دُرّی، سلاست، اور فصاحت سے بھرپور ہے۔ جیسا کہ کبھی واقف ہیں کہ جوش کے ساحر الفاظ اور درد الفاظ لکھنے والے درویشانہ بیت شاعر ہیں۔ ان کے مترادف الفاظ کا انقطاع خودبخود ہی اردو شاعری میں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ تقلید اور تحقیق سے ہٹ کر اور شاید ہی اس کی بہترین مثال کہیں اور ملتی ہو۔ اور پھر تشبیہوں و استعارات کا برجستہ استعمال بھی جوش کی نظم کا خاصہ ہے۔
لذت اُڑی ہے خواب سے وسعت خیال سے
”آب” آئینے سے ”توقّتِ برق” جمال سے
تابندگی کے راز سے محرم نہیں رہی
وہ روئے گُل پہ قطرئہ شبنم نہیں رہی
یہ اور اس طرح کے مختلف اشعار دیکھیے جا سکتے ہیں۔ ان کا خطیبانہ انداز بھی ان کے اشعار میں ملتی ہے، اور وہ جذباتی پہلو سے بھی خود کو خالی نہیں پاتے ہیں۔ لیکن کہیں بھی عامیانہ پن اور سستی کے نہیں ملتی ہے ۔ جس صورتِ الفاظ و ترکیب نے نظم کے فنی احساس کو برقرار رکھا اور کہیں بھی مشکل الفاظ نے نظم کو بوجھل نہیں ہونے دیا بلکہ تسلسل بھی نظم کی خوبصورتی اور معیار میں اضافہ کرتا ہے۔
’’حالاتِ حاضرہ‘‘ کے اشعار کا بغور جائزہ لیں تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ جوش جیسا انقلابی شاعر بھی فطرت شناس، حسن پرست اور بہترین منظر نگار ہونے کے باوجود کہیں کہیں ان کے مناظر اور تصورات اس نظم میں مجروح دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جنگ عظیم اور انسانیت کے دکھ درد میں غرق قوتِ احساس میں کہیں کچھ کمی محسوس کرتے ہیں اور ایسی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں جس کے نتائج میں انسانیت ہی دم توڑ دے۔ لہٰذا ان اشعار کے پردے میں انہوں نے عوام کو مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرنے اور بیدار رکھنے، ملک کی حفاظت، وطن دوستی کا پیغام سنایا۔ نیز ہندوستان میں آئندہ پیش آنے والے حالات کا موجودہ تناظر میں تجزیہ کرتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ بلا شبہ یہ نظم ان کے قوی اور توانا احساس کی پیداوار ہے، کیونکہ وہ بہرحال ایک بہادر، مخلص انسان تھے۔ ایک بہتر انسان کے مالک اور شاعر کے منصب و وقار سے بھی واقف تھے اور اسی فرض شناسی نے انہیں ہمیشہ سرگرم عمل رکھا۔ ایک بے لوث انسان اور شاعر کی طرح انہوں نے نظم ”حالاتِ حاضرہ” میںبہترین کردار پیش کیا جو ان کی جوان مردی اور بہادری کی مثال ہے اور ہماری لیے دعوت ِ عمل بھی۔

Related posts

 اویسی برادران جھوٹے ڈرامہ بازاور جذباتی مداری

Paigam Madre Watan

دینی اداروں اورجمیعت کےنظماءکےاموال کی ای ڈی(ED)کے ذریعے تفتیش ہونی چاہئے

Paigam Madre Watan

خدارا اب فرقوں کی نہیں دین کی باتیں کریں !!

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar