نئی دہلی، دہلی کے دلت سماج سے تعلق رکھنے والے ملک کے چیف جسٹس بی آر گووئی پر جوتا پھینکنے کے واقعے کے بعد ہریانہ میں ذات پات کے ظلم و ستم سے تنگ آکر دلت آئی پی ایس افسر کی خودکشی پر عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اروند کیجریوال نے ملک کے مستقبل پر گہری تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ہریانہ کے دلت آئی پی ایس افسر پورن کمار کو ان کی ذات کی بنیاد پر اتنی اذیت دی گئی کہ انہوں نے خودکشی کرلی۔ مجرموں کو جلد از جلد سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ ملک کے چیف جسٹس پر جوتا پھینکا گیا، ان کے ٹرول سوشل میڈیا پر دلتوں کو ذلیل کر رہے ہیں اور بابا صاحب امبیڈکر تک کو گالیاں دے رہے ہیں۔ آج بھارت کو یہ لوگ کہاں لے آئے ہیں؟ ادھر، جمعہ کو آپ ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کے دوران دہلی ریاستی کنوینر سوربھ بھاردواج نے کہا کہ آئی پی ایس افسر کی خودکشی کے معاملے میں ہریانہ کے چیف سکریٹری اور پولیس سربراہ خود ملزم ہیں۔ جب ریاستی افسر شاہی اور پولیس کے سربراہ ہی ملزم ہوں تو اس خودکشی کی غیرجانبدارانہ جانچ کیسے ممکن ہے؟ سوربھ بھاردواج نے کہا کہ اعلیٰ ذاتوں کے زیر اثر زیادہ تر میڈیا ان سنگین معاملات کو نظر انداز کر رہا ہے، جب کہ فیس بک، ایکس (ٹوئٹر) اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز، جو نسبتی طور پر غیر ذات پات والے معاشروں سے چلائے جاتے ہیں، ان مسائل کو آواز دے رہے ہیں۔ گزشتہ تین دنوں سے دلت سماج، چیف جسٹس اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کو کھلے عام گھناؤنی گالیاں دی جا رہی ہیں۔ مگر انہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ذات پات کے وجود سے انکار کیا جا رہا ہے۔ یہی لوگ، جو دن رات ذات پات پر مبنی نفرت اور گالیاں پھیلا رہے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت میں ذات پات نہیں ہے۔ وہ خود کو برہمن کہہ کر اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں مگر ذات پات کی تلخ حقیقت سے منکر ہیں۔سوربھ بھاردواج نے دلتوں کے ساتھ پیش آنے والے دو تازہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی آر گووئی پر جوتا پھینکا گیا۔ وہ دلت طبقے سے آتے ہیں اور اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ دوسرا واقعہ ہریانہ کا ہے، جہاں دلت آئی پی ایس افسر وائی۔ پورن کمار کو برسوں سے ذات پات کی بنیاد پر ہراساں کیا جا رہا تھا۔ اسی اذیت سے تنگ آکر انہوں نے 7 اکتوبر کو خودکشی کر لی۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ ایس سی؍ایس ٹی ایکٹ کے غلط استعمال کا بہانہ بناتے ہیں، مگر کوئی شخص جھوٹی شکایتوں سے تنگ آکر اپنی جان نہیں دیتا۔ یہ ذات پات کی کڑوی سچائی ہے جسے سب سے زیادہ ذات پرستوں کو تسلیم کرنا ہوگا ، وہی لوگ جو دن رات بابا صاحب امبیڈکر کو گالیاں دیتے ہیں۔سوربھ بھاردواج نے کہا کہ آج پورے ملک میں مذہب، زبان، ریاست، رنگ یا ذات کے نام پر نفرت کی سیاست پھیلائی جا رہی ہے۔ کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو باقاعدہ پیسے دے کر نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ یہی ان کی روزی روٹی ہے۔ مگر جو لوگ ان نفرت انگیز پوسٹس کو لائک، شیئر اور ری ٹویٹ کرتے ہیں، انہیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ انہوں نے ملک کو کہاں پہنچا دیا۔سوربھ بھاردواج نے بتایا کہ پورن کمار ہریانہ کیڈر کے سینئر آئی پی ایس افسر تھے اور ان کی اہلیہ بھی آئی اے ایس افسر ہیں۔ پورن کمار کو امبالہ کے ایک تھانے میں بنے مندر میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ جب وہ بطور آئی پی ایس افسر مندر میں داخل ہوئے تو ان پر ظلم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہیں اتنا ستایا گیا کہ انہوں نے چیف سکریٹری، ڈی جی پی اور دیگر اعلیٰ حکام کو شکایت کی، مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آخرکار، ان پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا اور وہ مجبور ہو کر خودکشی کر بیٹھے۔ مرنے سے پہلے انہوں نے آٹھ صفحات پر مشتمل سوسائڈ نوٹ چھوڑا جس میں پندرہ سینئر افسران کے نام درج ہیں جو مختلف ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وہ ذاتیں ہیں جو ملک کے وسائل اور میڈیا پر قابض ہیں۔ ان سے انصاف کی امید نہیں، مگر سوشل میڈیا کے عوام کو سوچنا چاہیے کہ نفرت پھیلانے والے کب رکیں گے؟سوربھ بھاردواج نے کہا کہ جب اس ملک میں انگریز تھے تو انگریزوں سے بھی اتنی نفرت نہیں تھی جتنی نفرت آج اپنے ہی شہریوں کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے۔ مرکزی حکومت خاموش ہے۔ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ بھی ازخود اس پر کوئی نوٹس نہیں لے رہے، حالانکہ یہی عدالتیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ازخود نوٹس لے لیتی ہیں۔ لیکن دلتوں کے لیے نہ کوئی درد ہے نہ ہمدردی۔ عدالت نے ایک کتے کے کاٹنے تک کے معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا تھا، مگر دلتوں کے لیے نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید دلت اب اس ملک میں کتوں سے بھی کمتر سمجھے جانے لگے ہیں۔ دلتوں کا درد نہ سنا جا رہا ہے، نہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہی لوگ جب پارٹیوں میں جائیں گے تو کہیں گے یہاں ذات پات نہیں ہے، ہم سب برابر ہیں۔ آج ملک کے حالات نہایت سنگین ہیں۔ گیارہ سالہ بی جے پی حکومت نے اس ملک کو نفرت کے جس دلدل میں دھکیل دیا ہے، اس سے نکلنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔
next post
Related posts
Click to comment