Articles مضامین

سرسید احمد خان (1817-1898)

محمد احتشام کٹونوی

9931286236

 

ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں دو انسانوں کے احسانات کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا ۔ یہ سر سید اور مولانا آزاد ہیں ۔ انہوں نے جذباتیت سے ہٹکر اپنے دماغوں کا استعمال کیا اور اسلام کی تعلیم اور موجودہ حالات کے تقاضوں کو سمجھا ۔

          سر سید دلی میں پیدا ہوئے تھے ان کے دادا ، نانا اور والد مغل دربار سے وابستہ رہے۔ سرسید کی تعلیم گرچہ اسلامی طریقوں سے کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس تہذیب کو سمجھا جو مغرب سے آ رہی تھی اور پرانی تہذیب فنا ہورہی تھی۔ سر سیدبھی ماضی کی دنیا میں رہ رہے تھے۔ انہوں نےآئینہ اکبری کا ترجمہ کیا اور غالب کوپیش کیا ۔ غالب بڑے دور اندیش تھے۔  انہوں نے سرسیدسے کہا ۔

"تم وقت برباد کر رہے ہو ۔ آئین کو کنارے رکھو اور مجھ سے بات کرو ۔ اپنی آنکھیں کھولو اور انگریزوں کو دیکھو ان کے طریقوں ، ان کے اطوار ،ان کی تجارت اور ان کے فنوں کا مطالعہ کرو۔”

سرسید انگریزوں کی نوکری کرتے تھے۔ 1857 کے غدر میں ان کی عمر 40 سال تھی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مغلوں کا زوال دیکھا ۔ لال قلعہ سے آواز آتی تھی کہ ہم بھوکے ہیں ۔ آخری شمع بجھ گئی ۔ بہادر شاہ کو ہمایوں کے مقبرہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے بیٹوں کو گولی مار دی گئی ۔ غالب نے کہا کہ دلی کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ انگریز چن چن کر مسلمانوں کو تختۂ دار پر  چڑھا رہے تھے۔ ایک افرا تفری کا عالم تھا۔ جنہیں تاج و تخت کا غرور تھا ، انہیں بھیک بھی نہیں مل رہی تھی۔

سر سید نے اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے۔ ان کے دماغ میں بات آئی کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں لیکن انہوں نے طے کیا کہ وہ قوم کو  منجدھار میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور ان کے دکھوں کو کم کر نے کی کوشش کریں گے۔

وہ اپنی مہم میں لگ گئے۔ انہوں نے اسباب بغاوت ہند لکھی۔ سر سید کے رشتہ دار مارے گئے ۔ ان کی ماں گھوڑے کی اصطبل میں چھپی رہیں۔ وہ گھوڑے کے اناج کھاتیں اور تین دن تک بغیر پانی کی تھیں ۔ جب سر سید نے ان کی دائی کو پانی دیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی ماں کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے۔دائی نے بھی پانی پیا  لیکن وہ فوراً مر گئیں۔سر سید کی ماں ایک مہینہ کے بعد چل بسیں۔

          سر سید کی ماں بہت مضبوط اخلاق والی عورت تھیں۔ ایک بار سر سید نے اپنے نوکر کو تھپڑ مارا تھا تو ان کی ماں نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ اور نوکر سے معافی مانگنے پر انہیں معاف کیا تھا۔

1859میں سر سید نے کہا تھا کہ برٹش سرکار اور ہندوستان کے لوگوں میں مفاہمت ہو۔ ہندوستانی غدر میں انہوں نے انگریز مر د اور عورتوں کی جان بچائی تھی ۔ اس واقعہ سے انہیں اپنے کاموں میں آسانی ہوئی۔

سر سید نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کاصرف ایک ہی علاج ہے ۔ انگریزی تعلیم جس میں سائنسی علوم لکھے گئے تھے۔ وہ برطانیہ گئے۔ انہوں نے آکسفرڈ ، کیمبرج، یونیورسیٹیوں کا مطالعہ کیا۔ وہاں ہیرو اور رٹین اسکول گئے۔

          برطانیہ سے انہوں نے لکھا تھا کہ ہندوستان کے تمام لوگ انگریزوں کے مقابلہ میں جانوروں جیسے ہیں۔ لیکن سر سید انگریزوں کے دلال نہیں تھےاور ان کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے۔ سر سید انگلینڈ میں 17 مہینہ رہے۔

سر سید محمد ﷺکے پرستار تھے۔ جھوٹے نہیں سچے ۔ وہ جانتے تھے کہ محمدﷺ سے محبت کے معنی کیا ہیں۔ سر ویلیم میور نے محمدﷺکی سوانح حیات لکھی تھی جو آپ کی ذلت کرتی تھی۔ سر سید نے اپنا اثا ثہ  بیچا ۔لندن کی لائبریری میں ریسرچ کیا اور میور کی کتاب کا رد لکھا جو بعد میں خطبات احمدیہ کے نام سے چھپی ۔ Muirنے یہ کتاب پڑھ کر کہا کہ ان کا حملہ سر سید کے اسلام پر نہیں تھا۔

واپس آکر جبکہ وہ قریب 54 سال کے تھے وہ اپنے کاموں میں لگ گئے ۔ انہوں نے اپنی تعلیمی ادارہ کے لئے چندہ کیا۔اس کے لئے وہ ہر کام کرنے کو تیار تھے۔ انہوں نے لیلہ مجنوں ڈرامہ میں گھونگروباندھ کر لیلہ کا کردار ادا کیا۔ اپنے پوتے سے اس کا  پیسہ لے لیا۔ ایک صاحب نے ان پر جوتا پھینکا تو انہوں نے اس جوتا کو نیلام کر دیا۔ طوائفوں سے بھی چندہ لیا۔ 1875 میں انہوں نے دارالعلوم کی بنیاد ڈالی۔ جو بعد میں اینگلو،محمڈن عربک اسکول بنااور 1920 میں یہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی قائم ہوئی جہاں آج قریب پچیس ہزار لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے ہیں۔

سر سید کو اس کام میں بڑی مزاحمت اٹھانی پڑی ۔ ان پر کفر کا فتویٰ مکہ سے لایا گیا ۔ سر سید قوم کا سچا خادم تھا۔ حالی کی زبان میں سنیے۔

"ناگاہ دیکھا کہ ایک خدا کا بندہ جو اس میدان کا مرد ہے ایک دشگوار راستہ میں رہ نودد ہے۔ بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے پیچھے رہ گئےہیں۔ بہت سے اس کے ساتھ افتاد و خیزاں چلے جاتے ہیں ۔ مگر ہونٹوں پر بیڑیاں جمی ہیں، پیروں میں چھالے پڑے ہیں ۔ دم چڑھ رہا ہے۔ چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں ۔ لیکن وہ اولولعزم آدمی جو ان سب کا رہنما ہے۔ اسی طرح تازہ دم ہے۔ نہ اسے رستہ کی تکان ہے نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے کی پروا ہے۔ نہ  منزل کی دوری سے کچھ ہراس ہے۔”

حافظ ؔنے سر سید کے لئے ہی لکھا تھا۔

شبِ تاریک و بیمِ موج و گرداب چنین حایل کجا دانند حالِ ما سَبُک‌بارانِ ساحل‌ہا ؟

سر سید ایک بہت بڑے محب وطن تھے۔ سر سید نے کہا تھا

ہندو اور مسلمانوں  ! کیا تم ہندوستان کے علاوہ کہیں رہتے ہو؟ کیا تم دونوں یہاں نہیں رہتے۔ یہاں دفن نہیں ہوتے اور یہاں جلائے نہیں جاتے ۔ ہندو اور مسلان مذہبی پہچان ہے ورنہ ہندو ، مسلمان اور عیسائی ، جو اس ملک میں رہتے ہیں ، ایک قوم ہیں۔

سر سید کے خیالات میں تبدیلی آئی جب اکثریت کے خیالات سے انہیں سابقہ پڑا۔ سر سید نے کہا ۔

"اب مجھے یقین ہے کہ دو کمیونٹی ایک ساتھ کام نہیں کر سکے گی خودساختہ تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ کر عناد بڑھے گا۔ جو زندہ رہے گا وہ یہ دیکھے گا ۔ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کا بٹوارا اس عناد کا ما حصل تھا۔”

محمد مجیب نے کہا کہ سر سید تھے

“The first Indian Muslim to react to the modern age”

ملک سید نے لکھا ۔

“Greatest achievement of Sir Syed is that he liberalized and modernized Islam”

سر سید نے کانگریس کی مخالفت کی ۔ انہوں نے سمجھا کہ انگریزوں کا جانا ہندو اکثریت کی حکمرانی ہوگی۔یہ ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔

سر سید جسمانی اور دماغی طور پر بہت مضبوط تھے۔ وہ 4 بجے صبح اٹھتے اور دیر تک کام کرتے۔ جب وہ قراآن کی تفسیر لکھ رہے تھے تو وہ بہت کم سوتے۔ زمین پر بیٹھ کر لکھتے ۔ جب تھک جاتے تو کتاب کی تکیہ بنا کر لیٹ جاتے ۔

سر سید موجودہ اردو نثر کے بانی ہیں ۔ انہوں نے برطانیہ کےکیٹلر  کی طرح تہذیب الاخلاق نکالاجس میں سادہ زبان میں اچھے مضامین شائع ہوئے ۔ بائبل کی تفسیر لکھی۔ آثارالصنادید ، اسباب بغاوت ہند وغیرہ ان کی تصانیف میں شامل ہیں ۔

سر سید نے قرآن کی تفسیر میں اپنے سیاسی دماغ کا استعمال کیا اور اسلام کے بیان میں جذبات سے زیادہ عقل کا استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے اپنے مذہبی خیالات کو اپنے اسکول پر نافظ نہیں کیا ۔ اسے مولاناؤں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔

ہندوستانی مسلمانوں پر سر سید کے بہت سارے احسانات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رشدی  کو قتل کر کے اسلام کی خدمت نہیں ہوتی ہے۔ تصنیف کا جواب تصنیف ہے ،تلوار نہیں ۔انہوں نے سر ولیم میور کو قتل کرنے کو نہیں کہا ۔ اپنا سامان فروخت کر کے برطانیہ گئے اور میور کی باتوں کے رد کرنے کےلئے کتاب لکھی۔

انہوں نے بتایا کہ محمد ﷺ کی محبت سڑکوں پر نہیں دکھائی جاتی اور اسے سیاسی حربہ کی طرح نہیں استعمال کیا جاتا ، خطبات احمدیہ اور رفیق زکریا کی Muhammad and the Quranاس کی مثال ہیں۔

سائنس اور مذہب کی جنگ میں سائنس سے گریز کر کے مدرسوں کی چہار دیواریوں میں بند ہونے کا انجام ہم دیکھ رہے ہیں ۔ سر سید نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ سائنس کی تعلیم کے بغیر قوم نالے کی کیڑا بن جائیگی۔

سر سید نے ایک سادہ نثر کی بنیاد ڈالی جس میں ان کے خیالات عام لوگوں کے سامنے پہنچ سکیں۔ اگر زمانہ میں سر خرو ہونا ہے تو اآج سے سر سید کی بات پر عمل کرو۔ Educate, Educate, Educate

اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا ۔

Related posts

ڈاکٹر نوہیرا شیخ : سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور معاشی خدمات

Paigam Madre Watan

ڈاکٹر شفیق الرحمان برق بیباکانہ اظہار کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے

Paigam Madre Watan

مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا

Paigam Madre Watan

Leave a Comment