ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
9897334419
ہم جب لفظ ’ادب ‘ بولتے ہیں تو عا م زبان میں اس کا مطلب اخلاق ہوتا ہے ۔بچوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ادب سے رہو ،ادب سیکھو ،تم بڑے بے ادب ہو ۔بزرگوں کو نوجوانوں سے شکایت ہے کہ آج کل کی نسل کے اندر ادب نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ادب کے اسی مفہوم کوسامنے رکھ کر یہ قول مشہور ہوا :
باادب بانصیب ۔بے ادب بے نصیب
یہی لفظ جب اہل دانش اور تخلیق کاروں کے یہاں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو انگریزی میں لٹریچر اور ہندی میں ساہتیہ کا ہے ۔دونوں مفہوم میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ایک اگر روزمرہ کے کاموں اور معاملات و گفتگو میں سلیقہ مندی کا اظہار ہے تو دوسرا اپنی تخلیق میں حسن پیدا کرنا ہے ۔خوبصورت لب و لہجہ میں کہی گئی بات ادب ہے ۔اپنی تحریروں اور قلمی کاوشوں میں گلاب کی سی خوشبو پیدا کردینا ادب ہے ۔یوں تو ہر انسان بات کرتا ہے ،لیکن اپنی گفتگو میں ایسی چاشنی پیدا کرنا کہ سننے والا اس کی لذت محسوس کرے ،اس کی روح کو تازگی ملے ،وہ سن کر یا پڑھ کر پکار اٹھے ’’ واہ واہ سبحان اللہ ‘‘ بس سمجھو وہی ادب ہے ۔
ادب کا سماج کی تعمیر و تخریب میں اہم رول ہے ۔ادب میں ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ تاثیر کی قوت ہوتی ہے ۔سلیقہ سے کیا گیا کام اور کہی گئی بات کا اثر ہونا لازمی ہے ۔اسی اثر پذیری کی بنا پر تمام نظریہ ہائے حیات نے اسے اختیار کیا ۔الحاد و دہریت کے علمبرداروں نے اس کے ذریعہ خدا کی نفی کی اور خدابیزاری کا سبق دیا ۔اشتراکیت نے اسی کے ذریعہ لادینی نظام کی خوبیاں بیان کیں ۔خدا ،رسول ،آخرت،جنت ،دوزخ ،دیر و حرم کو استہزاء کا موضوع بنایا ۔کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس کو ترقی پسند ادب کا نا م دے دیا ۔یعنی انسانوں کو خدا سے دور کرنا ترقی پسندی ہے ،بے حیائی اور بے شرمی اختیار کرنا خوش حالی کی نشانی ہے ۔مذہبی شعائر اختیار کرنا اور اپنے خدا کے سامنے سرجھکانا دقیانوسیت ہے ۔ایسے ناول اور افسانے وجود میں آئے جنھوں نے اپنے قاری کو ’’ بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ کا پاٹھ پڑھایا ۔رومانوی ادب کے ذریعہ انسان کے جنسی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ۔انسان اور جانور میں جو فرق و امتیاز تھا اسے ختم کردیا گیا ،جس کے نتیجہ میں فحاشی و بے حیائی کا بازار گرم ہوا یہاں تک کہ ایسے شہر وجود میں آگئے جہاں عریاں رہنا ہی مستحسن سمجھا گیا ۔
انسان کو جب زمین پربھیجا گیا تو اسے کلام کی نعمت سے سرفراز کرکے مبعوث کیا گیا ۔اسے اپنی ستر پوشی کا بھی شعور حاصل تھا ۔اس کو اللہ نے مسلسل اپنی ہدایات سے نوازا تھا ۔کلام الٰہی کے وہ الفاظ جو اول انسان کو سکھائے گئے وہ کسی بھی زبان کے ادب کی ابتداء کہی جاسکتی ہے ۔اس لیے کہ اللہ کا کلام تمام عیوب و نقائص سے پاک اور تمام فنی محاسن کا مرقع ہوتا ہے اور اس پر جملہ اہل مذاہب متفق ہیں کہ پہلے انسان کو اللہ نے اپنی ہدایات سے نوازا تھا ۔مذہب ڈارون کی تھیوری کا انکار کرتا ہے کہ انسان کسی جانور کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔قرآن مجید میں صاف صاف حضرت آدم ؑکو اللہ کے ذریعہ تعلیم دینے کا ذکر ہے اسی کے ساتھ زمین پر بھیجتے وقت کہا گیا ہے کہ ’’ اب میری جانب سے جوہدایت آئے اس کی پیروی کرنے والوں کو کوئی غم نہ ہوگا ۔‘‘(البقرہ ۔38)چونکہ حضرت آدم ؑ اللہ کے فرستادہ تھے ۔اللہ کے فرماں بردار تھے ۔اللہ کی فرمانبرداری کا اصطلاحی نا م ’اسلام‘ ہے ۔ اس لیے خدا اور آدم کے درمیان کیے گئے کلام کو اسلامی ادب کا نام دیا جاسکتا ہے ۔موجودہ زمانے میں اسلامی ادب کی اصطلاح اشتراکی ادب کے مقابلہ پر وجود میں آئی ہے ۔لیکن یہ کہنا کہ اسلامی ادب زمانہ قریب کا معاملہ ہے مناسب نہیں ہے ۔جب ہم اول انسان کو معلم اول اور پیغمبر اول تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی ماننا چاہئے کہ اس کے پاس اللہ کی ہدایت آتی تھی ،یہ ہدایت الفاظ کے پیرائے میں ہی تھی ،یعنی اظہار بیان کے لیے ایک لغت تھی ،خواہ وہ کوئی بھی ہو ،اللہ کی ہدایت تسلیم کرلینے کا نام اگر اسلام ہے تو اس ہدایت کا پیرائیہ بیان ’اسلامی ادب ‘ہے ۔اسلام کا ادب سے گہر اتعلق ہے ۔بقول پروفیسر محمد محسن عثمانی ندوی :’’ادب کا اسلام سے گہرا رشتہ ہے بلکہ صحیح معنوں میں وہی ادب عظیم ادب کہلانے کا مستحق ہے جس کی روح اسلام کی تعلیمات کے مغایر نہ ہو، عظیم ادب وہی ادب ہے جس کا مضمون مؤدب ہو اور پیرایہء اظہار بھی مؤدب ہو، یعنی ہر اعتبار سے اس میں ادب وشرافت کی رعایت ہو، اس کے خلاف جو بھی ہوگا وہ کم تر ادب کہلائے گا۔اسلام صرف عقائد کا مجموعہ نہیں، یہ مکمل تہذیب ہے اور ادب وشاعری پر محیط ہے۔ ‘‘(رفیق منزل ،جولائی 2018)
اسلام نے ادب کو حیات دوام عطا کی ۔اس کو نکھارا،سنوارا اور جلا بخشی ۔علامہ الطاف حسین حالی ؒ کہتے ہیں ۔
ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے
جلا دیں نے پائی تھی ان کے بیاں سے
سناں کے لئے کام انھوں نے لساں سے
زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے
ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل
پڑی ان کے خطبوں سے عالم میں ہل چل
اسلامی ادب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کائنات میں حسن کے ساتھ ساتھ صالحیت کو فروغ دیتا ہے ۔غیر صالح بات کتنے ہی سلیقہ سے کہی جائے وہ خیر اور بھلائی کے زمرے سے باہر ہی رہے گی ۔بد ذائقہ کھانا سونے چاندی کے برتن میں خوش ذائقہ نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح اسلامی ادب کسی ایک خطہ ،کسی ایک قوم یا کسی ایک گروہ کی ترقی و خوش حالی کو موضوع نہیں بناتا ۔وہ ساری انسانیت کی خیر خواہی کی بات کرتا ہے ۔وہ رنگ ،نسل ،زبان کی بنیاد پر بھید بھائو کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہ تمام انسانوں کے اندررشتہ ٔ اخوت کا دعوے دار ہے ۔جب کہ اسلام کے علاوہ باقی ادب کے علمبرادروں کی تخلیقات میں اگر خیر کا کوئی عنصر پایا بھی جاتا ہے تو وہ محدود ہے اور صرف اپنے علاقہ و نسل کے لیے پایا جاتا ہے
اردو زبان میں اسلامی ادب کی اصطلاح کے استعمال کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب اردو میں اشتراکی ادب نے اسلامی عقائد پر چوٹ کی ۔اسلامی ادب کے فروغ کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی گئی ۔اس تحریک کے ذریعہ قلم کاروں کو متوجہ کیا گیا کہ تمہیں جس ذات نے یہ صلاحیت عطا کی ہے اس کا استعمال اسی ذات کی ہدایت کے خلاف کرنا اس سے بغاوت کرنا ہے ۔اسلام کے علمبردار اہل قلم کی ایک جماعت نے اپنی ادبی نگارشات سے اشتراکی قلم کاروں کی اس غلط فہمی کا قلعہ قمع کردیا کہ اچھا ادب وہی ہے جسے مذہب کی ہوا نہ لگی ہو ۔اشتراکیت اور رومانیت نے دیر و حرم ،شیخ و واعظ کی توہین کی اور اس کے مقابلہ فحاشی و عریانیت ،میخانہ و مے کشی کی تعریف کی ۔اسی کا اثر تھا کہ شعراء و شراب لازم و ملزوم سمجھی جانے لگی تھی ۔کسی شخص کا شاعر و ادیب ہونا نیک لوگوں کے نزدیک معیوب گردانا جاتا تھا ۔لیکن اسلامی ادب کی تحریکات نے اس گردو غبار کو صاف کردیا ہے ۔آج اشتراکیت دم توڑ چکی ہے ۔اس کے سیاسی ،سماجی اور تخلیقی علم برداروں نے توبہ کرلی ہے ۔ آج اسلامی ادب کی گونج ہر سمت سنائی دے رہی ہے ۔اسلامی ادب کی ان تحریکات میں دوتحریکوں نے اہم رول ادا کیا ۔اگرچہ اسلامی ادب کی اصطلاح انیسویں صدی کے آغازسے ہی استعمال کی جانے لگی تھی ،لیکن اس کی باقاعدہ تشکیل ’ادارہ ادب اسلامی ‘ کے نام سے 1953میں ہوئی ۔اس میں میم نسیم ،علامہ ابوالمجاہد زاہد ؒ وغیرہ وغیرہ پیش پیش تھے ۔اس کا دائرہ کار ملک تھا ۔دوسری تحریک حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے 1986 میںبین الاقوامی سطح پر قائم کی ۔جس کا نام’ عالمی رابطہ ادب اسلامی ‘رکھا گیا ۔اس وقت عالمی رابطہ کی شاخیں کئی ممالک میںسرگر م ہیں ۔ اسلامی ادب ایک زندہ جاوید ادب ہے ۔اسلامی تحریکات کی کاوشوں کی بدولت آج ہر تخلیق کار شعوری یا غیر شعوری طور پر سماج کی اصلاح کو موضوع سخن بنارہا ہے۔ادب کی اثر پذیر صلاحیت کے سبب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تحریکات کو مزید فعال کیا جائے ۔نئے تخلیق کاروں کی تربیت کا نظم کیا جائے ۔اسلامی ادب پر مبنی تخلیقات کی ترویج و اشاعت کا بندو بست کیا جائے ۔