مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
غالب ؔ نے کہا تھا ”کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے”، حالاں کہ غالب کی زندگی سے شاعری کو نکال دیا جائے تو گوشت وپوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں بچتا، البتہ یہ بات علماء پر صادق آتی ہے، طبقہ علماء میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوئے، لیکن انہوں نے شاعری کو کبھی بھی ذریعہ عزت نہیں بنایا، ماضی کو چھوڑ یے حال میں ہی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ہی دیکھ لیجئے، کتنی اچھی شاعری ہے، لیکن ان کی شہرت وعزت قطعاً اس کی ممنون نہیں ہے، شعر وادب سے علماء کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے ان کے کلام ادھر اُدھر منتشر ہوتے رہے، خود انہیں کبھی جمع کرنے، بلکہ سجو کر رکھنے کا بھی خیال نہیں آیا، جس کی وجہ سے علماء طبقہ کے بڑے بڑے شعراء، شعر وادب کے حوالہ سے گوشہ گم نامی میں پڑے رہے اور ان کا شعری سرمایہ زمانہ کید ست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، بلکہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا، میں ایسے کئی علماء کو جانتا ہوں، لیکن یہاں فہرست سازی کا نہ موقع ہے اور نہ ہی ضرورت۔
”تاب سخن ”کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہ مولانا سید مسرور احمد مسرور (ولادت 1950وفات 21اگست 2022) کا مجموعہ کلام ہے۔وہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد سے 1986میں جڑے اور زندگی کے کم وبیش پینتیس سال یہیں گذار دیے، وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیو بند سے سیکھی تھی، اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا،حیدر آباد جانے سےقبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کرکے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گیے تھے، جہاں انکی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبیدیہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم وتربیت حاصل کی، دیو بند کا رخ کیا، وہاں سے کتابتِ کا فن سیکھا اور پوری زندگی اسی کام میں لگا دیا۔
شعر وادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہائے شادی، خراج عقیدت اور متفر ق چیزیں شامل ہیں، لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا، اس لیے ان کی زندگی میں مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انہیں آلیا۔
ان کے گذرنے کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری جو میرے برادر زادہ،داماد اور خانوادہ ہدی کے گل سرسبد ہیں، نے ان کے وارثین سے کسی کسی طرح ان کے اشعار کو حاصل کیا، جو کام ان کی زندگی میں آسان تھا وہ ان کے بعد مشکل ہو گیا اور اس کے لیے مولانا ازہری کو جو جگر کادی کرنی پڑی، اس کا اندازہ کچھ انہیں لوگوں کو ہوگا جو اس قسم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور کبھی اس قسم کی خارزار وادی سے ان کا گذرہوا ہو۔مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری اگر صرف ان کے اشعار جمع کر دیتے تو یہ بھی بہت تھا، لیکن ا نہوں نے ایک غیر ضروری شرط اپنے اوپر لگائی کہ اسے تاریخ کے اعتبار سے مرتب کرنا ہے، یعنی جس تاریخ کو ان اشعار کا مولانا پر نزول ہوا، اس کی رعایت ترتیب میں کریں گے، اس نے اس کام کو ان کے لیے مزید دشوار کر دیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے تھا، جو ان کی محنت میں مزید اضافے کا باعث ہو گیا، بہر کیف انہوں نے اپنی بے پناہ مشغولیات جن میں درس وتدریس، وعظ وخطابت، بچوں کی پرورش وپرداخت،متعلقین اور معتقدین کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ کی نظر حدیث وفقہ، تفسیر پر گہری ہے، ان کی تفسیر دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ا ن کا ادبی ذوق بھی بالیدہ ہے، انہوں نے اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے اشعار بھی ”کلام شمس“ کے نام سے جمع کیا ہے، اس میں بھی ان کی محنت لائق ستائش ہے، لیکن اب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی ہے، مولویوں کے پاس اتنی اضافی رقم نہیں ہوتی جو کتاب کی طباعت کی متحمل ہو سکے اور غیرت وخود داری کا احساس کسی کے سامنے دست تعاون دراز کرنے سے مانع ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ”کلام شمس” طبع نہیں ہوسکی۔
مولانا مرحوم کی شاعری اچھی ہے، لیکن وہ کسی نہ کسی موقع سے لکھی گئی ہے، جس میں اپنی خواہش کم اور دوسروں کی خواہش کا احترام زیادہ ہے، اشعار میں ندرت اور فکر میں رفعت کے باوجود تہنیت، سہرے، خراج عقیدت وغیرہ کے بعض اشعار ایک دوسرے سے تو ارد کا مظہر ہیں، میں جانتا ہوں ایک جیسے خیالات اور مصرعے جب دو شاعروں کے یہاں مماثل ہو جاتے ہیں تو توارد کہلاتا ہے، مولانا کے یہاں جو کچھ ہے اس کے لیے صحیح لفظ تکرار ہے، لیکن تکرار کہنے میں سوئادب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے توارد سے تعبیر کیا ہے، کوئی فکر اگر شاعر پر غالب آگئی، اور وہ بار بار اس کا اعادہ کرنے لگے تو اسے توارد کہنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا، گوا دبی پنڈتوں کے یہاں یہ زیادہ صحیح نہیں سمجھاجاتا، توارد پر اگر اعتراض ہو تو آپ اسے احباب کے تقاضوں کی تکمیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توارد کبھی بعض الفاظ کو الٹ پلٹ کر اور کبھی بعض مصرعوں کو بڑھا کر بھی سامنے آتا ہے، اصل میں تہنیت، سہرے، خراج عقیدت میں ”مضامین نو کے انبار“ کا موقع نہیں ہوتا، اس کی لفظیات بھی محدود ہوتی ہیں، اور خیالات میں وسعت کی بھی کمی ہوتی ہے، لن ترانی اور ایران توران کی ہانکنے کا مولانا کا مزاج نہیں تھا، اس لیے ان اصناف میں عام طور پر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے، اور صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ وہ ان اصناف میں ” مضامین نو” کا انبار نہیں لگا سکے ہیں، اور ہر آدمی یہ کام کر بھی نہیں سکتا، اب میرانیس پیدا نہیں ہوں گے جو مضامین نو کے انبار لگا تے تھے، اور خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہم سب کی جانب سے شکر یہ کے مستحق ہیں، انہوں نے مولاناسید مسرور احمد مسرور کے کلام کو مرتب کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچالیا، اللہ تعالیٰ سے اس مجموعہ کے قبول عام وتام،مولانا مرحوم کی مغفرت اورمولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے علمی کاموں میں وسعت اور صحت وعافیت کے ساتھ درازئ عمر کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔