National قومی خبریں

وقف اسلام کا اہم ترین جز ہے، غیر آئینی وقف ترمیمی قانون واپس ہونے تک تحریک جاری رہے گی!

بنگلور، (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”وقف بچاؤ،دستور بچاؤ کانفرنس“کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے فرمایا کہ وقف کا تصور اسلام کا ایک بنیادی، دینی اور روحانی نظام ہے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود، دینی تعلیمات کی ترویج، اور مستحقین کی مدد ہے بلکہ یہ اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک اہم ستون بھی ہے۔ وقف کا وجود پارلیمانی قانون سازی کا محتاج نہیں بلکہ اس کی بنیاد دین اسلام میں مضمر ہے، اور اس میں مداخلت دراصل مسلمانوں کے دینی امور میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حالیہ وقف ترمیمی قانون 2025ء اسی اسلامی روح اور آئینی ڈھانچے کے خلاف ایک سنگین کوشش ہے، جو آئین ہند کے دیے گئے مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور شخصی آزادی کے اصولوں سے متصادم ہے۔ مولانا مجددی نے فرمایا کہ ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وقف کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا جائے گا، اس کالے قانون کو مسلمان کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے اور اس ترمیمی قانون کے خلاف پرامن، آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر بھرپور تحریک جاری رکھی جائے گی۔ وقف کے تحفظ کے لیے ہماری جدوجہد صرف قانونی ہی نہیں بلکہ یہ ایک دینی فریضہ ہے۔
کانفرنس کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ وقف ایک خالص مذہبی اور دینی معاملہ ہے، جس کی بنیاد اسلام کی تعلیمات پر ہے، اور جس کا مقصد عبادت گاہوں، دینی اداروں، یتیموں، غریبوں اور انسانی خدمت کے مختلف شعبوں کو مستقل اور منظم سہارا فراہم کرنا ہے۔ ایسے مقدس نظام میں حکومت یا کسی غیر مسلم ادارے یا لوگوں کی مداخلت نہ صرف مذہبی آزادی میں خلل ہے بلکہ آئین ہند کی روح کے بھی منافی ہے۔ حالیہ وقف ترمیمی قانون 2025ء درحقیقت آئینی، مذہبی اور اقلیتی حقوق پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اگر یہ قانون واقعی آئینی ہوتا تو سپریم کورٹ اس پر عارضی پابندی عائد نہ کرتا۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ آج اگر مسلمانوں کے وقف پر قدغن لگائی جا رہی ہے تو کل کسی اور اقلیت کی مذہبی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر انصاف پسند، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہو، اس قانون کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں، تمام اہلِ ایمان اور آئینِ ہند کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
کانفرنس کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ وقف ایک مقدس امانت ہے جو کسی فرد کی ذاتی جائیداد نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، جسے صدیوں سے دینی، فلاحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے وقف کیا جاتا رہا ہے۔ اس نظام میں مداخلت نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہے بلکہ آئین ہند کی خلاف ورزی بھی ہے، جو اقلیتوں کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔ حالیہ وقف ترمیمی قانون کے تحت وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنا انتہائی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اگر یہ اصول درست ہے تو کیا غیر مسلم کے مذہبی اداروں کے بورڈز میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا؟ سپریم کورٹ کی جانب سے اس قانون پر عبوری پابندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس میں آئینی خامیاں موجود ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ ہم اپنے اکابرین کے حکم اور آئینی حق کے تحت ان غیر آئینی ترمیمات کے خلاف پرامن تحریک جاری رکھیں گے، کیونکہ وقف صرف زمین نہیں بلکہ دین کا حصہ ہے، اور اس کی حفاظت ہم سب کا دینی و قومی فرض ہے۔
کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ وقف اسلام کا ایک اہم اور ثابت شدہ جز ہے، جس کی بنیاد قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ اس کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ وقف کا تصور اسلام یا قرآن میں نہیں پایا جاتا، سراسر لاعلمی اور گمراہی ہے۔ وقف کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں نے مدارس، مساجد، یتیم خانے، اور دیگر فلاحی ادارے قائم کیے اور امت کی اجتماعی خدمت انجام دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج وہی لوگ جو نہ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہیں، نہ وقف کی روح اور تاریخ کو سمجھتے ہیں، وہی ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، جو کہ نہ صرف دینی آزادی کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین کے بنیادی حقوق کے بھی منافی ہے۔ مولانا رشیدی نے فرمایا ہمیں چاہیے کہ ہم شعور و بیداری کے ساتھ، قانونی اور جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے، اس مداخلت کے خلاف منظم اور پرامن جدوجہد جاری رکھیں، کیونکہ وقف کا دفاع دراصل دین اور آئین دونوں کا دفاع ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کی نشستیں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی، نشستوں کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور رکن مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور رکن قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانامحمد نظام الدین مظاہری، حارث پٹیل،محمد فرحان،مولانا ایوب قاسمی،سید توصیف، محمد کیف، وغیرہ بطور خاص شریک تھے۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور متعلقہ نشستوں کے صدر کی دعا پر یہ عظیم الشان ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کی الگ الگ نشستیں اختتام پذیر ہوئی۔

Related posts

 اننتامبانی کی شادی میں سیاسی لیڈروں کی بھرپور  شرکت

Paigam Madre Watan

خادمین امت کی جانب سے قرآن فہمی پروگرام-۱۷ کا اعلان

Paigam Madre Watan

ارض فلسطین پر مسلمانوں کا حق ہے اورمسجد اقصیٰ مسلمانون کا قبلۂ اول ہے

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar