Articles مضامین

عرب کے بے ضمیر حکمرانو! شرم تم کو مگر نہیں آتی…

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین  (اکولہ ،مہاراشٹر )

تاریخ کی عدالت بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ نہ کسی کے نسب کا لحاظ کرتی ہے، نہ جغرافیائی تقدس کو خاطر میں لاتی ہے، اور نہ ہی القابات و خطابات سے مرعوب ہوتی ہے۔ اس کی کسوٹی پر صرف کردار، عمل اور غیرت کو پرکھا جاتا ہے۔ آج جب ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کھڑے ہیں، تو تاریخ کا ایک ایسا ہی بے رحم لمحہ آن پہنچا ہے، جس نے امتِ مسلمہ کے نام نہاد رہنماؤں کے چہروں سے وہ تمام نقاب نوچ ڈالے ہیں جو انہوں نے صدیوں سے اوڑھ رکھے تھے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ایک طرف ایک قوم باطل کے پورے متحدہ محاذ کے سامنے تنِ تنہا کھڑی ہے ، اور دوسری طرف وہ ہیں جو خود کو امت کا پاسبان کہتے ہیں، مگر ان کی خاموشی منافقت کی بدترین داستان رقم کر رہی ہے۔

اور اس داستان کا سب سے حیرت انگیز، سب سے تاریخ ساز اور سب سے جرات مندانہ پہلو یہ ہے کہ ایران اس معرکے میں بالکل تنِ تنہا کھڑا تھا۔ ایک طرف وقت کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقتیں صف آرا  ہیں :امریکہ اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور عالمی اثر و رسوخ کے ساتھ، یورپ اپنی مکمل سفارتی اور معاشی پشت پناہی لیے، اور اسرائیل اپنے ناقابلِ تسخیر ہونے کے جھوٹے زعم میں مبتلا، یہ باطل کا ایک ایسا متحدہ محاذ ہے جس کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور بھی محال لگتا تھا ۔ اور دوسری طرف ایران، تنِ تنہا! نہ کسی عرب ملک کی فضائی چھتری، نہ کسی مسلم ‘برادر’ کی مالی معاونت، نہ ہی کسی عالمی طاقت کی ضمانت۔ اس نے ان طاقت کے فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لوہا لیا۔ یہ محض ایک فوجی جوابی کارروائی نہ تھی،یہ حق کی ایک ایسی للکار تھی جو باطل کے پورے بتکدے کو لرزا گئی۔ ایک قوم کا یوں عالمی استکبار کے سامنے بے سر و سامانی کے عالم میں سینہ سپر ہو جانا، یہی وہ عمل تھا جس نے اس واقعے کو تاریخ ساز بنا دیا، اور یہی وہ آئینہ تھا جس میں عرب حکمرانوں کی بزدلی اور بے حمیتی پہلے سے کہیں زیادہ بدنما اور شرمناک نظر آئی۔

عربوں کے ان عالیشان محلات میں، جہاں عیش و عشرت کے ہر سامان کی فراوانی ہے، وہاں غیرت نام کی شے کا قحط پڑا ہوا ہے۔ ان کی زبانیں، جو مغربی آقاؤں کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہیں، حق کا ایک کلمہ کہنے سے قاصر ہیں۔ ان کی دولت، جو دنیا بھر کے بینکوں اور جائیدادوں میں محفوظ ہے، امت کی ناموس کے دفاع کے لیے ایک ٹکے کے برابر بھی کام نہیں آتی ۔ کچھ نے تو اپنی فضائی حدود اور دفاعی نظام بھی اس اسرائیل کی حفاظت کے لیے پیش کر دیے جس کے ہاتھ روزانہ نہتے فلسطینیوں، معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے خون سے رنگے ہوتے ہیں۔ یہ کیسی قیادت ہے؟ یہ کیسا اسلام  نظام ہیں ان کا ؟ اور یہ کیسی مسلمانی ہے؟ یہ ضمیر فروشی کی انتہا ہے جس پر شیطان بھی شاید شرما جائے۔

اور ذرا اس منظر کا تضاد دیکھیے! جس وقت عرب دنیا اپنی بزدلی کی چادر اوڑھے سو رہی تھی، جب ان کے شیخ اور امیر اپنی سلامتی کی فکر میں مبتلا تھے، اسی وقت مشرق بعید سے ایک ایسی آواز بلند ہوئی جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کمیونسٹ چین، ایک غیر مسلم ملک،کھل کر، بغیر کسی خوف اور مصلحت کے ایران کی حمایت میں کھڑا ہو گیا۔ ممکن ہے چین کا یہ اقدام اس کے اپنے مفادات کے لیے ہو، لیکن اس نے ایک حقیقت کو پوری دنیا پر واضح کر دیا ہےکہ عالمی سیاست میں عزت اور مقام جرات سے ملتا ہے، غلامی سے نہیں۔ چین نے ایک ہی قدم سے عرب حکمرانوں کے قد کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اب وہ دنیا کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔

یہ صورتِ حال ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ان وجوہات کی تہہ تک پہنچیں جنہوں نے عرب حکمرانوں کو اس قدر کھوکھلا اور بے ضمیر بنا دیا ہے۔ پہلی وجہ، ان کا خوف ہے،مگر یہ خوف خدا کا نہیں، تو آخر وہ کون سا زہر ہے جو ان کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے؟ وہ کون سی بیماری ہے جس نے عرب حکمرانوں کو اس قدر کھوکھلا، بے حس اور بے ضمیر بنا دیا ہے؟ آئیے، اس بزدلی کی گہری جڑوں کا تجزیہ کریں۔

پہلی اور سب سے نمایاں وجہ، ان کی غلامی ہے۔ یہ محض سیاسی غلامی نہیں، بلکہ ایک ایسی ذہنی غلامی ہے جس نے ان کی روح تک کو جکڑ لیا ہے۔ ان کے تخت و تاج کی ڈوریں واشنگٹن اور تل ابیب میں بیٹھے ان کے آقاؤں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کی معیشت، ان کی سلامتی، اور ان کا وجود، سب کچھ مغرب کی مرضی پر منحصر ہے۔ انہوں نے اپنی قومی غیرت اور خودمختاری کا سودا چند ڈالروں کی چمک اور عیاشیوں کی ضمانت کے عوض کر دیا ہے، اور اب وہ ایک ایسے غلام کی مانند ہیں جو اپنی زنجیروں کو ہی اپنا زیور سمجھنے لگا ہے۔

لیکن ان کے آقاؤں کے خوف سے بھی بڑا ایک اور خوف ہے جو ان کی روح کو کھوکھلا کر رہا ہے،یہ ان کا اپنی ہی بیدار ہوتی ہوئی عوام سے خوف ہے۔ وہ اسرائیل سے زیادہ ایک متحد، غیور اور با شعور مسلم عوام سے لرزاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کی عوام کے دلوں میں مزاحمت کی چنگاری بھڑک اٹھی تو اس کا شعلہ سب سے پہلے ان کے اپنے محلات کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ اسی خوف کے تحت وہ اسرائیل کے قریب ہو رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اصل دشمن فلسطین پر قابض اسرائیل نہیں، بلکہ اپنی ہی گلیوں میں انصاف کا نعرہ بلند کرنے والی عوام ہے۔ یہ وہ تاریخی فارمولا  ہے جہاں حکمران اپنی کرسی بچانے کے لیے بیرونی دشمن سے ہاتھ ملا لیتا ہے۔

اور آخری وجہ، جو شاید سب سے زیادہ المناک ہے، وہ ان کی روحانی اور اخلاقی موت ہے۔ یہ وہ قیادت ہے جس نے صلاح الدین ایوبی کی شجاعت اور عمر فاروقؓ کے عدل و انصاف کی داستانوں کو قصہ پارینہ سمجھ کر طاقِ نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ ان کی روحیں اس قدر مردہ ہو چکی ہیں کہ انہیں اپنی تاریخ کی عظمت سے کوئی تحریک نہیں ملتی۔ ان کے ‘ویژن 2030’ کے رنگین خوابوں میں فلمی ستاروں اور کنسرٹس کے لیے تو جگہ ہے، مگر قبلہ اول کے آنسوؤں اور ایک مظلوم امت کی فریاد کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ایک ایسی نسل ہے جس نے اپنا ضمیر بیچ کر دنیا خریدنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ جو قومیں اپنی غیرت بیچ دیتی ہیں، وہ دنیا بھی کھو دیتی ہیں اور آخرت بھی۔

حجاز کی مقدس سرزمین بلاشبہ ہمارے دلوں کا قبلہ اور روحوں کا مرکز ہے۔ اس خاک سے پھوٹنے والی ایمان کی روشنی قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن صد افسوس! وہ دور اب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے جب اس سرزمین سے صرف ہدایت کا نور ہی نہیں، بلکہ سیاسی قیادت کا سورج بھی طلوع ہوتا تھا؛ وہ دور جب امت کی نگاہیں اخلاقی جرات اور عملی مدد کے لیے ان ہی وادیوں کے حکمرانوں کی طرف اٹھتی تھیں اور انہیں کبھی مایوسی نہیں ہوتی تھی۔

مگر آج، جب غزہ کے معصوموں نے اپنے لہو میں ڈوبی ہوئی پکار بلند کی، جب قبلہ اول نے اپنی بے حرمتی پر دہائی دی، اور جب ایران کی قیادت نے باطل کے خلاف امداد طلب کی، تو ان مقدس وادیوں میں قائم سنگِ مرمر کے سرد محلات سے جواب میں ایک یخ بستہ خاموشی کے سوا کچھ نہ ملا۔ وہ جواب، جو امت کے دلوں پر بجلی بن کر گرا، مگر اچانک ہزاروں میل دور دیوارِ چین کے عظیم سایوں سے ایک ایسی غیر متوقع گونج کی صورت میں آیا، جو بیک وقت ایک تلخ حقیقت بھی تھی اور تاریخ کا ایک طنزیہ قہقہہ بھی۔

عرب کے ان بے ضمیر حکمرانوں کی سنگین غفلت اور مجرمانہ بے حسی نے تقدیر کا وہ اٹل فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ امتِ مسلمہ کی قیادت کا مقدس عمامہ اب ان کی  پیشانیوں پر مزید نہیں سج سکتا۔ انہیں ہرگز یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ کا بے رحم قلم حرکت میں آ چکا ہے، اور وہ ان تمام ابن الوقتوں اور ضمیر فروشوں کے نام لوحِ جہاں پر غداروں کی اس فہرست میں کندہ کر رہا ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکے گا۔ ان کی قارونی دولت کے خزانے، شیشے کے وہ فلک بوس محلات جو آسمان سے باتیں کرتے ہیں، اور ان کی فرعونی طاقت کا تکبر، یہ سب مل کر بھی انہیں اس دن نہیں بچا پائیں گے جب عدالتِ الٰہی قائم ہوگی اور تاریخ اپنا فیصلہ سنائے گی۔ کیونکہ جب قہار کی پکڑ آتی ہے، تو اس کی گرفت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

شاید یہ حکمران اپنی عقل کے اندھے پن میں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ مردہ سکوت انہیں تحفظ کی ڈھال فراہم کرے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا نہیں، بلکہ ایک آتش فشاں کا دہانہ ہے، جس کے نیچے عرب عوام کے دلوں میں کئی دہائیوں کا غصہ اور نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ اور جس دن یہ آتش فشاں پھٹے گا، اس دن یہی عوام ان  سے اپنے پامال کیے گئے حقوق اور نیلام کی گئی غیرت کا ایک ایک پائی کا حساب مانگے گی۔ اس دن نہ ان کے  مغربی آقا  پشت پناہی کے لیے آئیں گے اور نہیہ بے انتہا دولت انہیں  بچا پائے گی، کیونکہ تاریخ کا ابدی اصول ہے کہ جب قومیں بیدار ہوتی ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر کے اندر چھپے خانہ خرابوں  کا صفایا کرتی ہیں۔ اب بھی شاید مہلت کا ایک آخری لمحہ باقی ہے کہ یہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں توبہ کریں اور تاریخ کے درست سمت میں آ کھڑے ہوں، ورنہ ان کا انجام بھی تاریخ کے اس کوڑے دان میں ہوگا جہاں ان گنت فرعونوں اورمنافقین  کی لاشیں پڑی ہیں، جن کا نام آج کوئی لعنت بھیجنے کے لیے بھی اپنی زبان پر نہیں لاتا۔

Related posts

دنیا بھی سنور جائے ا ور آخرت بھی!

Paigam Madre Watan

خدارا اب فرقوں کی نہیں دین کی باتیں کریں !!

Paigam Madre Watan

گنگا کنارے خانقاہ منعمیہ کے دوارے

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar