شکایت کنندگان کی رقم بڑھانے کیلئے فہرست میں ہوئی ہیر پھیر
ڈپارٹمنٹ جانے والے سرمایہ کاروں کے نام کئی بار شمار کئے گئے
نئی دہلی ( رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز)ہیرا گروپ تنازعہ شروع ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ایس ایف آئی او (سیریس فراڈ انویسٹیگیشن آفس) کو سونپ دیا گیاتھا، جس کے بعد ایس ایف آئی او نے مختلف وقت اور اخباروں میں اشتہار جاری کرکے ہیرا گروپ کے معاملے میں ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرنے والے لوگوں کو اپنے یہاں متوجہ کیا، اور یہ کام ایس ایف آئی او نے تلنگانہ ہائی کورٹ کے حکم پر کیا تھا، جس کے بعد ہیرا گروپ سرمایہ کار جنہیں ڈپارٹمنٹ کا راستہ اختیار کرنا تھااور کمپنی سے وہ بدظن ہوگئے تھے، ساتھ ہی ساتھ انہیں کمپنی پر یہ بھروسہ نہیں رہا تھا کہ کمپنی انہیں پیسے لوٹائے گی بھی یا نہیں۔ نتیجے کے طور پر ایس ایف آئی او نے لوگوں کی اولین فہرست سازی کی اور پہلے مرحلے کی لسٹ جاری کرتے ہوئے 6000 ہیرا گروپ سرمایہ کاروں کے رابطہ میں آنے کی بات کہی، بعد کی خبروں کے مطابق ایس ایف آئی او سے رابطہ کرنے والوں کی تعداد 12000 بتائی گئی ہے۔ تعداد جو بھی ہو لیکن پہلی فہرست کا معائنہ اور جانچ پڑتال کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوتا ہے کہ ایس ایف آئی او میں جتنے بھی ذرائع سے لوگ پہنچنے انہیں اتنی بات درج کر لیا گیا، مثال کے طور پر اگر کسی نے ای میل کے ذریعہ اپنا شکایت نامہ بھیجا تو اسے درج کر لیا گیا، اور کسی نے پوسٹل ڈاک سے بھیجا تو انہیں بھی فہرست میں شامل کر لیا گیا، اور اگر کسی نے ایک جم غفیر کے ساتھ جانا مناسب سمجھا تو ان کے ہاتھوں بھی ڈپارٹمنٹ میں اپنا ڈاکیومنٹ پہنچا دیا، نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ کسی بھی ذریعہ سے ہیرا گروپ کے سرمایہ کار آتے گئے ایس ایف آئی او انہیں اپنی فہرست میں شامل کرتا گیا، اور تعداد بڑھتی چلی گئی، اب حال یہ ہے کہ ایک ایک شخص دو دو اور تین تین بار فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک شخص فہرست میں تین بار شامل کیا گیا تو اس کی سرمایہ کاری رقم تین بار شمار کی گئی۔ اس طرح سے ایک کا تین اور تین کا تیس اور تیس کا تین سو اور تین ہزار بن گیا۔
اس فہرست پر بدعنوانی کا الزام بھی لگ سکتا ہے، حالانکہ ایس ایف آئی او کی ماہر ٹیم سے اس بات کا امید نہیں ہو سکتی کہ اتنی بڑی کوتاہی جان بوجھ کر کی گئی ہو۔ لیکن جو بھی ہیرا گروپ آف کمپنیز پر اس بات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے کہ جہاں تیس کروڑ روپئے کا معاملہ ہو وہاں تین سو کروڑ روپئے کا نشانہ کمپنی کے سامنے رکھا جائے اور عدالت کو اسی غلط ریکارڈ پر بیان دیا جائے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ، ایس ایف آئی او کے ذریعہ دی گئی فہرست کی مدد سے ای ڈی (انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ) اپنے قدم آگے بڑھا رہا ہے، اور عدالت کے حکم پر ایس ایف آئی او کے ذریعہ شمار کئے گئے رقم کی دستیاب کے لئے ہر اقدام کر رہا ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے ای ڈی کو ہدایت دی ہے۔ لیکن اعتراض کی بات یہ ہے کہ جتنی زیادہ رقم کی ضرورت بتائی جائے گی اتنی زیادہ زمینیں ہیرا گروپ آف کمپنیز سے حاصل کی جائے اور نیلام کی جائیں گی، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نیلامی میں آنے والی چیزیں سو کی دس بیس روپیہ میں فروخت ہوتی ہے۔ اور اس طرح سے کمپنی کو بے حد نقصان کا خدشہ ہے۔ لہذا انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ فہرست سازی میں شفافیت لائی جائے، اور اگر ایک شخص کا نام اور تفصیل دو بار آیا ہے تو اسے شارٹ لسٹ کیا جائے جس کی مدد سے کمپنی کو بھی نقصان کا احتمال کم اور سرمایہ کاروں کو بھی ان کی جائز ادائیگی ہو سکے۔
بیان کے مطابق ایک ہی سرمایہ کار کا نام متعدد بار فہرست میں شامل کیا گیا، جس سے سرمایہ کاری کی رقم کو کئی گنا بڑھا کر پیش کیا گیا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک سرمایہ کار کی رقم 30 کروڑ روپے تھی، تو فہرست میں دہراو کی وجہ سے اسے 300 کروڑ روپے تک ظاہر کیا گیا۔ یہ ایک سنگین انتظامی خامی یا بدنیتی پر مبنی عمل ہو سکتا ہے، جو ہیرا گروپ پر غیر ضروری دباو ڈال رہا ہے۔ای ڈی، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں، ایس ایف آئی او کی فہرست کی بنیاد پر ہیرا گروپ کی جائیدادوں کو نیلام کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ چونکہ نیلامی میں عموماً جائیدادیں کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، اس سے ہیرا گروپ کو بھاری مالی نقصان کا خطرہ ہے۔ اگر فہرست میں دہراو یا غلط اعداد و شمار شامل ہیں، تو یہ نقصان غیر منصفانہ طور پر بڑھ سکتا ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کو ان کی اصل سرمایہ کاری کی رقم واپس ملے، لیکن کمپنی کو بھی غیر منصفانہ نقصان سے بچایا جائے۔ اس کے لیے فہرست سازی کے عمل کو شفاف بنانا اور دہرے اندراجات کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ایک آزاد ادارے کے ذریعے فہرست کا آڈٹ کیا جائے تاکہ دہرے اندراجات کو ہٹایا جائے اور اصل سرمایہ کاروں کی تعداد اور رقم کا تعین کیا جائے۔ اگر جائیدادوں کی نیلامی ناگزیر ہے، تو اس عمل کو شفاف بنایا جائے اور مناسب قیمت یقینی بنائی جائے تاکہ کمپنی اور سرمایہ کار دونوں کا نقصان کم ہو۔ ہیرا گروپ تنازعہ میں فہرست سازی کی مبینہ بے ضابطگیاں ایک سنگین مسئلہ ہیں، جو سرمایہ کاروں اور کمپنی دونوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ شفافیت اور غیر جانبدار جانچ پڑتال اس معاملے کو منصفانہ طور پر حل کرنے کی کلید ہے۔ عدالتوں، ایجنسیوں، اور متاثرہ فریقین کو مل کر ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو سرمایہ کاروں کے حقوق کا تحفظ کرے اور کمپنی پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالے۔ اس سلسلے میں، آزاد آڈٹ اور عدالتی نگرانی کے ذریعے فہرست کی درستگی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔