Articles مضامین

بڑے بھائی جناب گریش جویال جی

مطیع الرحمن عزیز 

ویسے کہنے کو تو آپ سنگھ یعنی آر ایس ایس کے مستعد کارکن ہیں، جنہیں سماج میں طرح طرح کے القاب و آداب سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن میں پندرہ سال کے دور دوستی اور بھائی چارہ میں ایسی بہت سی یادیں ہیں جو ہمیں زندگی بھر یاد آتی رہیں گی، ہم نے گریش جویال جی میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جس سے ہم ان سے دور رہ سکیں، یا کسی طرح کے تنفر کے نظریہ سے انہیں دیکھیں، انسان کو کیا چاہئے، عزت و تکریم، گریش جویال جی نے نوکری میں مالک کی حیثیت سے بھی ہمارے ساتھ وقت گزارا، جس پر انہیں ہم نے بے مثال پایا، پھر ہم نے بزنس پارٹنرشپ اختیار کی اور انہیں جانثار پایا، ہم نے علاحدگی اختیار کی اور ہم نے انہیں مشفق بڑا بھائی پایا۔ تین سال سے ہم علاحدہ رہگزر پر ہیں، میں بھول چوک میں کبھی کبھار انہیں یاد نا کرسکا تو وہ خود مجھے فون کر بیٹھے، اور کہا کہ رحمن بھائی اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیا کیا آپ نے ہم کو۔
جناب گریش جویال کے ساتھ کئی سفر کئے، انہیں اچھا ہم سفر پایا، کئی مشورے طلب کئے بہتر مشیر ثابت ہوئے۔ استاذ کی حیثیت سے کچھ سکھانے کیلئے استبصار کیا تو ایک گرو کی طرح باریک بینیاں بتائیں، ہمارے گھر تک سفر کیا اور شادی ویواہ میں شریک ہوئے، ہماری امداد بھی کی، لوگوں نے ہمیں علاحدہ کرنا چاہا مگر ہم مضبوط رہے، مجھ سے لوگ کامیاب نا ہوئے تو گریش جویال جی کے کان میں پھس پھسی کرنے لگے، جس کا سادا سا جواب گریش جویال نے دیا کہ بھائی آپ تو ان کے اپنے ہم مذہب ہم برادری ہو، اگر رحمن بھائی اپنے ہم مذہب ہم برادری کی آپ برائی مجھ سے کر سکتے ہو تو میری برائی بھی بہت جلد کرو گے۔ کئی مثالیں ایسی ہیں جنہیں مثال کے طور پر پیش کرنے لائق ہیں۔
اعلیٰ عہدیداروں سے کبھی یہ سوچ کر مجھے دور نہیں رکھا کہ اگر رحمن کو ملاقات کرا دی تو میری وقعت کہاں رہ جائے گی۔ رام لال جی، موہن بھاگوت جی، اندریش کمار جی، نریندر مودی جی، راجناتھ سنگھ جی، امت شاہ جی اور مختار عباس نقوی و شاہنواز حسین جیسے درجنوں لوگوں سے کہا کہ رحمن بھائی میرے چھوٹے بھائی جیسے ہیں۔
ایک دفعہ کا واقعہ ایک پروگرام کے دوران ایک مسلم بھائی نے گریش جویال جی سے جاکر کہا کہ یہ مطیع الرحمن جو کو ہر جگہ آپ متعارف کرا رہے ہیں، وہ کانگریسی کا بیٹا ہے، جس پر گریش جویال جی نے کہا کہ مولانا کانگریسی بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں نا؟ اس جواب کو سن کر وہ مولانا شرمسار ضرور ہوئے ہوں گے۔
گریش جویال جی کی مجھ سے محبت اور الفت ایسی کہ وہ مولانا صاحب مہاراشٹر کے ایک کانفرنس میں اس بات پر ناراض ہوئے کہ گروپ پوز میں ان کی تصویر کیسے شائع کی، ہمت کیسے ہوئی۔ جب کسی دوسرے فرد نے گریش جویال سے مولانا کی بدتمیزی کا ذکر کیا تو مجھے بلا کر کہنے لگے کہ رحمن بھائی اگر مولانا کو معاف کر دیتے ہو تو وقت اس بدتمیزی کا جواب ان صاحب کو دے دے گا، اور اگر کہتے ہو تو جتنی مراعات ان کو ہماری جانب سے میسر ہیں سب آج ہی چھین لیتے ہیں۔ جس پر میں نے درگزر کرنے کو کہا۔ آخر کار وہ مولانا چند سال بعد گریش جویال جی کی تنظیم سے بہت ذلیل وخوار ہو کر نکالے گئے۔ انہی مولانا صاحب کی ایک اور کرم فرمائی میرے ساتھ وقوقع پذیر ہوئی، میں نے گریش جویال جی کے ایک پروگرام کی رپورٹنگ کی اور اپنے اخبار میں شائع کی تھی، جس کی شکایت مولانا صاحب نے کی کہ اور کہا کہ اس رپورٹ میں سولہ سو غلطیاں ہیں، جب کہ ورڈ کائونٹنگ کیا تو پتہ چلا کہ مضمون میں سولہ سو الفاظ ہی تھے، جب گریش جویال جی نے یہ سنا تو ہنسنے لگے اور کہنے لگے ہم مذہب بھائی اتنے حاسد ہیں اور شکایت ہے کہ ہم غلط ہیں۔
دہلی قومی راجدھانی ہونے کے سبب مجھے کبھی کسی ڈپارٹمنٹ یا منسٹری میں جانے یا کسی بھی کیبنیٹ منسٹر سے ملنے سے روک تھام نہیں رہی، اس چیز میں جناب گریش جویال جی کی بہت کرم فرمائی رہی، ہر جگہ جانے کے بعد گریش جویال جی بس یہی سوال پوچھتے کہ رحمن بھائی منسٹر صاحب عزت سے ملے تھے؟ بات چیت توقیر کے دائرے میں کی یا کوئی شکایت ہے؟ کئی بار دیگر ریاستوں کے دورے پر جناب گریش جویال نے سرکاری مراعات مہیا کرائیں، اور جب واپسی ہوئی تو ان کا ایک ہی سوال رہا کہ کسی چیز کی دقت یا پریشانی، انتظامات میں کسی طرح کی کمی تو نہیں رہی نا؟
گریش جویال جی ایک مشفق استاذ کی طرح رحم دل اور کرم فرما ثابت ہوئے۔ صحافت کے پیشہ میں جب ہم ایک ساتھ کام کرتے تھے، تو میڈیا نے میرے اخبار پیغام مادر وطن کو سنگھ کا اخبار کہہ کر سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چوبیس گھنٹے معاملہ زیر بحث رہا، گریش جویال جی میرے گھر تشریف لائے اور کہا کہ رحمن بھائی پریشان ہوں گے اس لئے میں آیا ہوں کہ آپ کو تسلی دوں۔ کہنے لگے دیکھو رحمن بھائی، جب بھی آپ آگے بڑھیں گے تو یہ دنیا آپ کو پتھر مارے گی، اب آپ پر منحصر ہے کہ اس پتھر کو آپ اپنے لئے پیروں کا روڑا بناتے ہو یا انہیں پتھروں کے ذریعہ سیڑھی بنا کر آگے کے بلندی کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہو۔
غرض یہ کہ گریش جویال جی کے ساتھ گزارے اخبار پیغام مادر وطن کے پانچ سال بے مثال کی یہ تصویر آج میرے سامنے آئی تو کچھ یادیں میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں، تحریر چند سطر لکھنے کے لئے اتنا کچھ لکھ دیا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک کے بھائی چارہ کو ہمیشہ قائم رکھے۔ اور گریش جویال جی کو اللہ تعالیٰ صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ایمان کی دولت سے مالا مال کرے۔ آمین

Related posts

شیخ عُبیداللہ طیّب مکّی رحمہ اللہ کا پیغام "بے لگام” لوگوں کے نام

Paigam Madre Watan

تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا

Paigam Madre Watan

ایک ایسا عظیم شخص جس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں

Paigam Madre Watan

Leave a Comment