Articles مضامین

ماں تو رونا نہیں!

(عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی ثابت قدمی اور ایمان کی داستان)

مطیع الرحمن عزیز 

ایک ملاقات کے دوران، جب ایک خاتون نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ سے ملاقات کی، ان کے دل سے ایک ایسی آواز بلند ہوئی جو ہر سننے والے کے دل کو چھو گئی۔ ڈاکٹر نوہیرا نے اپنی روتی ہوئی والدہ، محترمہ بلقیس شیخ، کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
"ماں! تیری بیٹی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے تجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ ایک دن تو دیکھے گی کہ حق غالب آئے گا اور باطل شکست سے دوچار ہوگا۔ ماں، غم کیوں کرتی ہے؟ تیری دعاؤں کی مجھے ضرورت ہے۔ باقی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ سب کچھ بہتر کر دے گا۔”
یہ الفاظ کوئی معمولی جملے نہیں تھے، بلکہ ایمان، حوصلے اور یقین کی وہ آواز تھی جو مشکل حالات میں بھی ڈاکٹر نوہیرا کے عزم کو بلند رکھتی ہے۔ ملاقات کرنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ خود کو ابھاگا سمجھ رہی تھیں، کیونکہ وہ ڈاکٹر نوہیرا کو حوصلہ دینے آئی تھیں، مگر ان کی اپنی نسوانیت غالب آگئی اور وہ رونے لگ گئیں۔ لیکن ڈاکٹر نوہیرا نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا:
"جب تک رب کائنات کا حکم نہیں، میں یہاں ہوں۔ جو رزق، جو مقام، جو منزل کسی کے مقدر میں لکھی ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے کہ کون کہاں سانس لے گا اور کہاں اس کی آخری سانس ہوگی۔”
یہ سن کر میرا دل ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوب گیا۔ ڈاکٹر نوہیرا کی یہ بات مجھے تاریخ کے ان عظیم کرداروں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے ایمان اور عزم کو ڈگمگانے نہ دیا۔ میں نے اس خاتون سے اپنی طرف سے دو تاریخی واقعات شیئر کیے، جو اس جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔
پہلا واقعہ مولانا محمد علی جوہرؒ کا ہے۔ جب انگریزوں نے انہیں قید کیا، تو جیلر نے آکر کہا: "مولانا، آپ کی پہلی بیٹی جس مرض سے فوت ہوئی، اسی مرض میں آپ کی دوسری بیٹی بھی مبتلا ہے۔ ایک درخواست لکھ دیں، ہم آپ کو اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت دلوا دیں گے۔” لیکن مولانا نے جواب دیا: "اگر قید کے درمیان میری شہزادی کو رب کائنات اپنے حضور بلا رہا ہے، تو یہ اللہ کی مرضی ہے، اور اس مرضی پر میں راضی ہوں۔” انہوں نے انگریزوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور کوئی درخواست نہ لکھی۔
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزادؒ کا واقعہ ہے۔ انگریز جیلر نے انہیں بتایا کہ ان کی اہلیہ زلیخا بیگم کی آخری سانسیں چل رہی ہیں، اور ایک درخواست سے وہ ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ مگر مولانا نے درخواست لکھنا گوارا نہ کیا۔ بعد میں انہوں نے اخبار میں اپنی اہلیہ کی وفات کی خبر پڑھی، لیکن ان کا ایمان نہ ڈگمگایا۔
یہ عظیم شخصیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ مشکل حالات میں صبر، حوصلہ اور اللہ پر بھروسہ ہی انسان کو سرخرو کرتا ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی یہ بات، ان کا یہ جذبہ، اسی عظیم روایت کا تسلسل ہے۔ آج جب فیس بک پر ایک تصویر نے کتاب "جذبہ شاہین: عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ” کے اجرا کے لمحات کو تازہ کیا، تو دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر نوہیرا شیخ، ان کی والدہ محترمہ بلقیس شیخ، ان کے اہلِ خانہ اور تمام صبر کرنے والوں کو صبرِ جمیل اور اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شخصیات کی قربانیوں اور جدوجہد کا بہترین بدلہ عطا کرے جو مشکل حالات میں بھی حق کی راہ پر ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ آمین۔

Related posts

جامعہ سنابل کے کچھ غور طلب پہلو (مثبت منفی)

Paigam Madre Watan

علماءکی گرفتاری، تاریخ، موجودہ وقت اور اس کا حل

Paigam Madre Watan

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب 

Paigam Madre Watan

Leave a Comment