Articles مضامین

حیدر آباد کی 9 مساجد کی شہادت پر خاموشی اور دیگر پر ماتم

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

مذہبی مقامات کی توڑ پھوڑ اور سیاسی منافقت، مذہبی مقامات کی حفاظت اور ان کی توہین ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا ایک حساس اور متنازع موضوع رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے مساجد نہ صرف عبادت کی جگہیں ہیں بلکہ ان کی تہذیبی اور روحانی شناخت کی علامت بھی ہیں۔ "شہادت” کا لفظ یہاں استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد مساجد کی توڑ پھوڑ یا انہدام ہے، جو مسلمانوں کے لیے ایک روحانی زخم کی مانند ہے۔ اس مضمون میں ہم ایک ایسے موضوع پر بات کریں گے جو سیاسی منافقت اور مذہبی جذبات کے استحصال کی ایک واضح مثال ہے، ایک نام نہاد قائد کی حیدر آباد (تلنگانہ، بھارت) میں 9 مساجد کی توڑ پھوڑ پر خاموشی اور بابری مسجد کی شہادت پر ماتم۔ یہ موضوع نہ صرف بھارتی مسلمانوں کی مشکلات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ کس طرح سیاسی رہنما مذہبی جذبات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بابری مسجد کا واقعہ 1992 کا ہے، جو ایک تاریخی زخم ہے، جبکہ حیدر آباد کی 9 مساجد کی توڑ پھوڑ 2020-2023 کے دوران کی گئی، جو ایک حالیہ اور مقامی مسئلہ ہے۔ اس تضاد کو سمجھنے کے لیے ہمیں دونوں واقعات کی تفصیلات اور متعلقہ شخصیات کی کردار پر نظر ڈالنی ہو گی۔ بابری مسجد کی توڑ پھوڑ 6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں ہوئی۔ یہ مسجد 16ویں صدی میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی، لیکن ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ تھا کہ یہ رام مندر کی جگہ پر بنی تھی۔ بی جے پی، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور دیگر ہندو تنظیموں کی تحریک کے نتیجے میں ہزاروں کارسیوکوں نے مسجد کو گرا دیا، جس سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور ہزاروں لوگ، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، مارے گئے۔
اس واقعے کے بعد سے ہر سال 6 دسمبر کو مسلمان تنظیموں اور رہنماوں کی جانب سے ماتم کیا جاتا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ایک یادگار دن ہے جہاں وہ بابری مسجد کی شہادت پر احتجاج کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور عدالتوں میں مقدمات لڑتے ہیں۔ 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی، جو اب مکمل ہو چکی ہے، لیکن مسلمان اب بھی اسے ناانصافی قرار دیتے ہیں۔ حیدر آباد کے نامور نام نہاد مسلمان رہنما، جیسے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی، ہر سال بابری مسجد کی شہادت پر ماتم کرتے ہیں اور ہندو انتہا پسندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اویسی صاحب نے متعدد بار پارلیمنٹ اور میڈیا میں بابری مسجد کو مسلمانوں کے حقوق کی علامت قرار دیا ہے اور اس کی توڑ پھوڑ کو بھارتی سیکولرزم کی موت کہا ہے۔ یہ ماتم نہ صرف مذہبی ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے تاکہ مسلمان ووٹرز کو متحد رکھا جائے۔ اب آتے ہیں حیدر آباد (تلنگانہ) کی 9 مساجد کی توڑ پھوڑ کی طرف۔ یہ واقعات 2020 سے 2023 کے درمیان پیش آئے، جب تلنگانہ کی بی آر ایس (سابقہ ٹی آر ایس) حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر متعدد مذہبی مقامات کو گرایا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ بی آر ایس حکومت نے 9 مساجد کو توڑا، جن میں سے دو تلنگانہ سیکریٹریٹ کی تعمیر کے لیے گرائی گئیں۔ کے ٹی راما راو (کے ٹی آر)، جو بی آر ایس کے ورکنگ پریذیڈنٹ ہیں، نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو مساجد ایک مندر کے ساتھ گرائی گئیں اور باقی روڈ وائڈننگ اور دیگر پروجیکٹس کے لیے، اور حکومت نے ان کی جگہ نئی مساجد تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔
ان مساجد میں سے جمعہ مسجد اور مسجد ہاشم ہے، سیکریٹریٹ کی جگہ پر گرائی گئیں۔ دیگر مساجد روڈ وائڈننگ، اینکروچمنٹ ہٹانے اور شہری ترقی کے نام پر متاثر ہوئیں، جن کی تعداد مجموعی طور پر 9 بتائی جاتی ہے۔ ان کی توڑ پھوڑ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھی، کیونکہ یہ مساجد تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل تھیں۔ تاہم، حیدر آباد کے نام نہاد مسلمان قائد اسد الدین اویسی اور ان کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے اس پر خاموشی اختیار کی۔ اس وقت اے آئی ایم آئی ایم بی آر ایس کی اتحادی تھی، اور اویسی صاحب نے سیکریٹریٹ مساجد کی توڑ پھوڑ پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ اویسی صاحب نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے بجائے سیاسی اتحاد کو ترجیح دی۔
یہ خاموشی اس لیے بھی معنی خیز ہے کہ اویسی صاحب بابری مسجد جیسے قومی مسائل پر تو آواز اٹھاتے ہیں، لیکن مقامی سطح پر، جہاں ان کی پارٹی کی حکومت میں شراکت ہو، وہ چپ رہتے ہیں۔ یہ سیاسی منافقت کی ایک مثال ہے، جہاں مذہبی جذبات کو ووٹ بینک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سیاسی منافقت، خاموشی اور ماتم کا تضاد، نام نہاد قائد کی یہ خاموشی ایک بڑا سوال اٹھاتی ہے: اگر بابری مسجد کی شہادت پر ماتم کیا جاتا ہے تو حیدر آباد کی 9 مساجد کی توڑ پھوڑ پر کیوں خاموشی؟ بابری مسجد کی توڑ پھوڑ ہندو انتہا پسندی کی علامت ہے، جو مسلمانوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ لیکن مقامی توڑ پھوڑ، جو ترقیاتی نام پر ہو رہی ہے، پر خاموشی یہ دکھاتی ہے کہ رہنما صرف ان مسائل پر بولتے ہیں جو ان کے سیاسی مفاد میں ہوں۔بابری پر ماتمکرتے ہوئے اویسی صاحب سمیت مسلمان رہنما ہر سال احتجاج کرتے ہیں، جو ان کی مذہبی قیادت کو مضبوط تو کرتا ہے مگر منافقت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اتحادی حکومت کی وجہ سے کوئی احتجاج نہیں، جو مسلمانوں کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔یہ تضاد نہ صرف اویسی صاحب بلکہ دیگر مسلمان رہنماوں پر بھی اجاگر ہوتا ہے جو قومی مسائل پر تو شور مچاتے ہیں لیکن مقامی ناانصافیوں پر خاموش رہتے ہیں۔ بھارت میں مساجد کی توڑ پھوڑ کا رجحان بڑھ رہا ہے، جیسے ہلدوانی میں مسجد اور مدرسہ کی توڑ پھوڑ، جو فسادات کا سبب بنی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہحقیقی قیادت کی ضرورت ، اور مسلمانوں کے جذبات سے اشتعال انگیز طور پر کھیلنا ،یہ موضوع ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حقیقی قیادت مذہبی جذبات کے استحصال سے بالاتر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو ایسے رہنماوں کی ضرورت ہے جو ہر جگہ مساجد کی حفاظت کے لیے آواز اٹھائیں، چاہے وہ بابری ہو یا حیدر آباد کی 9 مساجد۔ خاموشی جرم ہے، اور ماتم صرف سیاسی ڈرامہ نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنے حقوق کی لڑائی لڑنی چاہیے، تاکہ ایسے نام نہاد قائدوں کی منافقت کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتحاد اور انصاف عطا فرمائے۔ آمین۔

Related posts

ماسٹر احمد حسینؒ : کچھ یادیں کچھ باتیں

Paigam Madre Watan

  حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں

Paigam Madre Watan

मीर सादिक और मीर जाफ़र द्वारा मुस्लिम अर्थव्यवस्था पर आक्रमण

Paigam Madre Watan

Leave a Comment