از: مولانا محمد نعمان رضا علیمی
کہا جاتا ہے کہ جتنے ہاتھ ہوں گے اُتنا ہی کام میں آسانی ہو گی اور کام بھی جلدی مکمل ہو گا مگر یہ سب اُسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب منصوبہ بندی ٹھیک سے کی ہو۔ یہی فارمولا آبادی کے اُصول کے لئے بھی ہے کہ کسی ملک کے حالات کا انحصار اُس ملک کے وسائل پر ہے کہ آیا وہ وسائل اُس ملک کی آبادی کے لئے کافی ہیں۔ آج کے دور جدید میں آبادی ملک کے مسائل اور وسائل پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ زیادہ آبادی والے ممالک کی نمو کا جائزہ لیا جائے تو وہاں وسائل کم اور مسائل زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ ایشیا کرہ ارض کا ایسا خطہ ہے جو گنجان آباد براعظم ہے۔ ہندوستان، چین اور انڈونیشیا جیسے گنجان آبادی والے ممالک براعظم ایشیا میں واقع ہیں جو پہلے، دوسرے اور تیسرے ممالک کی فہرست میں آتے ہیں اور آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ہندوستان ایشیا میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
پہلے زمانے میں کسی بھی ملک یا قبیلے کی افرادی قوت کو اہم سمجھا جاتا تھا چاہے وہ خواندگی سے آراستہ ہوں یا نہیں بس افرادی قوت کے ہی ذریعے کوئی ملک یا قبیلہ دوسرے ملک پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور جس ملک کی افرادی قوت زیادہ ہوتی وہ مخالف حریف پر غلبہ حاصل کر لیتا۔ اس طرح پہلے کے زمانے میں افرادی قوت کو بڑھانے پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور کسی بھی ملک یا قبیلے کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ افرادی قوت کے زور پر دنیا کو فتح کرے اور دنیا کے تمام تر وسائل پر قابض ہو جائے۔لیکن آج حالات اس کے بالکل برعکس ہیں جو افرادی قوت پہلے کبھی کسی ملک کے لیے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی تھی اب وہ دنیا کے لیے سر درد بنی ہوئی ہے۔
اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر کھڑی ہے۔ یہ انسانوں کے لیے لمحہ فکریہ بنتا جا رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی آبادی اٹھ ارب سے زائد ہو چکی ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی آبادی 143 کروڑ ہے۔ جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 17.76 فیصد ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس وقت ایک عالمی مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ دنیا کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، آنے والی چند سالوں میں یہ 10 ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق روزانہ ڈھائی لاکھ سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں پوری دنیا کی آبادی ڈھائی ارب تھی۔ جو اب بڑھ کر 8 ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔
’’ایک ایسی دنیا کا تصور کرنا جہاں ہم میں سے تمام 8 بلین کا مستقبل امید اور امکانات سے بھرا ہو۔‘‘ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں؟ صرف ہندوستان کی بات کریں تو ہندوستان، آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے مضر اثرات کیا ہیں؟ یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے زیادہ اثر پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی خوراک پر پڑتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچوں کو مکمل غذائیت نہیں ملتی۔ جس کی وجہ سے وہ غذائی قلت اور دیگر کئی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کے علاوہ ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ، رہائش کی کمی اور معیار زندگی کا پست ہونا شامل ہے۔ ہندوستان میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ غربت، جرائم، چوری، کرپشن اور کالا بازاری جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔آبادی میں اضافہ ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے۔ بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے قدرتی وسائل کا اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کو آبی آلودگی، فضائی آلودگی اور مٹی کی آلودگی کا بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت کے نقطہ نظر سے بھی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ محدود وسائل کے درمیان بڑی آبادی نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کا تصور ہی بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ غیر مساوی تقسیم کرپشن اور دیگر بہت سی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کو جنم دے رہی ہے جن میں بچوں کی مزدوری اور استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی شامل ہیں۔
ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بے قابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ہندوستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد بالخصوص کمپنی اور فیکٹری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان سے ملک کو ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہاں پر یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اگر ایک بار اراضی کے استعمال میں تبدیلی آجائے تو اسے اصل مقصد کی طرف واپس لانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔
زرعی اراضی میں تشویشناک کمی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات میں بھی وسیع پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے جو ہمارے ماحولیات پر شدید منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جنگلات کے راستے جاتے ہوئے یہ تبدیلی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے جہاں درخت آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئی بے ہنگم آبادیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔
ایسے حالات میں عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں ہندوستان کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کو زندگی گزارنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، علاج، مناسب خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی وغیرہ اب کی موجودہ سہولیات 143 کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں تو آبادی دگنی ہونے پر کیا ہوگا؟ اس صورتحال کا پورے ہندوستانیوں کو ہی سامنا ہے، جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
آبادی سے صرف یہی نہیں پتا چلتا کہ کرہ ارض پر زندہ افراد کی تعداد کتنی ہے بلکہ ہمیں لوگوں کے معیار زندگی کو بلند رکھنے کی کوششوں کو از سرِ نو ترتیبکرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی اور وسائل میں توازن کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں سب سے مثبت پہلو یہ ہیکہ ہندوستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جائے تو ملک کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم اور فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بہتر استعمال سے معیارِ زندگی بلند ہونے کی امیدیں پیدا ہوں گی اور ہندوستان کے ہر طبقے کو بنیادی سہولتوں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، طبی سہولیات، مناسب خوراک، رہائش اور ذرائع آمدورفت وغیرہ کی دستیابی ممکن ہوگی۔ تاہم، اس کے لیے ابھی سے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔