Delhi دہلی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام پذیر

نئی دہلی (پی ایم ڈبلیونیوز)غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب تقریبات کا اتوار کو اختتام ہوگیا۔ان تقریبات کے تحت ہونے والے بین الاقوامی سمینار بعنوان ’غالب: راز حیات اور اضطراب آگہی‘ میں ملک و بیرون ملک کے دانشوروں نے شرکت فرماکر مقالات پیش کیے۔ تیسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر انیس اشفاق نے فرمائی۔ انہوں نے کہاکہ بڑے شاعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جس زمانے کی بصیرتوں کو اس میں تلاش کیا جائے اس میں مل جاتی ہیں۔ ژاک دریدہ نے جو جدید تصور لسان پیش کیاوہ سب غالب کے یہاں پہلے سے موجود ہیں۔ اس اجلاس میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے ’کلام غالب کے نقش ہائے رنگارنگ‘ ، ڈاکٹر ریحان حسن نے ’غالب کی نظرمیں راز حیات و ممات‘ اور ڈاکٹر سید ثاقب فریدی نے ’غالب کی غزل میں زندگی کی بے ثباتی‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر نوشاد منظر نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ غالب کے یہاں بے خودی آگہی کے مترادف ہے۔ آشوب آگہی کا ترکیب ان کے علاوہ شاید ہی کسی شاعر نے استعمال کی ہو۔ وجود کی حقیقت کوئی مفکر یا سائنس داں دریافت نہیںکرسکا صرف شاعرہی کسی حد تک اس کی حقیقت کو واضح کرسکتاہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر عتیق اللہ نے ’غالب خاطر آگاہ اور حیطۂ ادراک‘، پروفیسر انیس اشفاق نے ’غالب کا طلسم خانۂ آزار‘، اور ڈاکٹر خالد علوی نے ’غالب کا انداز فکر‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت محترمہ سیمیں فلک نے کی۔ تیسرے او رآخری اجلاس کی صدارت پروفیسرپروفیسر انورپاشانے فرمائی۔صدارتی تقریر کے دوران انہوں نے کہاکہ اضطراب اور آگہی ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ آگہی کے بطن سے ہی اضطراب جنم لیتاہے ورنہ بے خبری تو آسائش کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر قاضی جمال حسین نے ’غالب کا تصور حیات‘ اور پروفیسر فاروق بخشی نے’غالب اور ترقی پسند تنقید‘ اور پروفیسر سید حسن عباس نے ’غالب کی خودشناسی‘کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر شعیب رضاخان وارثی سے وابستہ رہا۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہرسال بین الاقوامی سمینار کاانعقاد کرتاہے۔ ہماری کوشش رہتی ہے کہ مقالات کی روشنی میں کارآمد باتیں سامنے آئیں اور تکرار سے محفوظ رہا جاسکے۔ پروفیسر سید خالد قادری نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ سمینارکاموضوع بہت اہم تھااور اس پر جدید تھیوریز کی روشنی میں اس موضوع کو دیکھنا چاہیے اور یہ کام ہماری نوجوان نسل بہتر طورپر انجام دے سکتی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کہاکہ غالب کے سلسلے میں عام طورپر یہ تصور کیا جاتاہے کہ اب نئے گوشے کا امکان ختم ہوگیاہے لیکن غور کیا جائے تو نئے گوشے برآمد ہوتے ہیں۔ پروفیسر انیس اشفاق نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ایک مدرسۂ تعبیرِ غالب اور تفہیمِ غالب کا درجہ حاصل کرچکاہے۔ بہت سی کتابیں تو یہاں ہونے والے مذاکروں کی رائیدہ ہیں۔ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے مہمانوں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔سمینار کے بعد غالب انسٹی ٹیوٹ کی ذیلی شاخ ’ہم سب ڈرامہ گروپ‘ کی جانب سے اردو ڈرامہ ’چوتھی کا چوڑا‘ پیش کیاگیا جسے عصمت چغتائی نے افسانے کی شکل میں لکھا ہے اور جناب سرفراز احمدنے اسے ڈرامے کی شکل دی ہے۔ جناب عباس حیدرکی زیرہدایت کاری یہ ڈرامہ اسٹیج ہوا۔

Related posts

آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کاتعلیمی معیار بڑھانے کا عہد

Paigam Madre Watan

حیدر آباد میں اسد اویسی، سید اختر اور عبد الرحیم کی شراکت سے

Paigam Madre Watan

In Hyderabad, the togetherness of Asad Owaisi, Syed Akhtar, and Abdul RahimThe Ruthless Suppression of 3.5 Million Muslims’ Livelihoods Nationwide

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar