ابونصر فاروق
(۱) تکبر کبر سے بنا ہے۔ اسی سے کبیر، کبار، اکبر وغیرہ الفاظ بھی بنے ہیں۔ ان سب کا مطلب ہوتا ہے ایسا بڑا جس کے مقابلے کا کوئی ہو ہی نہیں۔ تکبر کا مطلب ہوتا ہے اپنے رویے، گفتگو اورحرکت و عمل سے اپنی بڑائی کو ظاہر کرنا۔اسلامی شریعت میں یہ وہ صفت ہے جس کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔اُس کے سوا کسی کوتکبر کرنے کا حق نہیں ہے۔کوئی انسان اگر زندگی کے کسی درجے میں بھی تکبر کرتا ہے تو وہ خدا کی برابری کرنے کا مجرم بن جاتا ہے۔دنیا میں جتنے انسان پیدا ہوئے اُن میں سب سے بڑے آدمی ہر اعتبار سے حضرت محمد ﷺ تھے۔اُن کی برابری کوئی نبی، رسول یا پیغمبر بھی نہیں کر سکتا ہے۔اُن کی زندگی کے متعلق جن لوگوں نے بھی پڑھا ہے اُن کو معلوم ہے کہ کسی موقع پر کبھی بھی حضرت محمد ﷺ نے اپنی بڑائی نہیں بیان کی یا کسی کبریائی کا اظہار نہیں کیا۔اللہ اکبر وہ کلمہ ہے جو ہر مومن و مسلم کو پڑھنا ہے اس عقیدے کے ساتھ کہ اکبر صرف اللہ ہے اُس کے سوا کوئی نہیں۔
تکبر کا تعلق انسان کی نفسیات سے ہوتا ہے۔جب کسی انسان کو کوئی ایسی نعمت یا فضیلت میسر ہو جاتی ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ہوتی ہے تو وہ اس پر فخر محسوس کرتا ہے اور اُس کے اندر تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔جب انسان دوسروں کے سامنے اپنی بڑائی کا اظہار کرنے لگتا ہے تو اسی کو فخر جتانا کہتے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ فخر و تکبر ایک ہی چیز ہے۔اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کائنات کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ اُس کا خالق ہے۔چنانچہ جس چیز کے اندر بھی کوئی کمال و جمال ہے وہ اُس کا اپنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا عطا کیا ہوا ہے۔جو چیز اپنی ہوتی ہے اُس پر فخر کیا جاتا ہے مانگی ہوئی یا کرائے پر لی ہوئی چیز پر فخر نہیں کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے اللہ کے سوا کسی مخلوق کو تکبر کرنے اور فخر جتانے کا حق ہے ہی نہیں۔
عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس آدمی کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جا سکے گا۔ ایک آدمی نے پوچھا کوئی چاہتا ہے کہ اُس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:یہ تکبر نہیں ہے۔ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔تکبر کا مطلب ہے اللہ کا حق ادا نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔(مسلم)
حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی بڑائی کا تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘( مسلم، ترمذی)
ارشادِنبوی ﷺہے کہ:’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ایک درجہ تواضع کرتا ہے اللہ اُس کو ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جو آدمی اللہ کے سامنے ایک درجہ تکبر کرتا ہے اللہ اُس کو ایک درجہ نیچے کر دیتا ہے۔‘‘( ابن ماجہ۴۱۷۶)
حضرت عبداللہ ؓبن عمرؓ بیان کرنے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ایک بار ایک آدمی تکبر سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹتا چلا جا رہا تھا کہ اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا، وہ آدمی قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔‘‘(نسائی)
نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ کیا میںتمہیں بتائوں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے بد ترین بندے کون ہیں؟ فرمایا وہ جو بد اخلاق اور متکبر ہوں۔‘‘ (مسنداحمد ۸۸۲۲)
نبی کریمﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہـ’’ بیشک غرور نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔‘‘(ابو دائود)
(۲) ریاکاری کا مطلب ہوتا ہے جھوٹا دکھاوا۔یعنی کوئی آدمی کسی کا ہمدرد ہے نہیں لیکن وہ اُس سے ہمدردی کی باتیں کر رہا ہے۔ایک آدمی دینی مزاج نہیں رکھتا ہے مگر دین پسند لوگوں کی محفل میں آ کر وہ اپنے آپ کوبہت دین پسند دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ریاکاری ایک طرح کا جھوٹ اور فریب ہے جو کوئی آدمی دوسرے کے ساتھ برتنے کی کوشش کرتا ہے اوریہ دونوں چیزیں شریعت میں گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتی ہیں۔یعنی یہ وہ گناہ ہیں جن سے انسان جب تک سچی توبہ نہ کرے اور آئندہ ان کو نہ کرنے کا عہد نہ کرے اللہ ان گناہوں کو معاف نہیں کرے گا۔ریاکاری کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ شریعت میں اس کو شرک خفی بتایا گیا ہے یعنی چھپا ہوا شرک۔قرآن کہتا ہے:’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کوجھٹلاتاہے(۱) وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے(۲)۱ور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا(۳) پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لئے(۴)جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں(۵)جو ریاکاری کرتے ہیں (۶) اور معمولی ضرورت کی چیزیں(لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘(۷)(الماعون)
اس سورہ میں انسان کا جو کردار بتایا جا رہا ہے وہ ایک مومن اور مسلم کا کردار نہیں ہو سکتا ہے۔ریاکاری کا تعلق نفاق سے بھی ہے۔مدینہ میں ایسے لوگ بھی تھے جو نبی ﷺ کو اللہ کا نبی نہیں مانتے تھے،اسلام کو بھی اُنہوں نے دل سے قبول نہیں کیا تھا،نبی ﷺ کی باتیں ماننے کو تیار نہیں تھے،ہر معاملے میں نبیﷺ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے،اُنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں منافق کہا ہے:
’’اے نبی! جب یہ منافقین تمہارے پاس آتے ہیںتو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں۔ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں۔(۱)انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خود رکتے ہیں اوردنیا کو روکتے ہیں۔کیسی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ (۲)یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھرکفر کیا، س لئے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔(۳)انہیں دیکھو تو ان کے جُثّے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ۔مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہوں۔ہر زور کی آوازکو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو، اللہ کی مار ان پر،یہ کدھر الٹے پھرائے جا رہے ہیں۔(۴)اور جب ان سے کہاجاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں۔(۵)اے نبی! تم چاہے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لئے یکساں ہے، اللہ ہر گز انہیں معاف نہیں کرے گا۔(۶)یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دوتاکہ یہ منتشر ہو جائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافقین سمجھتے نہیں ہیں۔(۷)(المنافقون)
اندازہ کیجئے آج کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہی کردار ہے یا نہیں ؟ یہ لوگ مسلسل بے دینی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن جب کسی مذہبی تقریب کا موقع آجاتا ہے تو کرتا پاجامہ ٹوپی پہن کر ایسے بن جاتے ہیں جیسے یہ پکے مسلمان ہیں۔مذہبی موقع ختم ہوا اور یہ پھر اپنے اصلی چولے میں آ گئے۔سچے اہل ایمان، اللہ اور رسول کے نزدیک ان لوگوں کی کیا حیثیت اور مقام ہے آپ سمجھ سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نبیﷺ سے فرما رہا ہے کہ آپ کی شفاعت بھی ان کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی۔
(۳) فضول خرچی کو قرآن شیطانی کام کہتا ہے اور دوطرح کی فضول خرچی کے متعلق بتاتا ہے۔ایک کو تَبْذِیْر کہتا ہے اور دوسرے کو اِسْرَافْ۔دونوں طرح کی فضول خرچی شیطانی کام ہے اور شیطانی کام کرنے والا اللہ کا محبوب بندہ تو دورایمان والابھی نہیں بن سکتا ہے۔قرآن کہتاہے:فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیلـ:۲۷) تَبْذِیْر کا مطلب ہے ایسا خرچ جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔چونکہ آخرت فراموش دنیا دار لوگوں نے اس کو وقت کا چلن اور فیشن بنا رکھا ہے، اس لئے سماج کا ہر آدمی اس کی پیروی کرنا ضروری سمجھتا ہے۔مثال کے طور پر شادی کرنا ایک شرعی عمل ہے۔شادی میں لڑکے والے اور لڑکے والے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اورنکاح کے بعد شادی کی کارروائی پوری ہو جاتی ہے۔نبی ﷺ نے حکم دیا کہ نکاح مسجد میں کیا کرو۔مسجد میں نکاح کرنا ہر لحاظ سے برکت،نیکی اورشرعی کام ہے،لیکن اس وقت کا بے غیرت مسلم سماج مسجد میں نکاح کرنے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔اندازہ کیجئے اُس کے نزدیک رسولﷺ کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔کیا یہ لوگ مسلمان ہیں۔عام طور پر شادیاں میدان میں خیمے لگاکر غیر ضرورتی سجاوٹ کے ساتھ کی جاتی ہیں یا مہنگے ہوٹلوں میں یا شادی ہال میں۔مسجد سے باہر شادی کرنے کا یہ سارا عمل فضول خرچی ہوتا ہے کیونکہ نکاح کرنے میں اس کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔لیکن بے دین مسلمانوں کو فضول خرچی کے گناہ پر کوئی ندامت نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح نکاح کے بعد جو کھانا کھلایا جاتا ہے ، اگر دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلایا جائے تو ہر فرد اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے گا اور کھانا برباد نہیں ہوگا۔لیکن ابھی خود سے کھانا لے کر کھانے کا جو رواج چل پڑا ہے اُس میں ہر فرد دوسری بار کھانا لینے کی زحمت سے بچنے کے لے اپنی پلیٹ میں زیادہ کھانا لے لیتا ہے اور کھانا چھوڑ دیتا ہے ۔ اس طرح اچھا خاصا کھانا برباد ہوتا ہے۔قرآن کہتا ہے:……اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا(اعراف:۳۱) کھانا کھلانا اچھا عمل ہے اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن کھانا برباد کرنا اِسْرَافْہے اور اللہ تعالیٰ اسراف سے منع کر رہا ہے۔ جو لوگ کھانا برباد کرتے ہیں وہ کھلم کھلا اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ۔کوئی ان کو روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔کیا یہ لوگ مسلمان اور مومن کہے جا سکتے ہیں ؟
ُٓپانی اللہ تعالیٰ کی ایک قیمتی نعمت ہے جو انسانی زندگی کے لئے حد سے زیادہ ضروری ہے۔پانی کے بغیر انسان کا کوئی کام نہیں ہو سکتاہے۔ملک اتنی ترقی کر گیا لیکن اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں لوگوں کو پینے اور دوسرے استعمال کے لئے صاف پانی مہیا نہیں ہے۔اسلام پانی استعمال کرنے میں بھی کفایت شعاری کی تعلیم دیتاہے۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ فضول خرچی اُن کا مزاج بن جاتا ہے۔نہانے میں دھونے میں وہ پانی استعمال نہیں کرتے برباد کرتے ہیں۔وضو کرنے میں بھی پانی برباد نہیں کرنا چاہئے ورنہ وضو کرنا نیکی نہیں گناہ کا عمل ہو جائے گا۔اسی طرح زندگی کے ہر عمل میں کفایت شعاری اپنانی چاہئے اور فضول خرچی سے بچنا چاہئے۔لیکن اس وقت دنیا میں جو شیطانی نظام جاری و ساری ہے اُس نے لوگوں کے شوق کی آگ بھڑکا رکھی ہے اور اس آگ میں کفایت شعاری کے سارے اصول جل کر راکھ ہو رہے ہیں۔کیاعام آدمی اور کیا عالم فاضل اور کیا جماعتوں اور امارتوں کے امیرسب کے سب فضول خرچی کرنے میں مصروف ہیں۔ان کو دیکھ کر لگتاہے کہ ان عالم اور فاضل لوگوں نے چوری سے امتحان پاس کیا ہے اسی وجہ سے یہ شریعت کے پابند نہیں ہیں۔
ایک طرف مسلم سماج کے دولت مند سرمایہ دار لوگ اپنے شوق، شہرت اور نام ونمود کی خاطر لاکھوں لاکھ روپے بے دردی سے اڑا رہے ہیں اور مسلم سماج کا اسّی فیصد حصہ غریبی کی سطح سے نیچے مجبوری اور محتاجی کی زندگی گزار رہا ہے، اُس کا حال پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔جبکہ سرمایہ داروں کے لئے اللہ اور رسول کا واضح حکم ہے کہ تمہاری دولت میں اُن محتاجوں اور مجبوروں کا حق ہے جو کوشش کے بعد بھی کم آمدنی کی شامت جھیل رہے ہیں۔اُن کو حق اُن تک پہنچاؤ ورنہ تمہاری یہ دولت تمہارے لئے آفت بن جائے گی۔اس وقت کے دولت مند بے حس مسلمان،مذہبی جماعتوں اور امارتوں کے امیر،مسجدوں کے امام،سیاسی رہبر او ر سماجی سردار کسی کو ان محتاج اور مجبور مسلمانوں کی فکرنہیں ہے اور وہ ان کی مصیبتیں دور کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیںکر رہے ہیں ۔بے حسی، بے حیائی اوربے دردی کا ایساخطرناک ماحول پیدا ہو گیا ہے،جیسے لگتاہے کہ قیامت آ گئی ہے جہاں کوئی کسی کا حال پوچھنے والا نہیں ہے۔رشتے داروں کو بھی اپنوں کی فکر نہیں ہے۔ان بد نصیب سرمادار مسلمانوں کی بہت بھاری رقم علاج کے نام پرہسپتالوں کو چلی جاتی ہے جس پر ان کو کسی طرح کا اجر و انعام اللہ نہیں دے گا۔
اس گناہ بھری زندگی کے بعد کیا یہ مسلمان اللہ کی رحمت کے حقدار ہو سکتے ہیں ؟ ان کی نمازیں ،دعائیں اور حج قبول ہو سکتے ہیں ؟ ان کے تبلیغی دورے اور دعوتی سرگرمیاں کوئی اثر پیدا کر سکتی ہیں ؟ اور کیا اللہ ان سے راضی اور خوش ہوسکتا ہے ؟ کیا رسول اللہﷺ حشر کے میدان میں ایسے لوگوں کی شفاعت کرا پائیں گے ؟ ایک طرف ملک کی حکومت ان مسلمانوں کی دشمن ہے اور دوسری طرف انہوں نے خدا کا ناراض کررکھا ہے۔ایسی حالت میں کس کی مدد کے سہارے یہ دنیا میں زندہ اور محفوظ رہ سکیںگے ؟
براہ کرم اس مضمون کو غورسے پورا پڑھئے اور دوسروں کو بھی پڑھوائیے،شاید اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت عطا کرے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے!