مسلم محمود مسقط(عمان)
رمضان کا مبارک مہینہ ایک بار پھر ہم سے جدا ہوگیا۔ ہر سال رمضان کی آمد ہوتی ہے اور پھراچانک صبر و برکت، بہاروں، رونقوں اور عبادتوں کے ماحول سے مالا مال مہینہ ہوا کی طرح گزر جاتا ہے۔یہ مہینہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی انعام اور مہلت کے طور پر عطا ہوتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد ایک ماہ کے روزے رکھ کر اور قیام اللیل کے ساتھ دوسری عبادتوں کا اہتمام کرکے اپنے درجات بلند کریں، جہنم سے چھٹکارا حاصل کرلیں اور سال کے باقی مہینوں کی لیے اپنی ایسی تربیت کریں کہ ہر دن اور ہر رات اللہ کی اطاعت شعاری ،عبادت اور خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو بن جائے۔ اگر رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تبدیلی نہ آئی، ہم پہلے جیسے ہی ہوگئے تو سمجھئے کہ رمضان کے حقوق ادا کرنے میں کمی رہ گئی۔ رمضان کے متبرک مہینے سے ہم نے کچھ نہ لیا، بلکہ ہم ایسے ہوگئے جیسے ایک پرندہ ایک ماہ کے لیے پنجرے میں بند رہ کر آزاد ہوگیا اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
جس طرح ساری دنیا کی آرگنائزیشن میں اسٹاف کی ٹریننگ ہوتی ہے، ان کی صلاحیت کو بلند کیا جاتا ہے اور کامیاب تکمیل کے بعد عہدہ میں ترقی یا دوسری سہولیات میں اضافہ کرکے ملازم کا حوصلہ بلند کیا جاتا ہے۔ اسی طرح رمضان ہماری تربیت کا کیمپ ہوتا ہے، اس میں ہمارے شب و روز بدل جاتے ہیں۔ہمارے کھانے پینے کے اوقات بدل جاتے ہیں، ہم بھوکا پیاسا رہنا سیکھتے ہیں، آنکھ کان ہاتھ اور پیروں کو کسی ایسے کام سے روکنا سیکھتے ہیں جس کو دین میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ نمازوں کا مسجد میں اہتمام، راتوں کو عبادت ہمارا معمول بن جاتا ہے۔ اس بھرپور تربیت ،انعام و اکرام کے بعد اگر ہمارا مرتبہ اللہ کی عدالت میں بہتر ہوا ہے تو اس کوبرقرار رکھنا ،اپنے مرتبے کا وقار بلند رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اگر رمضان کی بعد لہو ولعب میں پڑ گئے، نمازیں قضا ہونے لگیں، عبادتیں کم سے کم ترہوگئیں تو بلا شبہ ہمارا مرتبہ اور ہماری ترقی ضائع ہوجائے گی۔ ہمارا نام پھر اللہ کے نافرمانوں اور نالائقوں میں لکھ دیا جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو دنیا میں ترقی ملے اور پھر کچھ دن بعد اس کی غیراطمینان بخش کارکردگی کے بنا پر ترقی واپس لے لی جائے۔ کس قدر شرمندگی اور ندامت ایسا شخص محسوس کرے گا۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے مرتبہ و معیار کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے جو تربیت رمضان میں پائی ہے ،اس پر عمل پیرا رہیں اور اللہ کی ناراضگی سے اسی طرح بچیں جس طرح رمضان میں بچتے تھے۔ جس طرح زیادہ سے زیادہ اجر کی جستجو میں لگے رہتے تھے، وہ تڑپ اور جستجو برقرار رہے تب تو بات ہے ورنہ رمضان سے ہم نے کچھ نہیں لیا۔ نادر موقع ضائع کردیا اور پتہ نہیں یہ موقع دوبارہ ملے یا نہ ملے۔
رمضان میں ہمارا تعلق قرآن سے باقی مہینوں کی نسبت بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا اس تعلق کو برقرار رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ قرآن ہماری رہنمائی ہے، ہدایت ہے اور مشعل راہ ہے۔ قرآن سے ہمارا تعلق ہمارے تقوے اور پرہیزگاری کی ضمانت ہے۔ قرآن ہمارے دل ،ہماری زبان اور ہمارے عمل کا مظہر بن جانا چاہیے۔
رمضان میں ہم نے صدقات کا اہتمام کیا، غرباء و مساکین کا خیال رکھا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی۔ یہ رمضان کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے، ورنہ کیا یہ سب لوگ ہماری نظر و کرم کے لیے 11 مہینے انتظار کریں گے۔
وہ تمام اخلاقی کمزوریاں جو نہ صرف ہمارے اجر کو گھن کی طرح کھاجاتی ہیں بلکہ ہمیں گناہ گار بھی کردیتی ہیں، جیسے جھوٹ، چوری، بدکلامی، گالی گلوچ، غیبت، بہتان تراشی، لڑائی جھگڑا، کاروبار میں ہیراپھیری، دوسروں کی حق تلفی،غرور، حسد وغیرہ سے ہم نے رمضان میں پرہیز کیا اب باقی زندگی میں بھی ان برائیوں سے ہمیں پرہیز کرنا ہوگا، ورنہ ہمارے کیے دھرے پر پانی پھر جانے کے مرتکب ہم خود ہوں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کے پورے مہینے ہم نے عملی طور پر اللہ کو حاضر و ناظر جانا اور روزے کے تقاضے اسی بنیاد پر پورے کیے۔ کسی بھی لمحے پانی کا ایک قطرہ حلق سے نہ اترنے دیا اور نہ ایک دانہ کھایا، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا یہ کیفیت و احساس رمضان کے بعد بھی برقرار رہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ انسان دنیا والوں کی آنکھ سے بچ سکتا ہے لیکن اللہ کی آنکھ سے نہیں۔ یہ کیفیت ہی ہمارے گناہوں سے بچنے کے لیے کافی ہوگی۔
آئیے ہم عہد کریں کہ رمضان کی تربیت کے مطابق اطاعت شعار بندہ،باکردار انسان،باعمل مسلمان، اچھاخاندان کا فرد، رشتہ دار، پڑوسی اور شہری بن کرآئندہ زندگی گزاریں گے۔ ہر اس کام سے بچیں گے جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ناپسند کیا ہے۔ عبادتوں کا اہتما م برقرار رکھیں گے، قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے اور اپنی زندگی پر اس کو لاگو کریں گے۔ ہم اس بات کو ہمیشہ ذہن نشیں رکھیں گے کہ ہم اس دنیا میں صرف کھانے کمانے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہمارا مقصد زندگی دین کے مطابق زندگی گزارنا، رسول ؐ کی اطاعت کرنا اور اللہ کو راضی کرکے اپنی آخرت سنوارنا ہے۔ دنیا عارضی ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے، جو ہمیشہ رہنے والی ہے، جہاں نہ بیماری کا ڈر ہوگا اورنہ پریشانی و موت کا۔
٭٭٭