محبانِ اردو کی آمد اور کتابوں کی خریداری کا سلسلہ جاری
ممبئی(پی ایم ڈبلیو نیوز): قومی اردو کونسل کے اہتمام اور انجمن اسلام کے اشتراک سے ممبئی کے باندرہ کرلا کمپلیکس میں نو روزہ قومی اردو کتاب میلہ نہایت خوب صورتی کے ساتھ جاری ہے۔ اس میلے میں ملک بھر کے 180 سے زائد کتاب فروش اور ناشرین شرکت کر رہے ہیں اور محبان اردو خصوصا تعلیمی ادارے اور ان کے طلبہ و طالبات اس میلے کے تئیں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور روزانہ لاکھوں کی کتابیں خرید رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روزانہ مختلف النوع ادبی و ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ بھی جاری ہے چنانچہ آج پانچویں دن کے پہلے سیشن میں ’غیر اردو داں حضرات میں اردو کی ترغیب‘ کے عنوان سے محفل مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس کا اہتمام ہماری پرتھا فاؤنڈیشن کے ذریعے کیا گیا تھا، جس کی نظامت نوجوان شاعر سدھارتھ شانڈلیہ نے کی۔ نریندر بنڈابے نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری مادری زبان گو کہ اردو نہیں ہے مگر شروع سے میرا تعلق سنیما کے شعبے سے رہا ہے، جس کی وجہ سے میں بچپن سے اردو زبان سے جڑا ہوا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ آج مراٹھی کے کئی ایسے ادیب ہیں ، جنہوں نے اردو سیکھی اور اب وہ اردو ادب کے ذخیرے کو مراٹھی میں منتقل کر رہے ہیں، اس حوالے سے انھوں نے متعدد مراٹھی ادیبوں کے تراجم اور تخلیقات کا ذکر کیا۔ مادھو بروے نور نے اردو ادب کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو میں ایک بہت طویل فہرست ہے غیرمسلم اردو ادیبوں کی، جنھوں نے اردو کی تمام اصناف کے فروغ میں اپنا غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ ساغر ترپاٹھی نے کہا کہ اردو زبان گنگا جمنی تہذیب کی نمایندہ زبان ہے جس میں ہندوستان کی تمام زبانوں کے الفاظ و محاورات پائے جاتے ہیں۔ اس زبان میں ستر فیصد سے زائد الفاظ سنسکرت کے ہیں اور یہ خالص ہندوستانی الاصل زبان ہے، اردو محبت کی زبان ہے، تہذیب و تمدن کی زبان ہے۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کا مستقبل جو بھی ہو مگر اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اس موقعے پر شرکا نے اردو سمیت ہندوستانی زبانوں کو درپیش مسائل پر بھی بات کی اور خصوصا اعلی تکنیکی و سائنسی تعلیم میں مادری زبانوں کی شمولیت پر زور دیا۔
دوسرا سیشن ’اردو افسانہ نئی صدی میں‘ کے عنوان سے بزم ریختہ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقد کیا گیا، جس کی نظامت رسالہ تکمیل کے ایڈیٹر عامر اصغر نے کی جبکہ صدارت محمد رفیع انصاری نے کی۔ اس مجلس میں ایم مبین نے اردو افسانے کے موضوعات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو افسانے کو کبھی موضوعاتی بحران کا سامنا نہیں رہا، ہماری ادبی تحریکوں اور معاشرتی ضروریات و مسائل نے افسانہ نگاروں کو بہت سے موضوعات دیے ، جنھیں ہر دور کے افسانہ نگاروں نے بڑی خوبی سے برتا ہے اور آج کے افسانہ نگار بھی موجودہ صدی کے مسائل کی عکاسی بڑی خوبی سے کر رہے ہیں۔ اشتیاق سعید نے کہا کہ انفارمیشن ٹکنالوجی نے آج کے قاری کی سوچ کو بہت وسیع کردیا ہے،مگر ہمارے یہاں افسانے روایتی انداز میں ہی لکھے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے قارئین ان پر توجہ نہیں دیتے۔ صادقہ نواب سحر نے اردو افسانہ نگاری میں خواتین کی شمولیت پر گفتگو کرتے ہوئے ان کو درپیش سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ آج کی خواتین اپنے خیالات کا اپنے انداز میں اظہار کر رہی ہیں اور نئی نسل میں کئی خواتین افسانہ نگار سامنے آرہی ہیں۔ وسیم عقیل شاہ نے اردو افسانہ نگاری میں نئی نسل کی نمایندگی کے حوالے سے گفتگو کی۔محتشم اکبر نے الیکٹرانک پلیٹ فارمز پر افسانہ نگاری کے حوالے سے اظہار خیال کیا اور کہا کہ انٹرنیٹ اور اینڈرائڈ موبائل کی سہولت نے بڑی آسانیاں پیدا کردی ہیں اور مختلف سوشل میڈیا گروپس پر افسانے شائع ہورہے ہیں اور ان پر بڑے بڑے فکشن نگار اپنی آرا کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ مہمان خصوصی رحمن عباس نے اردو فکشن کی موجودہ صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج مہاراشٹر اور ممبئی اردو کا مرکز ہے، البتہ ہمیں کچھ چیزوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، نئے تخلیق کاروں کی تربیت کی ضرورت ہے، ان کے لیے آزادی اظہار کے ساتھ لکھنے بولنے کا ماحول بنانا ہوگا اور اس کے لیے ہمارے تعلیمی نظام میں بھی کھلاپن لانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ تخلیق کاروں کے لیے مسلسل جدوجہد بھی ضروری ہے، تخلیق ایک طویل سفر ہے اور یہ ریاضت چاہتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے اردو فکشن کی جغرافیائی توسیع کے لیے اچھی تخلیقات کے ترجمے پر بھی زور دیا۔ صدارتی خطاب میں محمد رفیع انصاری نے کہا کہ موجودہ دور میں افسانہ نگاروں کو سچ لکھنا چاہیے اور واقعہ نگاری پر خاص توجہ دینی چاہیے۔تیسرے سیشن میں رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی کے زیر اہتمام طلبہ و طالبات کے مابین انٹر جونئر کالج بیت بازی کا پروگرام ہوا۔ جس کی صدارت مومن جان عالم رہبر نے کی، مہمان خصوصی عرفان جعفری رہے، اور مشتاق رضا بولنجکر ، عبدالملک مومن اور عبید اعظم اعظمی مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شریک پروگرام رہے۔ نظامت شمیم اقبال نے کی۔ اس پروگرام میں پانچ اسکولوں کی ٹیموں نے حصہ لیا ، جن میں انجمن اسلام جم خانہ گرلس سکول، رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی ، نورالاسلام ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج گوونڈی، الحمد جونیئر کالج بھیونڈی اور صلاح الدین ایوبی میموریل جونیئر کالج کے طلبہ و طالبات شامل تھے۔ بیت بازی کے اس خوب صورت پروگرام میں انصاری ثنا جعفری کو بہترین شعر خوانی کا انعام ملا، جبکہ تیسری پوزیشن نورالاسلام گوونڈی کی ٹیم ، دوسری پوزیشن الحمد جونیئر کالج بھیونڈی کی ٹیم اور اول پوزیشن رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی کی ٹیم نے حاصل کی اور کامیاب ٹیموں کو گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔