وکست بھارت میںسیاسی، سماجی،تاریخی،تہذیبی اورمعاشی قوتوںکا اہم کردار؍پروفیسر سید شاہد علی
نئی دہلی(پی ایم ڈبلیو نیوز)’’وکستبھارت @۲۰۴۷ ایک جامع پہل ہے،جس کا بنیادی مقصد ملک کی سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے اور مختلف شعبوں میں ترقی کی بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔‘‘ان خیالات کا اظہار جناب جنید حارث، استاذ، شعبہ اسلامک اسٹڈیز،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی نے شعبہ میں منعقد ایک توسیعی خطبہ (بہ عنوان: وکست بھارت:اسلامی تناظر میں)کے دوران کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر خصوصی زور دیا کہ ’’وکست بھارت‘‘ کے ہدف کی حصول یابی میں ہر شہری کا تعاون ضروری ہے۔واضح رہے کہ اس پروگرام کا انعقاد حکومت ہندکے وژن ’’وکست بھارت @۲۰۴۷‘‘کی مناسبت سے کیا گیا ہے،اس کا اولین مقصدآزادی کے ۱۰۰ ویں سال،یعنی ۲۰۴۷ تک ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانا ہے۔یہ وژن ترقی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے،جس میں اقتصادی ترقی،سماجی ترقی،ماحولیاتی پائیداری اور اچھی حکم رانی وغیرہ پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔پروفیسر سید شاہدعلی،سابق صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیزنے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ کسی بھی ملک کے قومی منصوبوں، ترجیحات اور اہداف کی تشکیل میں سیاسی، معاشی، سماجی،تاریخی،تہذیبی اورمذہبی قوتوںکا اہم کردار ہوتا ہے اور ان سے ہی وہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔مجھے قوی امید ہے کہ ہندوستان کامستقبل تحریر کرنے کی اس عظیم مہم میںشعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالرس اور طلبہ نمایاں خدمات انجام دیں گے۔اسی سلسلے میں بزم طلبہ کی جانب سے ایک ڈیبیٹ کا بھی انعقاد کیا گیا،جس کا موضوع ’’وکست بھارت کے تحت اسلامک اسٹڈیز مسلم دنیا کے ساتھ روابط مضبوط کرسکتا ہے‘‘تھا،اس میں جامعہ کے مختلف شعبوںکے طلبہ نے حصہ لیا،پہلی پوزیشن خدیجہ(شعبہ اسلامک اسٹڈیز)، دوسری پوزیشن شمس الدین(شعبہ اسلامک اسٹڈیز) اور تیسری پوزیشن سید عدنان احمد(بی ایس سی،بائیوسائنس) نے حاصل کی۔حکم کے فرائض ڈاکٹرجاوید اختر اورڈاکٹر انیس الرحمان نے انجام دیے۔پروگرام کا آغاز بزم طلبہ کے جنرل سکریٹری محمد حمزہ کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ نظامت کلچرل کمیٹی کے اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر محمد شہنواز نے کی۔اس پروگرام میں شعبہ کے جملہ اساتذہ ڈاکٹر محمد مشتاق ،ڈاکٹر محمد ارشد،ڈاکٹر محمدخالد خان ،ڈاکٹرمحمد عمر فاروق، ڈاکٹر خورشید آفاق،ڈاکٹر عبدالوارث خان،ڈاکٹر محمد اسامہ،ڈاکٹر ندیم سحر عنبریں،ڈاکٹر محمد مسیح اللہ اور ڈاکٹر محمد علی کے علاوہ ریسرچ اسکالرس،ایم اے اور بی اے کے طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پروگرام کو کام یاب بنانے میں جویریہ عبداللہ،سکینہ خلود اورمحمد عتیق وغیرہ کا اہم کردار رہا۔