ابونصر فاروق
(۱) جب کوئی آدمی اپنی دنیاوی زندگی کے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے کسی غیبی طاقت پر ایمان رکھتا اور اُس سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے تو اسی کو ایمان اورعقیدہ (Faith)کہتے ہیں۔جو آدمی کسی غیبی طاقت کو مانتا ہی نہیں اور اُس سے مدد کا طلبگار ہوتا ہی نہیں وہ عربی فارسی اور اردو میں کافر، منکر، ملحد،ہندی میں ناستک اور انگریزی میںAtheist کہلاتا ہے۔دنیا بھر کے انسانوں میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی غیبی طاقت پر ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں اوراُس کی عبادت، پوجا اور پرستش کرتے رہتے ہیں۔کمیونزم اور سوشلزم کے نظریات جب دنیا میں عام ہوئے تو اُس کے ماننے والے سب کے سب خدا کے منکر تھے اور خدا کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔اور بنیادی طور پر وہ دراصل اسلامی نظریات کے مخالف تھے۔جتنی بھی گمراہ اور بہکی ہوئی تنظیمیں اور طاقتیں دنیا میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہیں سب کی سب اسلام سے خوفزدہ اور اس کی مخالف رہتی ہیں۔وہ جانتی ہیں کہ اسلام کی آفاقی تعلیمات جومساوات،محبت، مروت اور انسانی خدمت کی بنیاد پر بغیر کسی جبر اور دباؤ کے انسانی فطرت کومتاثر کرتی ہیں اوراسے اپنانے پر آمادہ کر لیتی ہیں، ان کے مقابلے میں اُن کی عیاری، مکاری ،ظلم و جبر ، زیادتی اور ناانصافی اور لوگوں کو بیوقوف بنا کر اُن کو لوٹنے والا مذہب فروغ پا ہی نہیں سکتا ہے ۔قرآن یہ بنیادی تعلیم دیتا ہے ’’دین (اسلام) میں زور زبردستی کی(کوئی گنجائش) نہیں ہے۔(البقرہ:) دور حاضر کے جتنے مسلم فرقے ہیں وہ سب نقلی اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس لئے کہ وہ ایک دوسرے پر زور زبردستی کاماحول بنائے ہوئے ہیں۔
غیر اسلامی دنیا نے ہمیشہ نظریۂ توحید ، یعنی خدا ایک ہے میں کچھ نہ کچھ ملاوٹ کر کے گمراہی پھیلائی ہے۔موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے بنی اسرائیل نے اپنا نام بدل کر یہودی رکھ لیا اورعزیر علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے اُن کو خدا کا بیٹا بنا لیا۔ان میں جب آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام آئے اور اُنہوں نے اُن کی اصلاح کرنی چاہی تو یہ اُن کے دشمن بن گئے اور اُں کو صلیب پر چڑھا کر اپنے خیال میں مار ڈالا۔بنی اسرائیل میں جو لوگ عیسیٰ علیہ اسلام پر ایمان لائے تھے اُن کو قرآن میں حواری کہا گیا ہے۔لیکن بعد میں یہ لوگ بھی گمرا ہ ہو گئے اور خو د کو عیسائی کہنے لگے۔مریم علیہ السلام کو خدا کی بیوی اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا دیا اور اب اسی عقیدے کے ساتھ دنیا میں ان کی پہچان ہے۔ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ دراصل تاریخ لکھنے کا رواج مسلمانوں کے دور میں ہوا۔چنانچہ اس ملک میں سب سے پہلے کون لوگ آباد تھے اوراُن کا عقیدہ کیا تھا یہ کہیں لکھاہو ا موجود نہیں۔زمین کی کھدائی میں جو آثار ملے ہیں اُن کی بنیاد پرہڑپا تہذیب اور اشوک سمراٹ کی داستانیں مشہور ہیں۔قرآن کے بیان کے مطابق یہاں بھی کوئی نبی ضرور آیا ہوگا۔چونکہ یہاں کی تاریخ نہیں ہے اس لئے اُس کا سراغ نہیں ملتا ہے۔لیکن بت پرستوں کی مذہبی کتاب’’ وید‘‘ کے اندر توحید کا نظریہ اور ایک پیغمبر کے وجود کی باتیں موجود ہیں۔جس طرح دوسری اہل کتاب قوموں نے اپنے عقیدے میں ملاوٹ کر کے اُنہیں چوں چوں کا مربہ بنا دیا اسی طرح بت پرستوں کے مذہبی سرداروں نے بھی ’’وید‘‘ کی تعلیم کو عام بت پرستوں میں عام نہیں کر کے اپنی من مانی مذہبی باتوں کا پرچار پرسار کیا اور اُن کو اس کا پیرو بنا دیا۔اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ پیدائشی طور پر انسان کو اچھا اور برا ثابت کر دیا جب کہ دنیا یقین رکھتی ہے کہ انسان پیدائش طور پر نیچا اور اونچا نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے عقیدے، طور طریقے،ادب و تہذیب اور کردار ومعاملات کی بنیاد پراچھا اور برا مانا جاتا ہے۔
عقل، سمجھ،ہوش وحواس، منطق اورفلسفہ سب اس کی تائید کرتے ہیں کہ جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا بھی ہے۔اور موت اُس کو نہیں آتی ہے جو پیدا ہی نہیں ہوا۔خدا کی ذات یکتا اور احد ہے۔وہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی دوسرا اُس کی اولاد ۔یہ پوری کائنات اور سارے انسان خدا نے پیدا کئے ہیں اور ان سبھوں کو ایک دن موت آ جائے گی جس کا نام قیامت ہے۔شیطان کو بھی اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اور اُس کو دنیا میں کام کرنے کی آزادی دی ہے۔نبی اور رسول انسانوں کو شیطانی چالبازیوں سے بچاتے رہے۔اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔آخری نبیﷺ کی تعلیما ت ہی شیطان کا مقابلہ کر سکتی ہیں،لیکن مسلمانوں نے اسی سے منہ موڑ لیا ہے۔
(۲) بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ہر قوم کی ایک تہذیب (Culture)ہوتی ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے۔قوم کے بزرگ اور سربراہ اس کی بے انتہا جد و جہد کرتے ہیں کہ اُن کی نئی نسل اپنی تہذیب سے غافل اور بیگانہ نہ ہوجائے۔اور یہ کہ تہذیب کا تعلق کسی قوم کے عقیدے سے ہوتا ہے۔گویا تہذیب سے غافل اور انجان ہونا اپنے عقیدے سے ہاتھ دھو لینا ہے۔عام طور پر گاؤں اور دیہات میں ہمیشہ وہاں کے مقامی لوگ ہی رہا کرتے ہیں۔ باہر کے لوگ وہاںنہیں آتے ہیں اس لئے گاؤں اور دیہات میں تہذیب کے بگڑنے اور برباد ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا ہے۔لیکن شہروں میں ایک ہی مذہب اور عقیدے کے لوگ نہیں رہتے ہیں بلکہ وہاں مختلف عقیدے اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں جن کی تہذیب الگ الگ ہوتی ہے۔وہاں مختلف تہذیبوں کے لوگوں کے آپس کے میل جول سے تہذیبوں کا آپس میں لین دین ہوتا ہے اور تہذیب کے بگڑنے اور بدلنے کے امکانات زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں۔
تہذیب کا تعلق عقیدے سے کیسے ہوتا ہے اس کو ایسے سمجھئے کہ کھانے کے طور طریقے الگ الگ مذہب والوں کے الگ الگ ہوتے ہیں۔اہل ایمان کو دین اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ کھانا بیٹھ کر کھاؤ، کھڑے ہو کر نہیں۔داہنے ہاتھ سے کھاؤ بائیں ہاتھ سے نہیں۔بسم اللہ کہہ کر کھاؤ،اگر بھول گئے تو جس وقت یاد آجائے کھانے کے بیچ میں بسم اللہ کہو۔اگرکھانا ختم ہونے کے بعد یاد آیا تو اُسی وقت بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہٖ وَآخِرِہٖ کہو۔ کھانے کے بیچ میں بلا ضرورت باتیں نہ کرو۔اس طرح ایک اہل ایمان کھانے کے دوران ان سب باتوں کا بہت سختی سے اہتمام کرے گا۔اس کے برخلا ف عیسائی مذہب کا ماننے والازمین پر نہیں کرسی ٹیبل پر یا کھڑے کھڑے کھائے گا۔وہ ہاتھ سے نہیں چمچے کانٹے سے کھائے گا۔دائیں نہیں بائیں ہاتھ سے کھائے گا۔ کھانے سے قبل کبھی بسم اللہ نہیں کہے گا۔ کھانے کے بیچ میں گپ شپ کرتا رہے گا۔ایسا اس لئے ہوگا کہ مسلم اور عیسائی کی اپنی قومی پہچان اپنی اپنی اسی تہذیب سے ہے۔اہل ایمان کو ایک مکمل دین ملا ہے جس میں زندگی کے ہر عمل کو کیسے کرنا ہے اس کی تعلیم دی گئی ہے۔عیسائیوں نے اللہ کا بھیجا ہوا دین بھلا دیا اور خود سے ایک نیا دین گڑھ لیا جو انہیںاسلام کے خلاف تہذیب سکھاتا ہے اور یہ اُسی کی پیروی کرتے ہیں۔
لباس کے متعلق قرآن میں تین باتیں لکھی ہوئی ہیں۔پہلی بات یہ کہ لباس سے جسم کی ستر پوشی ہونی چاہئے۔دوسری یہ کہ لباس جسم کو تکلیف پہنچانے والا نہیں ہو۔تیسری بات یہ کہ لباس سے شخصیت کا نکھار سامنے آئے۔چنانچہ ہندوستان میں شروع سے ہی مسلمان شرفا کا لباس کرتا پاجامہ شیر وانی اور ٹوپی رہا ہے، جس سے جسم کی مکمل ستر پوشی بھی ہوتی ہے ،یہ لباس آرام دہ بھی ہے اور شخصیت کوباوقار بناتا ہے۔چنانچہ ملک میں مسلمان جب باعزت اور باوقار تھے تو اُن کے اس لباس کو بت پرستوں نے بھی اپنایا تھا۔اگر چہ اُن کا لباس کرتے کے ساتھ دھوتی پہننے کا تھا۔وہ ٹوپی نہیں پہنا کرتے تھے۔ہندوستان کے کئی صدراور پرائم منسٹر شیروانی ، چوڑی دار پاجامہ اورٹوپی پہنا کرتے تھے۔ان کے علاوہ جتنے بت پرست شرفاء تھے اُن کا لباس بھی وہی ہوا کرتا تھا،لیکن مسلمان جب اپنے دین سے بیگانے اور ـغافل ہو گئے تو اُنہوں نے انگریزوں کی ذہنی غلامی اپنائی اور انگریزوں کا لباس پہن کو مسلم کی جگہ عیسائی اورانگریز جیسے بن گئے اور آج تک یہی سلسلہ باقی ہے۔
سونے کے معاملے میں اسلام کی تعلیم ہے کہ نہ چت سویا جائے نہ پٹ سویا جائے بلکہ داہنی کروٹ سویا جائے۔سوتے ہوئے دعا پڑھی جائے اور جب آنکھ کھلے تب بھی دعا پڑھی جائے۔غیر مسلموں کا مذہب اُن کو سونے کے معاملے میں ایسی کوئی تعلیم نہیں دیتا ہے۔وہ جیسے چاہتے ہیں سو جاتے ہیں۔آج کے بے دین مسلمان نہیں جانتے ہیں کہ اُنہوں نے غیر مسلموں کے چال چلن کو جس آسانی سے اپنا لیا ہے اُس کے نتیجے میں اُن کا ایمان زخمی اور مجروح ہو گیا ہے۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکے ہیں۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے جو(اہل ایمان) کسی دوسری قوم کی نقل کرے گا اُس کی گنتی (قیامت کے دن ) اُسی قوم میں کی جائے گی۔یعنی جو لوگ کھانے میں، لباس میںرہن سہن میں غیر مسلموں کی نقل کر رہے ہیں وہ اسلام سے خارج ہوجارہے ہیں۔
بعض نادان لوگوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جس چیز کا تعلق عقیدے سے نہیں ہے غیروں کے اُس طور طریقے کو اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔لیکن یہ اُن کی ناسمجھی ہے۔شیطان اہل ایمان کو پہلی ہی بار کافرومشرک نہیں بناتا ہے۔پہلے وہ اسلامی بنیاد سے معمولی طور پر کھسکاتا ہے جہاں غلطی کا احساس ہو ہی نہیں سکتااور پھر آہستہ آہستہ اصلی بنیاد سے ہٹاکر مکمل طورپر فاسق و فاجر اور کافر و مشرک بنا دیتا ہے۔جیسے چھوت سے پرہیز کیا جاتاہے اُسی طرح یہاں بھی پرہیز کیا جانا چاہئے۔
(۳) تمدن(Civilization) کا تعلق اُن چیزوں سے ہوتا ہے جو انسان زندگی گزارنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ان کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ان کے سلسلے میں ہمیشہ تلاش و جستجو ہوتی رہتی ہے اور نئے نرالے انداز کو اپنایا جاتا رہتا ہے۔دنیا میں زندگی کی رفتار رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہے۔پہلے کا انسان بڑے صبر و استقلال کے ساتھ اپنے کام کرتا تھا۔جلد بازی شیطان کا کام ہے،ایسا لوگوں کا ماننا تھا۔لیکن آج کی دنیا اللہ کو بھول کر شیطان کے پیچھے چل پڑی ہے۔پہلے جو کام ہاتھوں سے ہوتے تھے وہ اب مشینوں سے ہونے لگے ہیں۔مشینوں سے کام آسانی کے ساتھ کم وقت میں زیادہ تعدادمیں ہو جاتا ہے اور اُس میں یکسانیت ہوتی ہے۔ پہلے کھیتی ہاتھوں اور جانوروں کی مدد سے ہوتی تھی،لیکن اب کھیتی مشینوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے۔پہلے کسان اپنا سامان بازار میں خود بیچا کرتے تھے لیکن اب کسان بازار نہیں آتے،تاجر کسان سے ایک بار پوری پیداوار خرید لیتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ قیمت بڑھا کر زیادہ منافع کے ساتھ بیچتے ہیں۔پہلے کپڑا خرید کر درزی سے سلا کر پہنا جاتا تھا، اب بازار میں سلے سلائے کپڑے بکنے لگے ہیں۔پہلے لوگ گھر کا کھانا کھاتے تھے لیکن اس زمانے کے لوگ گھر سے زیادہ ہوٹلوں میں بکنے والے کھانے کھانے لگے ہیں۔پہلے حکیم صاحب اور وید جی مریضوں کا علاج اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کیا کرتے تھے لیکن اب جو ڈاکٹر ہیں اُن کے پاس نہ دماغ ہے نہ تجربہ۔اب سارا علاج مشینوں کے دم پر ہو رہا ہے۔ہر مرض کے متعلق مشین ڈاکٹر کو اطلاع دیتی ہے کہ مریض کو فلاں مرض ہے اور ڈاکٹر مشین کے مشورے پر مریض کا علاج کرتا ہے۔پہلے مٹی کے مکانوں میں رہا کرتے تھے اور مکان بھی کاری گروں کے ہاتھوں سے بنتے تھے۔اب لوہے اور پتھر کے مکانات بننے لگے ہیں اور مکان کا سارا کام مشینیں کرتی ہیں۔پہلے زیادہ سے زیادہ دو منزلہ مکان بنتا تھا لیکن اب تو پچاس منزلہ مکان بننے لگا ہے۔پہلے بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی پر سفر کرتے تھے لیکن اب موٹر ، بس، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔پہلے خط لکھ کر ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ جایا کرتی تھی، لیکن اب کمپیوٹر اور موبائل سے دنیا کی ہر خبر پلک جھپکتے ہی سبھوں تک پہنچ جاتی ہے۔یہ تمدن کی ترقی ہے ۔یہ ترقی دنیا کے ہر انسان کو اپنانا ضروری ہے۔ وہ اگر اس سے الگ رہے گا تو پسماندہ اورفرسودہ کہلائے گا۔ایک بات یہ بھی ہے کہ اب انسان کے اندر سے صبر کا مادہ ختم ہو چکا ہے وہ ہر کام جلد سے جلد کرنا اور کرانا چاہتا ہے۔یعنی آج کا انسان شیطان کا چیلا بن چکا ہے۔
زندگی کی یہ مصنوعی تیز رفتاری غلط اور انتہائی نقصان دہ ہے۔لیکن آج کاا نسان صرف فائدے کو دیکھتا ہے نقصان کی اُس کو فکر نہیں ہے۔یہ اُس کی بد عقلی اور ناسمجھی کی نشانی ہے۔عقل مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ فائدے کے ساتھ نقصان کا بھی خیال رہے۔دنیا والے اگر اس طریقے کے عادی ہو چکے ہیں تو اُن کے لئے ایسا کرنا بجا ہے کیونکہ وہ کسی آسمانی دین کو نہیں مانتے ہیں۔لیکن مسلم ملت بھی جب اس چال چلن کا شکار ہو گئی تب سوچنا پڑتا ہے کہ یہ اسلام کا نام تو لیتی ہے لیکن اسلام کی کوئی بات ماننے کو تیار کیوںنہیں ہے۔دور حاضر کے جتنے طور طریقے ہیں اُن کو اپنانے میں کوئی خرابی نہیںہے مگر یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ یہ طریقہ اسلام کے مطابق ہے یااسلام کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت حلال حرام، جائز ناجائز،صحیح غلط،حق و باطل اور نیک و بد کی تمیر اور امتیاز کو بھلاچکی ہے اور غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی اُنہیں کی نقالی کرنے میں اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔ایسا کرتے ہوئے مسلمان بسا اوقات ایمان سے محروم ہو جاتا ہے مگر اُس کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔اس دور کے مسلمانوں کو آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو صرف دنیا کے فائدے کی۔ اس رویے کے نتیجے میں دنیا والوں کے ساتھ مسلمانوں پر بھی آفت، ہلاکت، مصیبت اورتباہی و بربادی کی برسات ہو رہی ہے مگر مسلمانوں کو اس کی کوئی فکر اور پروا نہیں ہے۔وہ تو غیر مسلموں کی طرح صرف اپنی دنیا سجانے اور سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔آخرت فراموشی کی سزا اللہ نے مسلمانوں کو یہ دی ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کی کہیں کوئی عزت اور اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو کہیں کتا، کہیںگدھا اور کہیںگندا سور کہا اوربندر بھی کہا ہے۔کتے، گدھے، سور اور بندر جیسے مسلمانوں کواس کی کوئی پروا نہیں۔ وہ قرآن پڑھتے ہی نہیں ہیں تو پھر قرآن کی باتوں کی اُن کے نزدیک کیا اہمیت ہو سکتی ہے ؟
علامہ اقبال نے کہا ہے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود