تحریر: مطیع الرحمن عزیز9911853902
شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے پلیٹ فارم سے مثل سرسید ماہر تعلیم ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی قوم و ملک کے نونہالوں کیلئے کوشش تاریخ کے ورق پر سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے۔ بیس ہزار بچوں کو ملک میں دینی ماحول میں عصری تعلیم دلا کر اس بات کو غلط فہمی ثابت کر دی ہے کہ علماءاور حفاظ کرام عصری تعلیم میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہر سال سیکڑوں حافظ قرآن اور عالموں کو چاہے وہ بچے ہوں یا بچیاں عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے بہت دور اندیشی کے ساتھ ملک کے حکومتوں اداروں میں شیر وشکر کی طرح ملا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب اور ان کے تمام منتظمین کو صحت وعافیت سے رکھے اور ان کو حاسدین کے حسد اور مکرو فریب کرنے والوں کی دغا بازی وفتنہ پروری سے محفوظ رکھے۔ آمین ،دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اعلیٰ مقاصد لے کر آگے بڑھ رہا ہو اور اس کو سازشیوں کے فریب کا سامنا نہ ہو۔ یہاں تو ڈاکٹر عبد القدیر صاحب شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے پلیٹ سے ایسی حکمت عملی اور دور اندیشی کے ساتھ قوم وملک میں اعلیٰ تعلیم کی روشنی بکھیر رہے ہیں جو ابھی تک ملک بھارت اور دنیا میں دیکھنے اور سننے کو میسر نہیں آئی تھی۔ یہ مضمون لکھنے کا میرا مقصد ان طلبا کو رہنمائی کرنا ہے جو اعلیٰ تعلیم کے لئے سوچ رہے ہیں۔ میری ان قوم کے غیور افراد سے بھی التماس ہے کہ ملک میں بہنے والی اس تعلیمی ہوا کو رکنے سے بچائیں اور دامے ، درمے، سخنے ، قدمے ، قلمے جس طرح سے بھی ممکن ہو شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس اور ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کا ہاتھ مضبوط کریں، کبھی فرد واحد جماعت نہیں بنتی۔ مل جائیں کچھ افراد تو بات سنور جائے۔
چونکہ فی الوقت ملک بھر میں مدارس کے طلبا اپنے سالانہ امتحانات میں منہمک ہوں گے۔ اور کہیں نا کہیں یہ بات دل میں سوچ بن کر سرسرا رہی ہوگی کہ اب کہاں کا رخ کیا جائے۔ آیا تعلیمی سفر کو روک کر ہتھیار ڈال دیا جائے یا ہلکا پھلکا روزگار کرتے ہوئے کچھ اور بھی ڈگریاں حاصل کر لی جائیں۔ ان کے لئے شاہین گرو آف انسٹی ٹیوشنس ہر سطح پر مددگار اور سہارا ثابت ہوگا۔ مدرسہ پلس کے نام سے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے ملک بھر کے سیکڑوں اداروں کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ جہاں پر بچوں کو دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی بھی تیاری کرائی جاتی ہے۔ اس مدرسہ پلس مہم کے لئے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے بہت رعایتی انداز میں مدرسوں کو جوڑا ہے۔ جن اداروں نے مدرسہ پلس کو اپنے یہاں قائم کیا ہے ان کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے نصاب فراہم کئے جاتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ماہر اساتذہ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے خود فراہم کرائے ہیں۔ مستطیع اور غیر مستطیع طلبا و طالبات کا اندازہ لگانے کے لئے مقامی معززین کے خطوط کے ساتھ ان بچوں کی فیس میں رعایت کا بھی اہم خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ کل ملا کر میری خوش فہمی اس بات کو کہنے کی اجازت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کو لمبی عمر عنایت فرمائے۔ دس سالوں میں نونہالان قوم وملک میں تعلیم کا معیار بڑھ جائے گا اور ملک کے سرکاری ادارے اس بات کا چیخ چیخ کر اعلان کریں گے کہ مثل سرسید ڈاکٹر عبد القدیر صاحب اور ادارہ شاہین نے تعلیمی معیار کو بڑھانے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے میں نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز کا کئی بار سفر کیا ہے۔ اور آئندہ بھی وہاں جانے اور وہاں کی تعلیمی لیاقت و قابلیت اور انتظامات کو دیکھنے اور قوم میں پھیلانے کی کوشش بارہا کرتا رہوں گا۔ میری ان کوششوں کے پیچھے میرا مقصد قوم وملک کے نونہالوں اور خاص طور سے مدارس کے ان بچوں کے اندر اعلیٰ تعلیم کی رمق جگانا ہے جو دل ہی دل میں ایک دبی دبی سی خواہش لے کر خواب دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں غربت کے سوا کوئی اور چارا نہیں ہے۔ تو یقین جانئے کہ ہر وہ طالبعلم جو اعلیٰ تعلیم کی خواہش رکھتا ہے مگر اپنی کم وسعتی کی بنا پر اس کے ارمانوں کا گلا گھٹ رہا ہے تو اب وہ مایوس ہونا چھوڑ کر شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن کے ان اداروں کا پتہ لگائے جو مدرسہ پلس کے تحت منسلک ہوکر پوری رفتار سے چل پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کرناٹک کے بیدر شہر کے شاہین کیمپس میں بھی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند طلبا و طالبات ہیں تو وہ شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کی ویب سائٹ پر جا کر اپنی تسلی کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو نیا اڑان دے سکتے ہیں۔
ایک بات کہنا میرے لئے بالکل حرج محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ بہت سارے ایسے بچے ہوتے ہیں جو اپنی ابتدائی تعلیم یا ذہنی پرورش کی کمزوری کے سبب بھی اعلیٰ تعلیم کی حصولیابی سے مایوس ہیں۔ حالانکہ ایسے کمزور بچوں میں بھی حصول علم کا اعلیٰ ہدف ہوتا ہے مگر ذہنی کمزوری ہونے کے سبب وہ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بھی مایوسی سے نکالنے اوران کے اندر اعلیٰ تعلیم کی رمق جگانے کے لئے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس اور مدرسہ پلس میں مکمل انتظامات بروئے کار لائے ہیں۔ اے آئی سی یو کے نام سے قائم سیکشن ان کمزور بچوں کی مایوس زندگی میں چار چاند لگاتے ہیں جو بہت زیادہ مایوسی کے شکار ہوا کرتے ہیں۔ رمضان کے وقت میرا ایک دورہ شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس بیدر کا ہوا ۔ جہاں پر پبلک ریلیشن آفیسر جناب عبدالرحمن اعظمی صاحب نے ایک بچے سے میری ملاقات کرائی ۔ اور بچے سے کہا کہ اپنے تعلق سے کچھ بتاﺅ۔ تو بچے نے اپنی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جس مدرسہ میں میں تعلیم حاصل کر رہا تھا وہاں بڑی مشکل سے پاس ہوتا تھا۔ مگر جب سے شاہین گروپ بیدر کیمپس میں میرا داخلہ ہوا ہے میں حالیہ امتحان میں 67فیصد نمبرات لایا ہوں۔
خلاصہ کلام کے طور پر ہر وہ شخص جو ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کی اس تعلیمی مہم میں حصہ داری لے سکتا ہے وہ خوش نصیب ہے۔ چاہے وہ کسی طالبعلم کو رہنمائی کرنے سے لے کر ہو یا شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کو مضبوطی فراہم کرنے کے تعلق سے۔ ہر کسی کو آگے آنا چاہئے۔ پہلا اور اور بڑا قدم ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے بڑھا دیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہم اور بڑے کاز میں ہر شخص اپنا حصہ ڈالے اور قوم و ملک کے اندر تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لئے جو کچھ ہو سکے ہر انسان اپنی حصہ داری ادا کرے۔ جہاں ایک جانب تعلیم تجارت بن چکی ہے وہیں ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کا قوم و ملک کے لئے بے لوث خدمت قابل ستائش اور قابل رشک مانا جا رہا ہے۔ دعاﺅں اور نیک خواہشات کے ساتھ مطیع الرحمن عزیز۔