نئی دہلی: (پریس ریلیز)شعبہ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبجیکٹ ایسو سی ایشن ’’بزم دانش جویان‘‘ کے زیر اہتمام ایک روزہ ثقافتی و تعلیمی تقریب کا انعقاد ہوا۔ جس میں شعبہ کے اساتذہ و عملہ سمیت طلبہ و طالبات نے ادبیات فارسی اور موجودہ دورمیں اس کی ضرورت و اہمیت کے تناظر میں اشعار خوانی کیں اور اس کے متعلق نکات پر بحث و تمحیص کے ذریعہ طلبا کے اظہار بیان کو توانائی بخشیں۔ جس میں لازمی طور پر قابلِ ستایش یہ تھا کہ بی اے فرسٹ سمسٹر کے طلبا و طالبات فارسی زبان میں اپنا تعارف پیش کیے، اور اس ضمن میں جن چیزوں کی ضرورت اساتذہ کے ذریعہ محسوس کی گئی، اس کی طرف رہنمائی فرمائی گئی۔
فارسی زبان یہ قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اور ہندوستانی کلاسیکی زبانوں کے شمارے میں سر فہرست ہے ۔ اور سب سے بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ یہ فارسی زبان تہذیب و تمدن کی زبان ہے، اس زبان میں ہندوستانی و ایرانی ثقافتوں کے ہم رنگ تار ملتے ہیں آج اسی شعبہ سے گریجویشن کرکے ہمارے متعدد طلبا و طالبات ملک و بیرون ممالک کے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اپنی خدمت انجام دے رہیں۔ اس کے علاوہ وطن عزیز ہندوستان کے کئی ریاستی و مرکزی فارسی شعبوں اور دانش گاہوں میں ہمارے بچے بطور استاد اپنی خدمت پیش کررہے ہیں۔ آپ سبھی طلبا خوش بخت ہیں کہ آپ ملک کی عظیم یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کا حصہ ہیں، اور یہاں با صلاحیت اُستادوں کے زیر سایہ رہ کر اپنی علمی تشنگی کو قرار دے رہیں۔ آج تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کو اخلاقی اعتبار سے بھی خود کو آراستہ کرنے کی سخت ضرورت ہے، فارسی زبان بے مثال ادب و نقد کی جامع ہے، اس لیے ہمیشہ محتاط رہیں کہ ادب و تمدن کا دامن نا چھوٹنے پائے اور جہاں کہیں بھی جائیں جامعہ اور اپنے گاؤں و معاشرے کی بہترین نمایندگی کریں۔ مزکورہ خیالات کا اظہار شعبہ فارسی کے صدر پروفیسر سید کلیم اصغر صاحب نے طلبا و طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے لکچر میں فرمایا۔
پروگرام کا آغاز بی اے سال آخر کے طالب علم ابو حمزہ کی تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا ۔ بعده بزم دانشجویان فارسی کے نائب صدر جناب سمیر کاظمی نے بزم مزکور کا تعارف نامہ پیش کیا، جس کا لب لباب یہ ہے کہ بزم دانشجویان فارسی جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا و طالبات کی ذہنی و فکری بالیدگی کے لیے مختلف تعلیمی و روحانی پروگرام کا انعقاد کرتی رہتی ہیں جو کہ اس کا اساسی مقصد ہے، ہماری پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مختلف پروگراموں کے طلبہ و طالبات کے اندر چھپے جواہرات کو باہر لایا جائے ۔
نوجوانان ملک و ملت کے مقدر ہیں، انکی ذہنی و فکری تربیت کی ذمہ داری ہم سب کی ہے ۔ خالص لباس و پوشاک میں مغرب زدہ تہذیب و فکر کو اپنانے میں کامیابی نہیں ۔ اصل کامیابی کی سر کبریائی یہ ہے کہ ان کے طریقۂ کار اور وضعداری عمل کو اپنایا جائے ۔ لباس کی چمک وقتی ہوتی ہے لیکن فکر و عمل کی تابندگی ابدی و ازلی ہے ۔ دور نہیں کچھ ہی صدیوں قبل یورپ تاریکیوں میں زندگی گزر کر رہا تھا، اس وقت عربوں کی علمی توانائیوں کا زور عالم پر چھایا ہوا تھا ۔ گیارہویں و بارہویں صدی کے دوران جس قدر مسلم فلسفیوں ، مدبروں ، اور مدیروں نے سیاسی و سماجی ، طب و صحت غرض کہ جملہ علوم پر باتیں کیں اور فارسی و عربی زبانوں میں کتابیں تحریر کیں آج وہ پوری دینا کے لیے قابلِ تقلید ہیں اور لوگوں کے لیے مشعلِ راہ بھی۔ آپ فارسی کے طلبہ ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ خالص فارسی پڑھیں آپ کوشش کریں کہ سارے معاصرانہ علوم پر آپ کی خوبی دسترس ہو تاکہ فارسی زبان میں گفتگو و ترجمہ نگاری میں آپ کو دشواری لاحق نا ہو۔ اور یاد رکھیں وقت ایک گرانقدر دولت ہے جس کی قدر طلبہ کو کرنے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ مزکورہ بیانات کا اظہار شعبہ فارسی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر ارشد القادری صاحب نے درمیان گفتگو فرمایا۔ درمیان تقریب وقفہ در وقفہ عبد الرحمان، محمد تابش، محمد عظیم، وفا اکبر اور شاہ خالد مصباحی وغیرہ نے فارسی و اردو زبانوں میں غزل و نعت پیش کرکے محفل کی نورانیت میں چار چاند لگائے۔ بعدازاں بی اے سال اول اور ایم ایے سال اول کے طلبا و طالبات کو شیلڈ دے کر استقبالیہ دیا گیا،اور ان کے درمیان ذہنی توانائی بخش گیمز اور مختلف عنوانات سے متعلق سوالات سیکشن وغیرہ کا بھی انعقاد کیا گیا۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض بزمِ دانش جویان کے نائب صدر سمیر کاظمی، سعد اعظمی بی اے سال آخر اور شعبہ کے طالب علم محمد سعد نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔ اور تقریب پانچ بجے کے قریب پروگرام ایڈویزر ڈاکٹر زہرہ خاتون استاد شعبۂ فارسی کے گرمجوشی بھرے خطبۂ شکرانہ پر اختتام پذیر ہوئی ۔
تقریب میں خصوصی طور سے ڈاکٹر احمد حسن، ڈاکٹر یاسر عباس، ڈاکٹر نوید جعفری، ڈاکٹر احمد میاں و محمد میاں صاحبان ، ڈاکٹر انور عزیز، ریسرچ اسکالرز سے افضل زیدی، مدثر اشرفی، محترمہ یاسمین فاطمہ سمیت سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات موجود تھے۔ مزکورہ اطلاعات نامہ نگار کو شاہ خالد مصباحی نے ارسال کیا ۔