مفتی محمد سعد شادؔ سیوہاروی
خلق میں ہے ظہور عید الفطر
آج پھیلا ہے نور عید الفطر
مست و سرشار لوگ پھرتے ہیں
آنکھوں میں ہے سرور عید الفطر
عید الفطر؛ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو عطا کردہ عظیم تحفہ ہے، جو ماہ مقدس رمضان المبارک کے اختتام پر بندوں کو اس ماہ مبارک میں چند ٹوٹی پھوٹی عبادات انجام دینے کے بعد ملتا ہے۔
عید الفطر کے معنیٰ و مفہوم
عیدالفطر دو لفظوں کا مجموعہ ہے:
(1) عید (۲) الفطر
یہ مرکب اضافی ہے، عید الفطر کے جملہ میں عید کی نسبت فطر کی طرف ہو رہی ہے۔ یعنی عید الفطر کے معنیٰ ہے فطر کی عید۔ اس لئے ہر دو لفظوں کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
لفظ عید کی وضاحت
عید عربی کا لفظ ہے ، اس کے لغت میں متعدد معنی آتے ہیں ۔ ایک معنی یہ ہے کہ "عید” لفظ عود سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ لوٹنے اور بار بار آنے کے ہیں "عاد الشي” بار بار آنا : اور عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں مختلف پہلوؤں سے عود (لوٹنے) کا مفہوم پایا جاتا ہے، ١_ ہر سال اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فرحت و مسرت کو لوٹاتے ہیں،اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انعامات و احسانات کو بار بار لوٹاتے ہیں،
٢_اس دن کا نام عید اس لیے ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی رحمت خاصہ کے ساتھ عود کرتے ہیں، یعنی بندوں پر اپنی رحمت اور بخشش کے ساتھ خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔
٣_اس پر مسرت موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر سال بندوں پر مختلف قسم کے احسانات لوٹ کر آتے ہیں مثلا عید الفطر کے موقع پر روزے میں کھانے پینے کی ممانعت کے بعد افطار یعنی روزہ نہ رکھنے کی اجازت، صدقہ فطر،
اور عید الاضحی پر حج کی عبادت اور قربانی کا گوشت وغیرہ اس لئے ان تہواروں کا نام عید رکھا گیا۔
٤_ہر سال عید کے موقع پر بندے اللہ کے حضور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر تحفے تحائف بھیجتے ہیں۔
٥_عید کے دن بندے اپنی حسب سابق پاکیزگی پر لوٹ آتے ہیں۔
٦_اس دن بندے اللہ تعالٰی کی اطاعت سے رسول اللہ کی اطاعت کی طرف، یعنی فرض روزوں سے سنت کی جانب اور ماہ رمضان کے روزوں سے شوال کے روزوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
٧_اس دن اہل ایمان کے لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مغفور ہو کر(بخشنے بخشائے) اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ
٨_یہ وعدوں وعیدوں بدلوں اور بخششوں کا دن ہے اور غلاموں کنیزوں کی آزادی کا دن ہے، اس دن بندگانِ خدا عہد الٰہی اور میثاق محبت کی تجدید کرتے ہیں۔
٩_اس دن اللہ تعالی اپنے دور اور نزدیک بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور کمزور بندے اللہ کی طرف لوٹتے ہیں اور اس سے بھاگے ہوئے بندے اس محبوب رب کی طرف پلٹتے ہیں ۔
١٠_اس دن عموماً اپنوں سے خفا اور بچھڑے ہوئے لوگ تلخیوں کو نذر انداز کرتے اپنوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
١١_اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عید کو عید دوبارہ آمد کی نیک فالی کے لیے کہتے ہیں ۔کہ خوشیوں کا یہ دن دوبارہ لوٹ کر آئے جس طرح قافلہ کو روانگی کے وقت ہی قافلہ کہہ دیتے ہیں۔ اور یہ لفظ قفول سے بنا ہے جس کی معنی واپس آنا ہے، یعنی خدا کرے یہ قافلہ واپس لوٹ کر آئے (اشعۃ اللمعات ص ۲۶۰ ج۲)
عید کے دوسرے معنی خوشی کے ہیں۔ اور اسکی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ؛ عید یوم مسرت ہے، یہ دن اہل اسلام کی مسرت و شادمانی کے اظہار کے لیے مقرر کیا گیا ہے
یہ دن ہر سال نئی امنگ اور تازہ خوشیوں کی بہاریں لے کر آتا ہے؛ اس لیے اس کو عید کہتے ہیں،
نیز اہلِ عرب ہر مسرت بخش اجتماع کو عید سے یاد کرتے اور یوم عید تو مسرت عظمیٰ کا دن ہے، اسلیے اسے بھی عید سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
عید یوم مسرت ہے اس حوالے سے
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (نور اللہ مرقدہ) فرماتے ہیں: "یہ وہ دن ہے کہ جب لوگ اپنے روزوں سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں اور ایک طرح کی زکوٰۃ ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ تو اس دن ان کے لئے دو قسم کی خوشیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ طبعی اور عقلی ۔ طبعی خوشی تو اس لئے ہوتی ہے کہ روزہ کی عبادت شاقہ سے فارغ ہوجاتے ہیں اور محتاجوں کو صدقہ مل جاتا ہے۔
عقلی خوشی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عبادت مفروضہ کے ادا کرنے کی ان کو توفیق عطا فرمائی اور ان کے اہل و عیال کو اس سال تک باقی رکھنے کا ان پر انعام کیا ، اس لئے ان خوشیوں کے اظہار کا حکم ہوا۔”
نیز ان کے علاوہ عید کا نام رکھنے کی دیگر وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں۔
الفطر کے معنیٰ و مفہوم
فطر کے معنی: افطار کرنے کے ہیں جس کی وضاحت یہ ہے کہ
افطار دو قسم کا ہوتا ہے ایک افطار کبیر : یعنی بڑا افطار جو رمضان المبارک کے مکمل ہونے پر افطار کرتے ہیں، یعنی عید کا چاند دیکھتے ہیں وہ تکمیل رمضان کا افطار ہوتا ہے۔
دوسرا افطار صغیر یعنی چھوٹا افطار، روزہ پورا کر کے جو شام کو افطار کرتے ہیں، اس کو افطار صغیر کہتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہاں افطار سے مراد روزوں کی فرضیت کے بعد افطار یعنی روزے نہ رکھنے کی اجازت مل جانا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں جو روزے رکھنے کی پابندی تھی وہ شوال کے آغاز پرختم ہو جاتی ہے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عید الفطر کے معنی : اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اظہار شادمانی و مسرت کا وہ دن ہے جس میں روزہ رکھنے کی پابندی ختم ہوجاتی ہے اور افطار یعنی روزہ نہ رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
روح عید
عید مسرت عظمیٰ کا وہ دن ہے جس میں اظہار خوشی کے ساتھ اقرار بندگی بھی ہے۔جیساکہ عید میں دوگانہ اور فطرانہ کے حکم سے ظاہر ہے۔ نیز عید کے دن بندے بدن کی طہارت و نظافت کا اہتمام کرتے ہیں یہ عمل بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ ﴿إن الله جميل يحب الجمال﴾ (اللہ تعالیٰ جمیل ہیں جمال و زیبائی کو پسند فرماتے ہیں [صحیح مسلم۔91]۔
بدن کی طہارت و پاکیزگی کے ساتھ عمدہ لباس زیب تن کرتے ہیں اچھے اچھے کھانے کھاتے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی نعت کا اظہار ہے اور اللہ تعالیٰ اظہار نعمت کو پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ۔﴿ وَأَمّا بِنِعمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّث ﴾ [93:11] – الضحى (اپنے رب کی نعمتوں کا اظہار کیجئے)
نیز شب عید (چاند رات) بھی بڑی برکتوں والی رات ہے، یہ رات انتہائی اہمیتوں کی حامل ہے۔ اس رات خدائے کریم کے الطاف و عنایات کی موسلا دھار بارش برستی ہے۔ جو بندوں کے گناہوں کو دھو کر اور لغزشوں کے خس وخاشاک کو بہاکر، بندوں کے لیے بخشش و مغفرت کے پھل اگاتی ہے۔ امام بیہقی نے فضائل الاوقات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت ذکر فرمائی ہیں۔ جس اس حصے کا جو عید اور شب عید سے متعلق ہے ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے جس کا نام لیلتہ الجائزہ (انعام کی رات ) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جس کو جنات اور انسان کے سوا، ہر مخلوق سنتی ہے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے پروردگار کی طرف اپنے رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: اس مز دور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کر چکا ہو ؟ وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم ! میرے جلال کی قسم ! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔ دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو چھپاتا رہوں گا۔ میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کر لیا اور میں تم سے راضی ہو گیا۔ اس امت کو جو عید کے دن اجر و ثواب ملتا ہے اسے دیکھ کر فرشتے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
(فضائل الاوقات للبیہقی حدیث نمبر: 109 )
نوٹ: یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے کہ اس کی سند پر کلام کیا گیا ہے، لیکن؛ موضوع و بے اصل نہیں ہے۔کیونکہ امام بیہقی نے اس حدیث کو شعب الایمان اور فضائل الاوقات میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اْسی حدیث کو ذکر کریں گے جس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہوگی اور موضوع حدیث کو وہ اپنی تصانیف میں ذکر نہیں کرتے۔
مذکورہ تفصیل سے پتہ چلتاہے کہ عید میں شادمانی و مسرت کے ساتھ عبادت کا عنصر بھی شامل ہے۔عید اظہار مسرت کے ساتھ اقرار عبودیت کا نام ہے۔ اور یہی عید کا امتیاز ہے کہ مسلمان اپنے خالق و مالک کی بندگی و فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے عید مناتے ہیں۔
اسلام کی روح یہ ہے کہ خوشی کے پر لطف لمحات ہوں یا غموں کی تکلیف دہ گھڑیاں بندگانِ خدا پیکر شکر و صبر بن کر ہر حال میں چمن اسلام کی آبیاری کرتے رہیں کسی موقع پر بھی اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے تہذیب و شرافت کا دامن نہ چھوڑیں۔
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سورۃالأنعام آیت نمبر (162) میں اپنے نبی کو مخاطب کرکے تمام انسانوں کو اخلاص و للہیت کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
کہدیجئے! میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا اورمیرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے(سورۃ الانعام)۔
آیت کریمہ سے یہ درس ملتا ہے کہ ایک مسلمان کا جینا، مرنا، اور عبادت و ریاضت سب کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہونا چاہیے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں گذرے۔اور جینے کا مقصد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی سربلندی ہو۔ مرنا حالت ِ ایمان میں ہو اور حتی الوسع کلمۂ حق کی بلندی کیلئے ہو۔ ہماری عبادت شرک جلی تو بہت دور کی بات ہے اس سے تو بندہ ایمان سے ہی خارج ہوجاتا ہے، شرک خفی یعنی ریاکاری سے بھی پاک ہو، اور خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہو۔
نیز یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہماری خوشی اور غمی دونوں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں۔ ہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمابردار بن کر زندگی گذاریں ہر حال میں شکر اور صبر کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتے رہیں۔ اور ایسا کیوں نا ہو اسلئے کہ خوشی و غمی دونوں اللہ ہی جانب سے ہوتی ہے۔ وہی تمام عالم کا رب ہے وہ ہمارے حق میں جو بہتر ہوتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ وہ ہمیں خوشیاں عطا فرمائے تو وہ اس کا فضل و کرم ہے۔ اور اگر ہمیں کوئی غم لاحق ہوجائے تو وہ بھی اس کی اجازت سے ملا ہے اس لئے ہمیں ہر حال میں اس کے فیصلے پر راضی اور اس کی حکم کا پابند رہنا چاہئے۔ اور یہی حاصل زندگی ہے۔
بشر کا کام ہے ہر حال میں شکر خدا کرنا
خوشی ہو یا غمی، اچھا نہیں شکوہ گلا کرنا
مذکورہ آیت کریمہ میں محیای کو ممات سے مقدم کرنے کا ایک نکتہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ محیای کو ممات سے مقدم کرنا محیای کے اہتمام کی وجہ سے ہے کہ خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے اسلئے کہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ غم کے ماحول میں تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں غموں کا اظہار کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں خوب گڑگڑاتے ہیں اور آہ و زاری کرتے ہیں۔ لیکن حالت خوشی میں اللہ سے غافل ہوجاتے ہیں ۔حدود شرع سے نکل کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
بہر حال آیت کریمہ کے ذریعے پوری امت مسلمہ کو یہ درس ملتا ہے کہ خوشی کے پر لطف لمحات ہوں یا غموں کی تکلیف دہ گھڑیاں، ہر حال میں شکر و صبر کے ساتھ اللہ کو یاد رکھ کر اپنی عبودیت و بندگی کا اظہار کرتے رہیں ۔ کسی موقع پر بھی احکام شرعیہ کو بھول کر حدودِ شرع سے تجاوز کرتے ہوئے اللہ سے غافل نہ ہو، ہر موقع پر ہمارا طریقۂ زندگی فرمان الہٰی اور اسوۂ نبوی کے مطابق ہو،
اسلامی تعلیمات میں حد اعتدال میں رہ کر احکام شرعیہ کا لحاظ کرتے ہوئے عید کے دن بھر پور اظہار مسرت و شادمانی کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ خوشیوں کے اظہار کی تلقین کی گئی ہے۔ عیدین کے روز کھیلنا کودنا اور اظہار مسرت و فرحت کرنا جائز و مباح ہے بشرطیکہ شریعت کے منافی نہ ہو۔
احادیث مبارکہ میں حد اعتدال میں رہ کر احکام شرعیہ کا لحاظ کرتے ہوئے عید کے دن بھر پور اظہار مسرت و شادمانی کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ خوشیوں کے اظہار کی تلقین کی گئی ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ عید، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت و مہمان نوازی کا دن ہے اس دن روزہ نہ رکھا جائے۔
لہذا ہماری عید اگر شریعت اسلامیہ کے مطابق ہو اور اسلامی اقدار و روایات کی پاسدار ہو تبھی وہ ہمارے حق میں عید ہے۔ ورنہ اس فانی دنیا کی فانی لذات اور چند لمحوں کی خوشی کس کام کی؟
اس لیے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی خوشی یہ ہونی چاہیۓ کہ انھیں اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ تمام تر عبادات اور کوششوں کا مقصد و ماٰل یہی ہے۔ زیب و زینت اور عیش و عشرت سیر و تفریح اور کی رونقوں میں مست ہوکر اگر دل خدا کی یاد سے غافل ہو جائے تو ایک قلبِ سلیم رکھنے والے مسلمان کو وہ روحانی شادمانی میسر نہیں آسکتی جو عید منانے کا فطری تقاضہ اور اس کا مقصود و مطلوب ہے۔
ہماری عید اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق ہو یہی عید کی اصل خوشی اور روح عید ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رح نے غنیۃ الطالبین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ
’’جس دن ہم سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کا کوئی کام سرزد نہ ہو ہمارے لیے وہ عید کا دن ہے۔‘‘
امام الہند مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد رح نے عید کے تہوار اور اس کے فلسفے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں بیان فرمایا تھا کہ: ”عید اگر شعائر اسلام کو قائم رکھتی ہے۔ مذہبی روح کو زندہ کرتی ہے۔ مذہب کے کارنامہئ اعمال کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ عہد محبت اور میثاق الٰہی کی تجدید کرتی ہے۔ تمام مسلمانوں کے درمیان سفارت کا کام دیتی ہے تو بلاشبہ عید ہے۔ ورنہ وہ صرف کھجور کی ایک گٹھلی ہے جس کو ایک سنت کے احیاء کے لئے ہم علیٰ الصبح کھا کر پھینک دیتے ہیں۔ عید محض سیر و تفریح، عیش و نشاط، لہو لعب کا ذریعہ نہیں ہے۔ وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے۔۔۔۔وہ توحید و وحدانیت کا منبع ہے۔ وہ خالص نیتوں اور پاک دلوں کی نمائش گاہ ہے۔ اس کے ذریعہ ہر قوم کے مذہبی جذبات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی حالت میں قائم ہے توسمجھ لینا چاہئے کہ مذہب اپنی پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر وہ مٹ گئی ہے یا بدعات و خرافات نے اس کے اصل مقاصد کو چھپا دیا ہے تو یقین کر لینا چاہئے کہ مذہب کا چراغ بجھ رہا ہے “۔ (مولانا کا خطبہ مکمل ہوا)
لہذا ہمارا عید منانا ایسے طریقہ پر ہو نہ جس سے اسلامی تہذیب و تشخص اور وقار کو ٹھیس پہنچے، اسلامی تہوار و کلچر مجروح ہو۔
عید کو حقیقی عید منانے اور وعید سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ اسلامی ہدایات و آداب کو ملحوظ رھتے ہوئے تہذیب و شرافت کے دائرہ میں رہ کر اجتماعی طور پر اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے غریبوں ناداروں،یتیموں اور بے کسوں کا سارا بن کر اور باہمی دشمنی کو اخوت و بھائی چارگی سے تبدیل کرکے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ کر اتحاد و اتفاق اور امن و سلامتی کا پیغام دیتے ہوئے اپنے دلوں میں محبت و الفت کے دیپ جلاتے ہوئے تقوی و طہارت اور عبادت و ریاضت سے سرشار ہوکر عید منائیں۔
عید الفطر کی اصل خوشی اور ابدی سعادت حاصل کرنے کے لئے ذیل میں متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی کتاب "عید الفطر سے متعلقہ چند احکامات و مسائل” سے لیلۃ الجائزہ (چاند رات) اور عید الفطر کے دن کے معمولات درج کیے جاتے ہیں۔
چاند رات کو درج ذیل چند کام سر انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے:
1 نوافل پڑھنا
2: قرآن مجید کی تلاوت کرنا
3: صدقہ دینا
4: دعاؤں کا اہتمام کرنا
5: ذکر اللہ کرنا
6: اپنے گناہوں کی معافی مانگنا
7: امت مسلمہ کی بھلائی اور عافیت کی دعا کرنا
:9 اگر کسی کی حق تلفی ہو گئی ہو تو اس سے معافی مانگنا،رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا
10: کسی نے ظلم زیادتی کی ہو تو اسے معاف کرنا
فائدہ: معتکفین اگر اس رات اپنے گھروں کو جانے کے بجائے مسجد ہی میں عبادت سر انجام دیں
تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ ہاں اگر گھروں کو چلے جائیں تب بھی درست ہے۔
عید کے دن کے معمولات
1: عید والے دن جلد بیدار ہونے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تہجد کی نماز ادا کرنی چاہیے اور مردوں کو نماز فجر مسجد میں باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عید خوشی کا دن ہے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کی خوشی کا آغاز عبادت سے ہو۔
2: طہارت و نظافت کا اہتمام کرنا
عید کے دن طہارت اور نظافت کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسے ناخن تراشنا، بال سنوارنا، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھیں کتروانا، مسواک استعمال کرنا۔ اس دن مسلمانوں کے جم غفیر نے نماز عید کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہونا ہے اس لیے خوب صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو۔
3: غسل کرنا
عید کے دن غسل کرنا مسنون ہے۔ اس لیے اہتمام سے غسل کرنا چاہیے۔
4: صاف ستھرا لباس پہننا
عید کے دن نیا لباس ہو تو بہت اچھا، ورنہ جو بھی پاک صاف کپڑے میسر ہوں پہنے چاہیے۔
لباس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ غرور و تکبر اور دوسروں کو نیچادکھانے کی نیت نہ
ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اظہار کا جذبہ ہو۔ اپنی وسعت و حیثیت کے مطابق لباس کا انتخاب
کرنا چاہیے۔
5 خوشبو لگانا
عید کے دن خوشبو کا استعمال مسنون ہے۔ جو خوشبو میسر ہو لگانی چاہیے۔ خواتین گھر میں خوشبو کا اہتمام کریں لیکن اگر گھر سے باہر جانا ہو تو تیز خوشبو لگانے سے احتراز کریں۔ ایسے مواقع پر خوشبو لگانی بھی ہو تو دھیمی خوشبو کا انتخاب کریں۔
6: عید گاہ جانے سے پہلے کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھانا
عید گاہ جانے سے پہلے ممکن ہو تو کھجوریں کھانی چاہیں۔ طاق عدد کا لحاظ کرنا اچھا ہے
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاق عدد میں کھانا منقول ہے۔ اگر کھجوریں نہ ہوں تو کوئی بھی میٹھی چیز کھائی جاسکتی ہے۔
7: صدقہ فطر ادا کرنا
عید گاہ جانے سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ بلا عذر تاخیر کرنا گناہ ہے۔ اگر کوئی شخص شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکا اور آئندہ بھی رکھنے کی امید نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ روزوں کا فدیہ بھی ادا کر کے جائے۔ اگر کسی نے عید سے قبل صدقہ فطر یاروزوں کا فدیہ ادانہ کیا تو اسے عید کے بعد ضرور ادا کرنا چاہیے اور تاخیر پر توبہ واستغفار بھی کرنی چاہیے۔
صدقه فطر ان چار قسم کی اجناس سے دیا جا سکتا ہے:
(1) کشمش … ایک صاع (ساڑھے تین کلو تقریباً)
(۲) کھجور ایک صاع (ساڑھے تین کلو تقریباً)
(۳) جو…… ایک صاع (ساڑھے تین کلو تقریباً)
(۴) گندم …… آدھا صاع ( پونے دو کلو تقریباً)
بعینہ یہی اجناس بھی دی جا سکتی ہیں اور ان کی قیمت بھی۔ اپنی وسعت کے مطابق انسان کو مہنگی جنس کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔
8: عید گاہ کی طرف پیدل جانا
نماز عید کی ادائیگی کے لیے عید گاہ پیدال جانا مسنون ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا بوڑھا ہو اور عید گاہ دور ہو یا کوئی اور عذر ہو تو سواری پر بھی جاسکتے ہیں۔
9: عید گاہ جاتے ہوئے تکبیرات کہنا
عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں یہ تکبیرات کہتے جائیں: "الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد“ اور عید گاہ پہنچنے تک کہیں۔
10: ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
مسنون طریقہ یہ ہے کہ عید گاہ جاتے وقت ایک راستہ اختیار کیا جائے اور واپسی پر دوسرا راستہ۔ ہاں ! اگر کوئی عذر ہے تو آنے جانے کا ایک ہی راستہ اختیار کرنے میں کوئی حرج بھی
نہیں ہے۔
11: اہل و عیال پر وسعت سے خرچ کرنا
عید خوشی کا دن ہے۔ اس خوشی کا مظہر یہ ہے کہ جہاں انسان اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے وہاں اپنے اہل و عیال پر بھی وسعت کے ساتھ خرچ کرے۔ اپنی خوشی میں بیوی بچوں اور گھر کے دیگر افراد کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ہاں اس موقع پر فضول خرچی سے گریز کرنا چاہیے۔
12 : خواتین کا گھر پر رہنا
خواتین عید گاہ نہ جائیں بلکہ گھروں پر ہی رہیں۔ والد ، خاوند ، بھائیوں اور بیٹوں کو تیار کر کے عید گاہ بھیجنے میں مشغول رہیں۔
13 : صحیح العقیدہ امام کی اقتداء کرنا۔
نماز عید کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے امام کا انتخاب کریں جو صحیح العقیدہ ہو۔ عقائد میں فساد یا اعمال میں بدعات ہوں تو ایسے امام کی اقتداء سے اجتناب لازم ہے۔ امام صاحب عید کی نماز سے قبل جو وعظ کرتے ہیں اسے غور سے سنا جائے۔ امام صاحب کی بیان کی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
14: خشوع و خضوع کے ساتھ نماز عید ادا کرنا
عید الفطر اور عید الاضحی دو رکعات چھ زائد تکبیروں کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں تین زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں۔ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری تکبیر میں قرآت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع سے پہلے ۔ ( نماز عید کا مکمل طریقہ آگے آرہا ہے)
13 : توجہ کے ساتھ خطبہ سنتا
نماز عید کی ادائیگی کے بعد امام صاحب عربی میں خطبہ دیں گے جسے غور سے سننا لازم ہے۔ خطبہ کے دوران خاموشی اختیار کی جائے اور کسی قسم کی گفتگو نہ کی جائے۔
14: نماز عید کے بعد دعا مانگنا
نماز عید کے بعد دعامانگیں۔ اللہ تعالی سے رحمت و برکت اور اپنی مغفرت مانگیں۔ اپنے لیے ، گھر والوں کے لیے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے دعا کی جائے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ نماز عید کے بعد دعا کی جائے لیکن اگر کوئی امام خطبہ کے بعد دعا کرے تب بھی درست ہے۔
15: عید کی مبارک باد دینا
عید کی مبارکباد دینا شر عادرست بلکہ مستحب عمل ہے بشر طیکہ اسے لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور جو اس کا اہتمام نہ کرے اسے ملامت بھی نہ کی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دینا ثابت ہے۔ انتہیٰ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے، عید دن ہماری بھی مغفرت فرمائے،اور ہم سب کو دین و دنیا کی خیر سے نوازے۔ آمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم۔
باعثِ راحت ہے آنا عید کا
گا رہےہیں سب ترانہ عید کا
روزہ دارو! ہو مبارک آپ کو
خلق میں تشریف لانا عید کا