ٹی ایم ضیاء الحق
ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ میں کئی تاریخی خانقاہیں ہیں اس میں ایک خانقاہ کا نام خانقاہ منعمیہ ہے۔۔۔۔ یہ خانقاہ پٹنہ سٹی کے گنگا ندی کے کنارے متن گھاٹ محلہ میں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ خانقاہ حضرت مخدوم منعم پاک باز رحمت اللہ علیہ کی ہے ۔۔۔ مخدوم شاه محمد منعم رح (م: ۱۲ رجب ۱۱۸۵ھ) سلسلہ سہروردیہ قادریہ میں میر سید خلیل الدین سے بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے ۔ عطاے خلافت کے بعد شیخ طریقت کے حسب حکم علوم ظاہری کی تکمیل کے لیے دہلی تشریف لے گئے ، جہاں انھیں کچھ عرصہ ابو العلائی بزرگ شاه محمد فرہاد دہلوی کی صحبت میسر آئی ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے سجاده نشین میر سید اسد اللہ ابو العلائیہ سے اکتساب علوم کیا نیز سلسلہ ابو العلائیہ کی خلافت سے بھی سرفراز ہوئے ۔ شیخ استفاضہ کی وفات کے بعد انہی کے مدرسے ( جو جامع مسجد دہلی کی پشت پہ واقع تھا ) میں کئی سال عالم کو سیراب کیا بعد ازاں پٹنہ تشریف لائے اور محلہ بخشی گھاٹ کی مسجد میں قیام فرمايا – مختصر عرصہ وہاں قیام کے بعد میتن گھاٹ کے پاس ملامیتن کی مسجد میں مقیم ہوئے اور خانقاہ کی بنیاد رکھی اور یہیں سے یہ سلسلہ منعمیہ ابو العلائیہ کہلانے لگا ۔ حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک باز رح اب وہیں آپ کا مزار زیارت گاہ خلایق ہے ۔ آپ کی تصانيف مكاشفات منعمی (مصنفہ : ۱۱۱۹ھ) ،الہامات منعمی مصنفہ : ۱۱۲۰ھ) اور مشاہدات منعمی (مصنفہ : ۱۱۲۳ھ) کے نسخہ خانقاہ منعمیہ اور برصغیر پاک و ہند کے کئی کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ مخدوم شاہ محمد منعم پاک باز کے کئی خلفا سے ان کا سلسلہ چلا ۔ ان میں سے حضرت رکن الدین عشق رح، مخدوم شاہ حسن علی اور صوفی شاه محمد دایم زیاده معروف ہوئے ۔ مخدوم شاہ حسن علی کا مزار خواجہ کلاں گھاٹ پٹنہ میں ہے اور صوفی شاه محمد دایم رح کی مزار بنگلہ دیش میں ہے۔۔۔ خاجہ حسن علی رح کے مکتوبات کے قلمی نسخے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں ، جن کا اردو ترجمہ مکتوبات حسنیہ کے نام سے خانقاہ منعمیہ سے شایع ہو چکا ہے جو برّصغیر میں مقبول ہوا ۔ ان میں سے ایک سو چار مکتوبات آپ کے مرید و خلیفہ حکیم شاہ فرحت اللہ مخاطب بہ حسن دوست کریم چکی کے نام ہیں ۔ آپ کی خانقاہ محلہ کریم چک چھپرہ صوبہ بہار میں ہے ۔
اس سلسلہ ایک بزرگ شاه محمد مخلص الرحمان ملقب بہ جہاں گیرشاہ ہوئے جن کی مزار چٹا گام بنگلہ دیش میں ہے۔ ان کے بیٹے حضرت شاہ عبدالحئی رح ان کے ایک خلیفہ تھے نبی رضا رح جن کی مزار لکہنؤ میں ہے اس طرح جہانگری سیل سلسلہ کا مرکز لکہنؤ بنا اور جہانگیر سلسلہ اس طرح ہندوستان میں پھیلا ۔۔۔۔ حضرت شاہ جہانگیر جو حضرت امداد علی رح کے خلیفہ تھے جن کی مزار بھگال پور میں ہے حضرت امداد علی رح خلیفہ تھے حضرت مہندی حسن رح خلیفہ حضرت مظہر حسین رح خلیفہ حضرت حکیم شاہ فرحت اللہ حسن دوست کریم چکی خلیفہ حسن علی خلیفہ حضرت مخدوم منعم پاک باز رح ۔۔۔
تیرہ ویں صدی ہجری کی ابتدا میں اسی سلسلے کی ایک شاخ ان کی نسبت سے جہاں گیری کہلائی ۔ شاہ مخلص الرحمان کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے فخر العارفين شاه محمد عبد الحئ مسند ارشاد پر فائز ہوئے۔ آپ بلاشبہ اس سلسلے کے مجدد ہیں ۔ آپ نے سلسلے کی از سر نو تنظیم بندی کی اور قواعد و ضوابط طے کیے نیز سلسلے کوعہد موجود کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں کئی مفید اقدامات فرمائے ۔
برّصغیر میں حضرت مخدوم منعم پاک کے کئی خلفاء کی خانقاہیں آج بھی دعوت کا کام کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔ ویسے تو اس خانقاہ کے کئی سجّادہ نشین نے اس خانقاہ کو جلا بخشی مگر اس میں اعلٰی حضرت قمرالدین احمد منعمی رح کا نام بہت منفرد ہے۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت کے کئی خلفاء کی خانقاہوں سے راشد ہدایت اور دعوت تبلیغ کا کام جاری ہے جس میں حضرت سید شاہ قاسم داناپوری رحمۃاللہ علیہ کی خانقاہ خانقاہ سجادیہ، داناپور، پٹنہ، حضرت سید شاہ ابوالفیّاض قمری رحمۃاللہ علیہ کی خانقاہ خانقاہ فیاضيہ،سمللی، پٹنہ، حضرت سید شاہ عطا حسین فانی رحمۃاللہ علیہ کی خانقاہ خانقاہ چشتیہ گیا وغیرہ شامل ہے ۔۔۔۔ عصر حاضر میں اس خانقاہ کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی ہیں جو آج برّصغیر میں ترجمان صوفیہ کی حثیت سے جانے جاتے ہیں ۔۔۔۔
حضرت ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کی اعلیٰ وارفع شخصیت پر حرف بہ حرف منطبق ہوتا ہے۔ حضرت ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی اس زمانے کے داعیوں میں سرفہرست ہیں ۔ وہ ممتاز عالم دین، مصنف، مؤرخ،ادیب اور بے مثال مقرر و خطیب ہیں ۔ ان کی تقرری پر ادب کا جو رنگ غالب ہے اور ان کی تحریروں میں جو تخلیقی چاشنی ہے وہ انہیں اپنے تمام ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ڈاکٹر منعمی کاجو وصف سب سے زیادہ روشن اور تابناک ہے وہ ہے ان کا اخلاق ۔۔۔۔ ڈاکٹر شمیم الدین احمد منعمی کی فکر کو سمجھنے کے لیے جو شخص بھی سنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ ان کی مضامین اور تصنیف کا مطالعہ کرے گا وہ ان کی جامع شخصیت، تعلق مع اللہ، اعتدال و توازن، ماضی سے وابستگی اور حمیت و جرأت مندی جیسے عناصر کوضرور پائے گا۔ یہ عناصر ڈاکٹر منعمی کی شخصیت کے بنیادی اجزاء ہیں اور ان کی جامع فکر کے بنیادی محور بھی۔ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ حضرت مولانا ؒکی فکر اور شخصیت کے یہ عناصر ان کی دعوت بھی ہے اور راہِ عمل بھی۔ یعنی وہ انہی کی دعوت دیتے ہیں اور خود بھی ان پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ آج اس خانقاہ میں تقریباً پچیس ہزار کتابوں کی ایک شاندار لائبریری ہے جس میں قلمی نسخے بھی شامل ہے۔۔۔ اس کے علاوہ صوفیہ بہار کی علمی خدمات کو برّصغیر تک پہنچنے کے لیے کتابوں کی اشاعت کا شعبہ قائم ہے جہاں سے تقریباً ڈھای درجن قلمی نسخے کو فارسی سے اردو ترجمے کرا کر منظر عام پر لایا جا چکا ہے کئی کتابوں کی تو کئ کئ ایڈیشن آچکے ہیں ۔۔۔
یہاں ایک مدرسہ بھی چلتا ہے جو اپنے آپ میں منفرد ہے اس میں ایک شعبہ دارالافتاء ہے اس کے سربراہ جناب محب اللہ مصباحی ہیں اور یہاں نئی نسل کو تحقیق کی تربیت دی جاتی ہے۔۔۔ صوفیہ اکرم کی تعلیمات کو منظر عام پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کام میں خانقاہ منعمیہ اپنے آپ میں منفرد ہے ۔۔۔