ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
18ویں لوک سبھا کا الیکشن ختم ہونے جارہا ہے۔ قریب دو چوتھائی سیٹوں پر الیکشن ہوچکا ہے اور لوگوں کی رائیں ای وی ایم میں بند ہوگئی ہیں۔ کون جیتے گا اور کون ہارے گا اس کا حتمی طور پر پتہ تو چار جون کو چلے گا۔ مگر ہر پارٹی اور گٹھ بندھن کے اپنے دعوئے ہیں۔ میں کوئی قیاس لگانے سے قاصر ہوں اس لیے میں چار جون کا انتظار کروں گا۔
جیت اور ہار عوام کے ہاتھ میں ہے اور کبھی کبھی عوام کے فیصلے اتنے چونکانے والے ہوتے ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ایسے بھی نتائج آسکتے ہیں۔ اگر اس الیکشن کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی لیول بیلٹنگ فیلڈ نہیں ہے۔ ملک کے اقتدار پر دس سال سے بی جے پی کا قبضہ ہے، اس کے پاس بے پناہ پیسہ ہے، اس کاایک منظم کیڈر ہے۔ میڈیا اس کے ہاتھوں بکا ہوا ہے، مودی جیسا کرشماتی لیڈر ہے پورا پولس اور سول ایڈمنسٹریشن اس کے قبضہ میں ہے اور باقی تمام پارٹیاں 11 کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں کھیل رہی ہیں جبکہ بی جے پی چودہ کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ تینوں الیکشن کمیشن اس کے بحال کردہ ہیں اور ان کا برہم ہست بی جے پی کے سر پر ہے۔ لہٰذا گمان غالب یہ ہے کہ بی جے پی کی جیت ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ ہاں اس کے برعکس رزلٹ آتا ہے تو 1975 میں ایمرجنسی کے بعد ہوئے الیکشن کے بعد یہ دوسرا موقع ہوگا جب کہ بھارتیہ مت داتا نے اپنی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہوگا اور اس طرح دیش کے دستور اور جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچالیا ہوگا۔ پورا ملک سانس روک کر 4 جون کا انتظار کررہا ہے۔
اس الیکشن کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب کہ بی جے پی نے پورے ملک میں ایک بھی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ الیکشن سے پہلے مودی جی نے پس ماندہ مسلمانوں پر داؤ چلنے کی بات کی تھی، اس سے امید کی جاتی تھی کہ کم سے کم کسی ایک سیٹ پر کسی پسماندہ مسلمان کو ٹکٹ دے کر وہ یہ تاثر دیں گے کہ وہ سبھی مسلمانوں کے خلاف نہیںہیں بلکہ پس ماندہ مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے حق میں ہیں۔ مگر نہ صرف انھوں نے کسی پسماندہ مسلمان کو امیدوار نہ بنایا بلکہ ان کو جو آرکھچن مل رہا ہے اس کو بھی چھین لینے کا کھلے الفاظ میں اعلان کردیا ہے۔ کم سے کم اب تو پسماندہ مسلمان قیادت کی نیند کھل جانی چاہیے اور طارق منصور، خواجہ الطاف، مولانا الیاسی اور بی جے پی اقلیتی مورچہ کے جو لوگ ہیں ان کی آنکھ کھل جانی چاہیے۔ نہ معلوم مختار عباس نقوی آج کل کہاں ہیں۔ عارفہ خانم شیروانی نے سید شاہ نواز حسین سے انٹرویو کے دوران پوچھا اُن کو ٹکٹ کیوں نہیں ملا؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں۔ تو شاہ نواز نے کہا کہ اگر محض مسلمان ہونے کی بنیاد پر ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ان کی رائے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دل کو بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے۔بی جے پی نے مسلم تشٹی کرن کی اتنی زور دار آندھی چلائی کہ ملک کی تمام دیگر پارٹیوںنے بہت کم مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو الیکشن کے اکھاڑے سے کھدیڑ کر باہر کردیا ہے۔ اس بار کے پارلیامنٹ میں سب سے کم مسلمانوں کی نمائندگی ہوگی اس لیے کہ بہت کم مسلمان امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ الیکشن بھارت کی الیکشنی تاریخ میںسیاہ حرفوں سے لکھا جائے گا۔ اس الیکشن میں بھارت کے وزیر اعظم شری نریندر مودی، وزیر داخلہ شری امت شاہ، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، ہیمنت وسو سرما اور پشکر سنگھ دھامی یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دستور اور آئین کا حلف لے کر ملک اور ریاست کی گدی سنبھالی ہے اور اس بات کی حلف لی ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے اور بنا دوسش، دربھاؤنا اور پچھپات کے تمام شہریوں کے ساتھ نیائے کریں گے۔ لیکن انھوں نے اپنی بدترین ہیٹ اسپیچ میں اپنے حلف کی دھجیاں اڑای دی ہیں اور ان پر الیکشن کمیشن اور عدالت نے کوئی کاروائی نہیں کی کیونکہ وہ شاید مسلمانوں کو شہری مانتے ہی نہیں ہیں، بلکہ خود وزیر اعظم نے گھس پیٹھیا کہا ہے۔ اس سے سی اے اے کا پس منظر واضح ہوجاتا ہے۔
اب تک ہم لوگ سمجھتے تھے کہ دھرم سنسداور کچھ چھٹ پھٹ چھٹ پھٹئے ٹائپ کے نیتا جو زہر اگل رہے ہیں یہ اپنے ہائی کمان کو خوش کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ یہ سب ہائی کمان کے اشارے پر ہورہا اور جب ہائی کمان کو لگا کہ وکاس کے نعرے کی گاڑی کی ہوا نکل چکی ہے تو انھوں نے اپنا اصلی اور رودر روپ دھارن کرلیا اور وزیر اعظم نے، امت شاہ نے اور ان کے ریاستی چیف منسٹروں نے مسلمانوں کے خلاف جس زبان کا استعمال کیا ہے اور جن جن ناموں سے ان کو پکارا ہے اس سے ان کا بغض و عناد واضح ہوکر سامنے آگیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی طرف سے دھرم یدھ شروع کردیا ہے۔
اس ماحول میں اگر ان کی جیت ہوتی ہے تو کسی کو اس بات پر شک نہیں ہونا چاہیے کہ اگلے پانچ سال مسلمانوں پر قیامت خیز گزرنے والے ہیں۔ پوری بی جے پی قیادت نے سرِ بازار اپنا جامہ اتار دیا ہے اور اپنی اصلی شخصیت اور اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کردیا ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
میں نہیں جانتا مسلمان قیادت اور عوام اس وقت کیا سوچ رہے ہیں لیکن ان کو سوچنا تو چاہیے۔ اس الیکشن کے بعد اعلیٰ قیادت کی ایک میٹنگ بلائی جانی چاہیے اور سب سے پہلا کام ملت کا حوصلہ نہ ٹوٹے اور وہ ڈر اور خوف سے آزاد ہوکر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ خوف آدمی کے اعصاب کوسلب کردیتا ہے اور اعصاب سلب ہونے سے سرینڈر یاخود کشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس سے بچنا ہے اور اس سے بچانا ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com, Mobile: 9934700848