Delhi دہلی

مشاہیر علماءکرام۔ مولانا عزیز الرحمن سلفی کی شاہکار تحریر

سابق استاذ و شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس کی نایاب تحریر

نئی دہلی (ریلیز : مطیع الرحمن عزیز) سابق شخ الحدیث و بزرگ استاذ تفسیر جامعہ سلفیہ بنارس شیخ مولانا عزیز الرحمن سلفی کی لگ بھگ دو رجن کتابوں میں سے ایک کتاب ”مشاہیر علماءکرام“ بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ والد گرامی شیخ مولانا عزیز الرحمن سلفی کی دو درجن کتابوں میں سے ”مشاہیر علماءکرام“ ایک ہے، جسے زیور طباعت سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک ”مشاہیر علماءکرام“ کی کمپوزنگ ، طباعت اور پروف ریڈنگ کے بعد اب اسے اس حالت میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے قارئین تشنگی پا سکیں۔ والد گرامی نے اپنی سوچ اور کد و کاوش سے لگ بھگ ڈیڑھ درجن کتابوں کو اپنی خدا داد ملکہ اور خود کے حوصلہ سے لکھ کر تحریری خزانے میں تیس چالیس سال سے رکھے ہوئے اس سوچ اور مایوسی کے عالم میں تھے کہ کبھی شاید ہی کوئی اس گراں قدر خدمات کو سمجھنے والا ہو، جو اسے زیور طباعت سے آراستہ کرسکے۔ کیونکہ آپ جس ادارہ اور جس تنظیم کے تحت کام کر رہے ہوں جب وہاں کے لوگ خود ساختہ بے تاج بادشاہ ہوں، خود پسندی کا یہ عالم ہو کہ دوسروں کے حق کو چھین کر اپنے نام سے نقل کی ہوئی تحریریں چھاپنے کا شوق ہو۔ ان سے اس سے زیادہ کی امید بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ ماہر انسان مہارت اور ہنرمندی کی قدر کرتا ہے، اور نالائق اور جاہل شخص اپنی تعریف سن کرغبارے کی طرح پھول جاتا ہے۔ اور اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قوم، مذہب اور مسلک ناخلف لوگوں کا گہوارہ اور قابل و ماہر لوگوں کے لئے بیرون کا راستہ دکھانے کا مترادف ہوتا ہے۔ آج ملک میں ہر ادارے اور ہر تنظیم کی یہی حالت ہے۔ جہلا کا بڑے بڑے عہدوں پر قبضہ ہے۔ تعریف پسند لوگوں کا کرسیوں پر بسیرا ہے، اور ان کے چاپلوس اراکین آگے پیچھے تعریفوں کے گنبد کھڑا کرکے انہیں خوش کر نے کی کوششوں میں اپنے دن رات خرچ کرتے ہیں۔
یہ معاملہ کسی ایک ادارہ یا کسی ایک تنظیم کا نہیں ہے۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ انجام گلستاں کیا ہو گا۔ میں نے الگ الگ اداروں اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ملک کے کئی جید علماءکرام سے ملاقات کی اور ان سے باتوں بات میں پوچھا، کہ شیخ آپ نے ان تحریروں کے بارے میں کیا سوچا ہے ، جو آپ نے اپنی قابلیت اور لیاقت سے تحریر کر کے کاغذ کے پرزوں پر رکھا ہوا ہے۔ موجودہ وقت آپ اپنے عہدے سے سبکدوش ہیں، مگر ان تحریروں کو شائع کرانے کی نا آپ میں وسعت ہے اور نا یہ کسی شخص کا ذاتی کام ہے۔ یہ اداروں اور تنظیموں کے کام ہوتے ہیں۔ تو میں نے ان علماءکرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھا۔ ایک شیخ سے جب انہیں الفاظ اور موضوع پر بات چیت شروع کی تو وہ شیخ کچھ دیر تک سکتے کے عالم میں میرا چہرہ دیکھتے رہے اور کچھ دیر بعد ٹھنڈھی سانس لے کر کھڑے ہوئے اور اپنے چھت کے برابر میں لگے ہوئے الماریوں کے پردے کو ہٹاتے ہوئے بولے کہ ”بیٹا یہ تمام کام میں نے اپنی محنت لگن اور جستجو سے کیا ہے، لیکن مجھے مکمل یقین ہے کہ میری موت کے بعد یہ کوڑے کرکٹ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اور ان کا کوئی پرسانِ حال تک ناہوگا“۔ لہذا میرے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ درد و کسک کسی ایک شیخ یا عالم دین کی نہیں ہے۔ پہلی بات تو جماعت اور اداروں میں کسی طرح کے کام پر حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر کسی عالم اور شیوخ نے اپنی ذاتی قابلیت اور حوصلے سے کچھ کام کر دیا ہے تو ان کا پرسانِ حال تو دور کی بات ہے کسی کو یہ گمان بھی نا ہوگا کہ ان کی کاوشوں کو کم از کم کتابی شکل یا کوئی دوسرا حفاظتی بندوبست کر دیا جائے، جس سے آنے والی نسلیں استفادہ کر سکیں۔
یہ سب درد و تکلیف اور جستجو و محنت میں نے والد گرامی کے ساتھ برسوں رہ کر دیکھا اور سنا ہے۔ اپنے ہم خیال لوگوں میں والد گرامی ہمیشہ اور آج بھی کہا کرتے ہیں کہ فلاں موضوع پر کام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فلاں شخص کی فلانی قابلیت کو جمع کرکے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ باتیں تو ان لوگوں کو سمجھ میں آئیں گی جو علمی ہنر و ملکہ رکھتا ہو، جاہلوں اور خود پسند لوگوں کو دوسروں کی محنت، قابلیت اور جدوجہد سے کیا لینا دینا؟ لیکن اس بات کا نقصان نہ صرف نسلیں اٹھائیں گی بلکہ قوم جذبہ اور حوصلہ اور قابلیت کے خودکفیل کاموں سے محروم ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ پچھلی نصف صدی میں علما ءکرام نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر الگ الگ ہنرمندیوں میں تصنیفی کام کیا کرتے تھے، آنے والی نسلیں ہمت جرئت اور حوصلہ اکٹھا کر سکیں گی، کیونکہ جس چیز کی حوصلہ افزائی نا ہو اس میں خاک چھاننا کون چاہے گا۔
الغرض والد گرامی شیخ مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی کی کاوشوں کی الگ الگ موضوعات پر تحریروں کو ہم نے طباعت کے زیور سے آراستہ کیا۔ دنیا بھر کی مدد طلب کی اور جس سے جو بن پڑا اس کی امداد اور تعاون سے تحریروں کے زنگ کھاتے کاغذوں کو سنہرے اوراق پر تبدیل کراکے شائع کرنے کی کوشش کی اور اس کے قدردان لوگوں تک پہنچا کر اپنے دل کو تسلی فراہم کی۔ آج والد گرامی شیخ مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی کا ’مشاہیر علماءکرام “ پر جمع کی گئی تحریروں کو شائع کرنے سے پہلے اپنے تاثرات لوگوں تک پہنچاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں، میں شکر گزار ہوں اللہ رب العالمین کا اور والد گرامی کا اور ان دوست احباب بڑے چھوٹے بھائیوں بہنوں کا جنہوں نے اس کوشش میں میری مدد کی۔ جن میں شیخ مولانا ابو الکلام صاحب سلفی، جناب شیخ محمد مصطفی صاحب سلفی، شیخ نوشاد بھائی سلفی اور بھائی شعیب الرحمن عزیز ودیگر تمام احباب کے چھوٹے بڑے مشوروں اور تعاون کیلئے جن میں شیخ مولانا ضیا ءالحق صاحب ریاضی، بھائی ارشد شریف صاحب، بھائی اطیع الدین، بھائی ذاکر حسین فلاحی، بھائی ایاز احمد خان ، بھائی زین العابدین اور بھائی اشفاق الرحمن اور دوستوں کا جنہوں نے گوں نا گوں میری ہر کوشش پر حوصلہ افزائیوں کے ذریعہ معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی۔

Related posts

عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی سنجے سنگھ نے عدالت میں تجویز پیش کی کہ دہلی میں ترقیاتی کام ایم پی فنڈ سے کرائے جائیں

Paigam Madre Watan

جاپان کے فوکوکا شہر اور دہلی کے درمیان دوستی کے تبادلے کے معاہدے میں تین سال کی توسیع: اروند کیجریوال

Paigam Madre Watan

منیش سسودیا کے چھٹے دن کا دورہ تری نگر اسمبلی میں "منیش سسودیا آ گئے، کیجریوال بھی آئیں گے” کے نعرے کے ساتھ شروع ہوا

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar