اویسی،سید اختر یا تین پالتو بندر۔ شہباز، یونس یا چاند
تحریر ……..مطیع الرحمن عزیز9911853902
یوں تو ہیرا گروپ کا معاملہ شروع ہوئے لگ بھگ پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کو ہے۔ بہت سارے معاملات میں ہیرا گروپ اور اس کی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ معاملے کو سلجھنے کی طرف یقین دہانی کر ارہی ہیں۔ ان کے مطابق دس فیصد لوگوں کو ہی سہی پیسے کی مکمل ادائیگی ہو چکی ہے۔ باقی لوگوں کے پیسے دینے کا ذمہ سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور ایک کمیٹی قائم کر کے تمام لوگوں کے پیسوں کی ادائیگی کی بات طے ہو چکی ہے۔ درمیان میں سپریم کورٹ سے جسٹس کشن کول جو تین سال ہیرا گروپ کی سماعت کر رہے تھے ان کا ریٹائرمنٹ ہو جانے کے بعد معاملہ کسی دیگر بنج پر جا پہنچا اور جسٹس چندر چورڈ جی نے ایک دو ہی بار معاملہ سنا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں نافذ ہو گئیں، اور اب نئی تاریخ کے انتظار میں ملک کے سرمایہ کار دن رات صرف کر رہے ہیں۔ ان باتوں کی معلومات ہیرا گروپ کے ہر سرمایہ کار سے لگ بھگ مل جاتی ہے۔ لیکن اب چونکہ پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ہیرا گروپ کی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ سے معاملے کی اگلی کارروائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اور بھی چونکانے والے خلاصے کئے جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارا معاملہ ملک کی کسی دیگر کمپنیوں کی طرح نہیں ہے کہ ہم پر آنا فانا جانچ ڈال دی گئی اور مجھے قید کر لیا گیا۔ دفاتر پر تالے ڈال دئے گئے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے کہا کہ میری کمپنی پر تالہ بندی کے دن تک کھلی حالت میں اور لین دین کا معاملہ کرتی رہی۔ اور نہ تو اس دن اور نہ آج ہم نے اس بات کا کوئی اعلان کیا ہے کہ ہم کمپنی بند کر رہے ہیںیا کمپنی خسارے میں ہے نا ہی ہمیں کوئی نقصان ہوا ہے۔ اللہ کا کرم ہے اس طرح کا دور دور تک شائبا نہیں ہے، اور ڈاکٹر نوہیرا شیخ یہاں تک دعوی کر رہی ہیں کہ میری کمپنی کے اتنے سالوں تک سازش میں ہونے اور ایجنسیوں کے ذریعہ ٹارچر کے ماحول گرم کئے جانے کے بعد بھی ہیرا گروپ آف کمپنیز نقصانات کے ایک روپئے کا بوجھ اپنے سرمایہ کاروں کے کندھوں پر نہیں ڈالے گی۔ کیونکہ یہ کمپنی سود سے پاک تجارت کے طور پر ابھر کر ہندستان میں نمودار ہوئی تھی اور چند سالوں میں اپنے بابرکت قدم پوری دنیا میں پہنچا کر کامیابی کے جوہر دکھانے میں سرخرو ہوئی۔ الحمد للہ۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے بتایا کہ اب رہی بات ان سب معاملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور کون لوگ ہیں جو کسی مقصد سے ہیرا گروپ آف کمپنیز سود سے پاک تجارت کو چلنے نہیں دینا چاہتے۔ تو آپ خود جائزہ لیں اور مجھ سے ملے تمام شواہد اور دستاویزات کے مطابق جانچ پڑتال کریں تو ذرہ ذرہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جائے گا۔ لہذا جانچ پڑتال اور ثبوتوں کے آدھار پر معلومات کی حد تک پہنچنے میں کامیابی ملی۔ جسے تمام دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے پیش کرکے حقیقت سے روشناس کرانے اور معاملے کی نزاکت کو افشا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں جھانکیں گے تو ہیرا گروپ آف کمپنیز نے 1998 میں اپنا سود سے پاک حلال تجارتی سفر تروپتی سے شروع کیا اور حیدر آباد کے مصعب ٹینک عافیہ پلازہ میں اپنا صدر دفتر قائم کیا۔ وہیں سے حیدر آبادی بلیک میلروں کے ناپاک جال اور سود سے ملمع مجلسی دلالوں نے کمپنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش شروع کردی۔ کمپنی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے مضبوط عزائم اور ٹھوس فیصلے کے بموجب ہر ناپاک چیلنجز سے مضبوطی سے نمٹا گیا۔ کمپنی ترقی کرتی رہی اور لگ بھگ پانچ سال کے اندر ہیرا گروپ نے حیدر آباد میں اپنی تجارتی قدم مضبوط کر لئے تھے۔ 2008 میں مقامی لیڈروں اور زمین مافیاﺅں کی طرف سے ہیرا گروپ آف کمپنیز پر اس بات کا پریشر آنے لگا کہ کمپنی کے منافع رقم میں فیصدی حصہ داری یعنی (ہفتہ) مقرر کیا جائے۔ بطور غنڈہ وصولی یا بھائی گیری ٹیکس کے۔ جس کو کمپنی بورڈ آف ڈائرکٹر نے سرے سے نکارتے ہوئے منع کر دیا۔ 2010 میں چہرہ کھل کر سامنے آیا اور مقامی لیڈر اسد اویسی نے ہیرا گروپ آف کمپنیز میں پارٹنر شپ کی اپیل دائر کی اور اس بات میں منع ہونے پر زور زبردستی کے پنجے آزمانے شروع کردئے۔ دھمکیوں کے معاملے کو دو سال تک طول دیا گیا اور 2012میں اسد اویسی نے ایک اخبار میں شائع اشتہار کو بنیاد بنا کر مقدمہ درج کرایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ کمپنی بے بنیاد حقائق پر کام کر رہی ہے۔ سرکاری مشنری نے چونکہ ممبر پارلیمنٹ اور بیرسٹر اسد اویسی کی جانب سے مقدمہ درج کیا گیا تھا اس لئے اور بہت کچھ ہونے کے سبب بڑی سخت دلی اور بے رحمی کے ساتھ جانچ پڑتال کیا گیا، یہاں تک کہ جانچ پڑتال ظلم کے حد تک پہنچ گیا۔ ہیرا گروپ آف کمپنیز سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے بیرسٹراسد اویسی ممبرپارلیمنٹ کے ذریعہ قائم کیا گیا مقدمہ جیت لیا اور اسداویسی ممبر پارلیمنٹ کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا۔ جواب میں اسد اویسی پر نیا مقدمہ ہتک عزت سو کروڑ ہرجانے کا دائر ہو ا، اور بیرسٹر اسد اویسی کے گلے کی ہڈی ان کے خود کے دائر کئے گئے آیف آئی آرکے جواب میں بیٹھے بٹھائے ہتک عزت مقدمہ آفت مول لے لی۔ کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے۔ اسد اویسی شکست سے دو چار جلے بھنے ہوئے گھوم رہے تھے۔ اسی درمیان میں 2015 میں فروخت کی گئی زمین جس کا سابقہ مالک سید اختر ایس اے بلڈرس تھا۔ سید اختر ایس اے بلڈرس نے ایس اے کالونی کے نام سے حیدر آباد ٹولی چوکی کی یہ بڑی زمین 150کروڑ روپیہ میں ہیرا گروپ کو فروخت کی۔ حیدر آباد کے زمین مافیاﺅں اور مقامی لیڈران کا زمین قبضہ کا کھیل بہت عام دیکھا گیا ہے۔ کسی بھی زمین کی موجودہ قیمت کے حساب سے جائیداد کو فروخت کیا جاتا ہے۔ پھر چار چھ سالوں میں جب اس زمین کی قیمت بڑھ کر کچھ سے کچھ اور ہو جاتی ہے تو اس کے موجودہ مالک سے ان زمینوں کو واپس اسی قیمت پر فروخت کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا جاتا ہے۔ اگر وہ موجودہ زمین مالک زمین کو پرانی قیمت پر فروخت کر دیتا ہے تو ٹھیک ورنہ اسے قید و بند کی دھمکی دے کر مرعوب کیا جاتا ہے۔ وگرنہ لیڈر شکتی اور انتظامیہ گٹھ جوڑ سے قید کراکے اسے دیوالیہ قرار دے کر زمین کی قرقی کرا کے حیدر آبادی زمین مافیا خود خرید لیتے ہیں کیونکہ انتظامیہ اور مقامی لیڈران ساجھیداری حمایتی اور مددگار ہوتے ہیں۔ لہذا سید اختر ایس اے بلڈرس نے بھی ہیرا گروپ کے ساتھ یہی کھیل کھیلا۔ جب کامیاب نہ ہوا تو مقامی لیڈران سے گٹھ جوڑ کے بعد انتظامیہ کو ہاتھ میں لیا اور پولس کمشنر انجنی کمار کو اپنی طرف ملا کر کھیل کھیلا گیا۔ اسد اویسی شکست سے دو چار پہلے ہی تلملائے بیٹھا تھا۔ سید اختر اور اسد اویسی نے ایک دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو گرفتار کرا دیا۔ اس بات سے اسد اویسی کو فائدہ یہ پہنچا کہ 2017 میں ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے سیاسی جماعت کا قیام کیا ۔ یہ قدم حیدر آبادی سرزمین سے ہونے کے ناطے مجلس اتحاد المسلمین اور اسد اویسی کے جاگیر دارانہ نظام کی تابوت میں آخری کیل تھا۔ لہذا گرفتاری سے اسد اویسی کو تھوڑی راحت ہوئی کہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ بیک فٹ پر آگئیں اور دوسری جانب سید اختر نے ایس اے کالونی کی ان جائیدادوں پر جو کہ ہیرا گروپ کی ملکیت تھی ، قبضہ کرنا، بلڈنگیں بنانا اور لیز پر زمینوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ ہیرا گروپ آف کمپنیز سرمایہ کاری کے نظام اور عوامی رابطے کے سبب دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے، اور ڈاکٹر نوہیرا شیخ اپنی فلاح و بہبود کے معاملے میں مقبولیت کی بلندیوں پر فائز تھیں۔ اسد اویسی اور سید اختر نے عوامی طور پر ہیرا گروپ آف کمپنیز اور ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو نقصان پہنچانے کیلئے بدنام زمانہ مجرم پیشہ شہباز احمد خان کا تعین کیا۔ جس نے یوٹیوب کے ذریعہ لوگوں کے جذبات سے کھیلا اور زیادہ سے زیادہ ایف آئی آر کرانے کیلئے ملک گیر پیمانے پر مہم چلائی۔ پیشے سے بے روزگار اور عوامی طور پر مجرم شبیہ شہباز خان جس کے گھر میں کھانے کیلئے روٹی نہیں وہ ملک کے الگ الگ مقامات پر پہنچ کر مفت لیگل مدد دیتا پھر رہا تھا اور اس بات کا برملہ اظہار کرتا رہا کہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ ایک جگہ سے بازیاب ہوں گی دوسری جگہ ایف آئی آر کراکے قید کرا دیا جائیگا۔ معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ متعینہ ٹارگیٹ مکمل ہوجانے کے بعد سے لگ بھگ دو سال کی مدت سے شہباز احمد خان بیرون ممالک امریکہ، لندن، جرمنی، سعودی عرب اور دبئی جیسے ممالک میں بڑی شان و شوکت سے گھوم پر پھر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے آقاﺅں نے بے انتہا مال و دولت سے نوازا نہ ہوتا تو بھلا ایک بے روزگار شخص کیلئے یہ سب کیسے ممکن تھا۔ یونس سید۔ پیشے سے بے روزگار۔ نشہ آور اشیاءکا استعمال کرنے والا۔ گھریلو معاملے میں ناکام ۔ بیوی بچوں کے خرچ تک نا کما پانے والا، ایک اپاہج اولاد کی دوا علاج نا کرا پانے والا ممبئی میںہیرا گروپ کے سامایہ کاروں کو ورغلانے بہکانے کے کام کرتا رہا۔ حالانکہ یونس سید نشیڑی گجیڑی کا ذریعہ معاش کیا ہے، کوئی اس بات سے پردہ نہیں اٹھا سکتا ۔ ظاہر سی بات ہے آقاﺅں نے یونس سید کو فائنانشیل سپورٹ نا کر رہے ہوتے تو عام انسان کیلئے تو زندگی کا ایک دن بھی گزرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دلال چاند۔ یہ شخص بھی پیشے سے بے روزگار اور بیک گراﺅنڈ سے سماجی مجرم ہے۔ سرکاری دفاتر میں مخبری اور لوگوں کے معاملات میں بچولئے کا کام کرنے والا چاند بھی ہیرا گروپ کے دشمنوں کا آلہ ¿ کار ہے۔ بیوی اور دو بیٹیوں کو چھوڑ کر انہیں زمانے کے رحم و کرم پر لات مار دینے والا چاند نامی شخص ملک بھر میں گھوم پھر کر ہیرا گروپ سرمایہ کاروں کو سرکاری محکمہ جات میں جانے اور ایف آئی آر پر اکساتا اور لوگوں سے دلالی رقم لے کر جلد از جلد پیسے دلانے کی بات کرکے اپنا جیب خرچ کا بندوبست کرتا ہے۔ کل ملا کر جتنے بھی مجرم پیشہ ور لوگ ہیں، چاہے وہ سامنے سے لڑنے والے ہوں یا پشت پر وار کرنے والے ۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کہتی ہیں اگر ان سب کا احتساب نہ کیا تو مظلوم کے ساتھ نا انصافی ہوگی، لہذا ہر کسی کا حساب ہوگا۔ تاکہ عبرت کا نشان بنے۔