حیدرآباد، (پریس نوٹ) اسکول برائے السنہ لسانیات و ہندوستانیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی طرف سے ایک توسیعی خطبہ بہ عنوان ”ہندوستانی تہذیب اور اردو شاعری“ کا انعقاد کیا گیا۔ ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور جناب شمیم طارق نے یہ خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری اور اردو تہذیب میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ زبان کو سمجھنے کے لیے تہذیب کو سمجھنا ضروری ہے۔ کثرت میں وحدت ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانیت کی روح ہے۔ ہمارے ملک کی تاریخ کے ہر دور میں اختلاف میں اتفاق کے نمونے ملتے ہیں۔ جناب شمیم طارق نے عہد قدیم سے دورِ حاضر تک کے شعرا کے کلام میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نشاندہی کی۔
پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نہ صرف اردو زبان بلکہ اردو اور مشترکہ تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اردو کی پوری شاعری ہندوستانی تہذیب کے متنوع رنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ دکنی شعرا نے ہندی و سنسکرت کے علاوہ دیگر علاقائی الفاظ سے اردو کا دامن وسیع کیا۔ جگنو بھی سنسکرت کا لفظ ہے۔ ایسے الفاظ کی کثیر تعداد ہے جو آج اردو کے ہوگئے ہیں۔ ہندوستان ایک بے حد متنوع ملک ہے اور اس کے متنوع کلچر کی مکمل نمائندگی اردو زبان کرتی ہے۔
ابتداءمیں پروفیسر عزیز بانو، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے خیر مقدمی تقریر کی۔ انھوں نے جناب شمیم طارق کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اس اہم موضوع پر خطاب کے لیے ممبئی سے مانو کیمپس حیدرآباد تشریف لائے۔
اس موقع پر صدر شعبۂ اردو اور پروگرام کے کوآرڈنیٹر پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے موضوع اور مہمان کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زبان نے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طئے کیں اور ہندوستان میں لنگوا فرینکا بن گئی۔
جلسے میں پروفیسر صدیقی محمد محمود اور مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر فیروز عالم، اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو نے کی اور اظہارِ تشکر کا فریضہ ڈاکٹر افتخار احمد، اسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ فارسی نے ادا کیا۔
پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نہ صرف اردو زبان بلکہ اردو اور مشترکہ تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اردو کی پوری شاعری ہندوستانی تہذیب کے متنوع رنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ دکنی شعرا نے ہندی و سنسکرت کے علاوہ دیگر علاقائی الفاظ سے اردو کا دامن وسیع کیا۔ جگنو بھی سنسکرت کا لفظ ہے۔ ایسے الفاظ کی کثیر تعداد ہے جو آج اردو کے ہوگئے ہیں۔ ہندوستان ایک بے حد متنوع ملک ہے اور اس کے متنوع کلچر کی مکمل نمائندگی اردو زبان کرتی ہے۔
ابتداءمیں پروفیسر عزیز بانو، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے خیر مقدمی تقریر کی۔ انھوں نے جناب شمیم طارق کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اس اہم موضوع پر خطاب کے لیے ممبئی سے مانو کیمپس حیدرآباد تشریف لائے۔
اس موقع پر صدر شعبۂ اردو اور پروگرام کے کوآرڈنیٹر پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے موضوع اور مہمان کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زبان نے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طئے کیں اور ہندوستان میں لنگوا فرینکا بن گئی۔
جلسے میں پروفیسر صدیقی محمد محمود اور مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر فیروز عالم، اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو نے کی اور اظہارِ تشکر کا فریضہ ڈاکٹر افتخار احمد، اسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ فارسی نے ادا کیا۔