لکھنؤ : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام گومتی ریور فرنٹ پارک لکھنؤ میں مظفر علی سے ملاقات اور شام غزل /صوفیانہ کلام کے نام سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقعے پر مشہور فلم ساز مظفر علی نے کہا کہ اودھ کی جو پہچان گم ہوتی جا رہی تھی ہم نے اس کی پہچان بحال کرنے کی کوشش کی، ادب اور فلم کا مقصد احساس کو جگائے رکھنا ہے ، ہمیں اپنے آپ کو آنے والے کل کا باشندہ بنانا چاہیے، فنکار کو احترام سے دیکھنا چاہیے انھوں نے مزید کہا کہ کلا کے لیے ریسرچ سب سے بڑی چیز ہے، پینٹنگ میری غذا ہے،فرس نامہ میرا شوق ہے،ویژیول لنگویج سے ہم دور نہیں ہو سکتے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہر وقت میرے ذہن میں فلم گھومتی رہتی ہے، میں آوازیں اور چیرے تلاش کرتا رہتا ہوں، کہ چہرے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، میرے نزدیک فلم سازی بہت اہم سفر ہے فلم بنانا ترک نہیں کرنا چاہیے، ہر کلاکار میرے لیے بہت بڑا فنکار ہے، اس موقع پر ڈاکٹر شمس اقبال ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے خیر مقدمی کلمات کہے اور مظفر علی کے فنکارانہ شخصیت اور فلمی سفر پر بھی روشنی ڈالی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر منتظر قائمی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔ اس کے بعد شام غزل /صوفیانہ کلام کا اہتمام کیا گیا جس میں مشہور غزل اور صوفی سنگر محترمہ اندرا نائک نے اپنی گائیکی سے سامعین کو محظوظ کیا۔