بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)اردو ادب کے شہر لکھنؤ میں سہ ماہی ادبی نشیمن کے آفس ( الماس باغ ) میں گزشتہ اتوار کو حلقۂ ادب اور ادبی نشیمن کے اشتراک سے افسانہ و شاعری کی محفل کا انعقاد ہوا۔ نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ بعد ازیں سلیم تابش نے اپنی خوبصورت آواز میں نعت پاک کے ذریعہ حاضرین کے قلب کو گرمایا۔
زندگی واقعی معتبر ہو گئی نعت کہنے کی جب سے سعادت ملی
سوچ سکتا نہیں یہ زمانہ کبھی رب کی جانب سے تابشؔ کو کیا مل گیا
پروفیسر مجاہد الاسلام فلاحی مجلس کی صدارت کا فریضہ انجام دے رہے تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری تاج لکھنوی نے سنبھال رکھی تھی۔ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر اقبال حسین قریشی ( مدیر رنگ ) اور پروفیسر مقبول منظر صاحبان جھارکھنڈ کی سرزمین سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ تبصرے کے لیے ڈاکٹر وصی احمد اعظم انصاری (اسسٹنٹ پروفیسر خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی) کو دعوت دی گئی تھی۔
عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ شعر و شاعری کی محفلیں تو خوب سجتی ہیں لیکن افسانہ یا نثری ادب کے پیش کش کے لیے کسی طرح کی مجلس نہیں لگتی۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر ڈاکٹر عافیہ حمید( بانی و صدر حلقۂ ادب ) گزشتہ ایک برس سے وقتًا فوقتًا افسانہ کی محفل سجاتی رہی ہیں۔ یہ پروگرام اس کوشش کی چوتھی کڑی تھی۔ اس سفر میں حلقۂ ادب کو روز اول سے ہی ڈاکٹر سلیم احمد( مدیر سہ ماہی ادبی نشیمن ) کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
حلقۂ ادب کا مقصد افسانوی ادب یا نثری تخلیق کاروں کو محض ایک پلیٹ فارم فراہم کر دینا ہی نہیں بلکہ نئے تخلیق کاروں اور ادب کے ماہر و مشاق اساتذہ کو یکجا کر کے دونوں کے درمیان ایک برِج تیار کرنا بھی ہے تاکہ نئے تخلیق کاروں کی رہ نمائی اور تربیت ہو سکے۔ مزید یہ کہ سطحی اور پھوہڑ ادب کے بالمقابل ادب عالیہ اور اسلامی ادب کا فروغ بھی اس فورم کے اہم مقاصد میں سے ہے۔
حفل میں سب سے پہلا افسانہ عطیہ بی نے پیش کیا۔ ان کے افسانے کا عنوان کالا سایا تھا جس کی کہانی ایک ایسی خاتون کے ارد گرد گھومتا ہے جسے کمتر رنگ روپ کی وجہ سے مسائل اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد عبید غازی نے غزل پیش کی۔
مِلے ہیں زخم ان سے جو کبھی ہم کو یہ کہتے تھے
سبھی دُکھ درد اور تکلیف ہم بانٹیں گے آپس میں
پھر ڈاکٹر عافیہ حمید نے ” کاغذ کی روٹی“ کے عنوان سے افسانہ پیش کیا جو غربت و افلاس کی انتہا کی منظر کشی کر رہا تھا۔ ان کا افسانہ بہت شاندار تھا۔ اِس کے بعد نوجوان تخلیق کار تزکیہ بانو نے ایک عمدہ غزل اور ایک آزاد نظم پڑھی۔ اس کے بعد مینا عرفان نے حالات حاضرہ کی عکاسی کرتا ہوا ایک خوبصورت افسانہ ” تضاد “ پیش کیا۔ یہ افسانہ لو جہاد کے پس منظر میں تھا۔ پھر تیمور احمد نے غزل اور نظم پڑھی۔ موقع سازگار دیکھتے ہوئے نظامت کر رہے تاج لکھنوی نے بھی غزل اور نظم سے سنا کر داد تحسین وصول کیا۔ ان کے بعد بزرگ افسانہ نگار محسن عظیم انصاری کو دعوت سخن دی گئی۔ انھوں نے ”طوطی چشم“ کے عنوان سے ایک بہترین افسانہ پیش کیا اور ساتھ ہی ایک غزل بھی گنگنائی ۔۔۔۔۔ تیری میری بات الگ۔ بعد ازیں عامر مختار نے بھی خوبصورت منظوم کلام سامعین کے گوش گزار کیا۔ اس کے بعد کانپور سے تشریف لائے ہوئے کامیاب افسانہ نگار جاوید ساحل نے ایک نئی دنیا کی سیر کراتا ہوا افسانہ ”آکٹوپس“ کے عنوان سے پیش کیا۔ انداز پیش کش اور تخلیق دونوں ہی بہترین تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے ایک معیاری غزل بھی سنائی۔
زندانِ جاں کی قید سے وہ یوں جدا ہوا
جیسے کہ پھول شاخ سے کوئی جدا ہوا
اِس کے بعد سلیم تابش نے خوبصورت اور مترنم آواز میں غزل سنا کر محفل میں سماں باندھ دیا۔
پروگرام کے درمیان چائے اور ناشتے کا نظم بھی تھا ۔
اس کے بعد بزرگ اور سینیر افسانہ نگار جہاں آرا سلیم نے ”سکندر جان“ کے عنوان سے افسانہ پیش کیا جس میں طوائف خانے اور کوٹھے کے سماج پر اثرات کو خوبصورتی سے دکھایا۔ اس کے بعد پروگرام کی سرپرستی فرما رہے ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک افسانچہ ” گھر واپسی“ پیش کیا۔ افسانہ مختصر مگر فکر انگیز تھا۔ اس کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر اقبال حسین قریشی نے ایک عمدہ کلام پیش کیا۔
دوسرے مہمانِ خصوصی پروفیسر مقبول منظر نے بھی عمدہ اور لاجواب غزلیں سنائیں۔
افسانوں اور شاعری کا یہ حسین سلسلہ یہیں پر اختتام کو پہونچا۔ اس کے بعد تبصرہ فرمانے کے لیے ڈاکٹر وصی احمد اعظم انصاری کو مائک تھمایا گیا۔ ڈاکٹر وصی احمد نے پیش کردہ سبھی منثور و منظوم تخلیق کو سراہا علاوہ ازیں اس طرح کی محفل سجانے پر ذمہ داران کو مبارکباد بھی پیش کیا۔ آپ نے خاص طور سے افسانے کی تکنیک اور فنی باریکیوں پر بڑا ہی جامع اور علمی تبصرہ کیا۔ آخر میں پروفیسر مجاہد الاسلام فلاحی نے صدارتی کلمات کہے۔ انھوں نے اس تخلیقی پروگرام کو سراہتے ہوئے کہا: حقیقت یہ ہے کہ تنقید ہمیشہ تخلیق کے پیچھے چلتی ہے لیکن اب اردو ادب میں معاملہ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں انگریزی لٹریچر کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ وہاں تخلیق پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ اردو ادب میں تنقید و جائزے کے ورک پر زیادہ توجہ رہتی ہے۔
نشست کے آخر میں بانی و صدر حلقۂ ادب ڈاکٹر عافیہ حمید نے ادبی نشیمن اور اپنے فورم کی جانب سے تشکر کے کلمات کہے۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے صدرِ مجلس، اساتذہ و ذمہ داران، مہمانانِ خصوصی اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔