تصنیف:مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)
۲۰۰۰ء میں جامعہ میں یہ طے ہوا کہ نواب صدیق حسن خاں قنوجی پر ایک سیمینار منعقد کیا جائے اور اس کے اخراجات احیاء التراث کویت کے ذمہ ہوگا۔ چنانچہ اس کی معلومات کے لیے مختلف جہات میں سفر کرنا تھا۔ اس کے لیے مختلف ٹیمیں بنائی گئیں، اور سب اپنی طور پر تیار تھیں، مجھ کو شیخ اصغر کے ساتھ کلکتہ کے سفر پر لگایا گیا، ادھر ادھر ہوٹل میںکمرے کی معلومات کی، مگر رہائش کے لائق کمرہ نہیں مل سکا ، مجبورا مولوی ذکی اختر مدنی کے پاس لال مسجد میں ٹھہرایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور اپنے کمرے میں ٹھہرایا۔ جب کام کرنا شروع ہوا تو پہلے وہیں لال مسجد کے پاس ایک لائبریری تھی اس کو دیکھا گیا، وہاں نواب صاحب کی کوئی تصنیف نہ ملی۔ پھرحاجی لگاں کی عبد اللہ لائبریری کو دیکھا گیا، وہاں نواب صاحب کی اردو تفسیر ترجمان القرآن کی کئی جلدیں ملیں اور کوئی کتاب نہ مل سکی۔ پھر ایشیاٹک سو سائٹی کی لائبریری دیکھا گیا۔ اس کے لائبریرین بڑے تپاک سے ملے۔ مولانا عبد الخالق بھی وہیں ملے جو ہم لوگوں کو سن کر چلے آئے تھے۔ یہاں پورا رجسٹر ہمارے حوالہ کر دیا گیا۔ رجسٹر دیکھا تو معلوم ہوا کہ جامعہ سلفیہ کی ساری مطبوعات وہاں موجود ہیں، مگر نواب صاحب کی چند کتابیں ہیں۔ لائبریرین صاحب نے بتایا یہ ٹیپو سلطان کا کتب خانہ ہے، جو سامنے دور تک لگا ہے۔ آپ لوگ کتابوں کی حفاظت کیسے کریں گے، یہاں سارے انتظامات موجود ہیں، ہفتہ میں دو بار ان کتابوں پر اسپرے کیا جاتا ہے۔ تب کتابیں محفوظ رہتی ہیں۔ پھر نیشنل لائبریری دیکھنے گئے اور دربان کے ذمہ داروں میں ایک نے اردو عربی کتابوںکے پاس پہنچا دیا ۔ اور کہا آپ لوگ آرام اور احتیاط سے دیکھیں جو کچھ ہے وہ یہیں ہے۔ ہم لوگ دیکھنے لگے تو کچھ نوجوان ملے جو اسلامیات کا مطالعہ کر رہے تھے ، انہوں نے کچھ باتیں ہم لوگوں سے پوچھیں۔ شام تک لگ گیا۔ سرشام واپس قیام گاہ پہنچے ۔ پھر ہائوڑا گئے ، نئی برج جو پرانے پل کے مقابل شمال دکھن بنایا گیا تھا۔ ہگلی کا وہ پل دیکھا جو کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ اور پانی کا جہاں لنگر انداز ہوکر لوڈ ہوتا ہے۔ اور جہاز لوڈ ہونے کے بعد اسی پل سے نکل کر سمندر میں جاتا ہے۔ دو تین جگہ دعوتیں ہوئیں، ایک مسجد میں مغرب بعد پروگرام ہوا ، مولوی اصغر کی تقریر کے بعد باری میری تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اہل حدیث اپنے مسلک پر بہت سخت ہیں اور یہ سب نئے نئے نوجوان ہیں اور نئے اہل حدیث بھی ہیں ، میں نے یہی موضوع اختیار کیا اور کہا ہر ہر بات اور ہر عمل میں نرمی مقدم رکھنا چاہئے ورنہ سختی سے اس کا رد عمل نامناسب ہوگا۔ تقریبا ایک گھنٹہ تقریر ہوئی پھر عشاء کی نماز پڑھ کر دعوت کے لیے گئے، جہاں پٹنہ ہائڈ کمپنی ہے۔ پہلے کھانا کھلایا۔ پھر اپنے مخصوص بستر پر بٹھایا۔ ان کے دل میں جو سوالات تھے اسے پیش کیا، ان کے سوالات کے تشفی بخش جواب اپنی بساط کے مطابق دیا گیا، بہر حال لوگ مطمئن نظر آئے ، پھر ہم لوگوں کو لال مسجد کو لکولہ تک پہنچایا۔ کلکتہ میں اس وقت دو آدمی بڑا اچھا کام کر رہے تھے۔ ایک ذکی اختر مدنی، دوسرے محمد معروف سلفی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ ایک دن مولوی ذکی اختر اپنے مدرسہ میں تیلنی پاڑہ لے گئے، بڑا اچھا ایریا ہے، تمام طرف ہریالی ہی ہریالی ہے، ناریل کے درخت بہت کثیر تعداد میں موجود ہیں، شام کو واپسی کلکتہ کے لیے ہوئی۔ پھر دوسرے دن واپسی کے مقصد سے پٹنہ کے لیے ٹکٹ تھا، بول بم والوں کے آتے جاتے بھیڑ تھی، راستہ میں ان کا تیرتھ استھان تھا، جہاں ٹرین سے اتر کر جنگل اور پہاڑی کا سفر پچاس کیلو میٹر پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔ سنا ہے اسی جنگل اور پہاڑیوں میں تھک کر یا شام کو سو جایا کرتے ہیں، اس میں عورتیں بھی رہتی تھیں اور مرد بھی۔ وہاں سے بھیڑ مزید بڑھ گئی، کھڑے ہونے کی سلیپر میں بھی جگہ نہیں رہ گئی ، بڑا مشکل بھرا سفر پٹنہ تک رہا۔ وہاں اتر کر پہلے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ مگر مولوی اصغر کے ایک دوسرے رشتہ دار نے وہاں رہنے نہ دیا۔ اپنے یہاں بلایا ، کھانا کھا کر خدابخش لائبریری گئے۔ منیجر سے ملاقات کے بعد لائبریری دیکھا نواب صاحب کی بہت کم کتابیں وہاں تھیں۔ پھر قیام گاہ واپس آئے۔ شام کا کھانا کھا کر آرام کیا صبح نماز سے ابھی فارغ ہوئے تھے کہ شیخ احمد مجتبی کا ٹیلی فون موصول ہوا کہ چمپارن آجائو، شیخ عبد الرحمٰن پریوائی تشریف لائے ہیں۔ مولوی اصغر مجھے ساتھ لے کر چمپارن کے لیے بذریعہ بس روانہ ہوئے۔ شام تک وہاں پہنچے، پہلا قیام شیخ احمد مجتبی کے گھر تھا۔ وہاں رات بسر کی، پھر دوسری جگہ کے دورے اور دعوتیں رہیں، مولوی اصغر کے بڑے بھائی نے مجھ سے نظم پڑھنے کی فرمائش کی اور نامزدگی کر کے بتایا کہ یہ نظم پڑھو’’گلشن مجھ کو راس نہ آئے‘‘۔ بہر حال وہ نظم پڑھی ، بہت پسند کی گئی۔ میرے کپڑے سارے گندے ہوچکے تھے۔ مولوی اصغر کے بھانجے ابو شاد سلفی نے سارے کپڑے دھلائے اور پریس وغیرہ کرکے لائے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے آمین۔ قریب ایک ہفتہ سے زیادہ ہی وہاں رہنا پڑا۔ نیپال کی سرحد سے لے کر جھلکا (صاحب دیوان) کاشن مسلم صاحب کے وطن تک گھمایا، چند بار مدرسہ پر بھی لے گئے، وہاں دوپہر اور شام کا کھانا کھلایا۔ پھر شام کو مغرب کی نماز پڑھی گئی ، اس کے بعد رات کو آرام کیا پھر سویرے پچھلے پہر اسٹیشن لائے۔ کچھ مسافت طے کی۔ پھر وہیں ایک صاحب نے ناشتہ کرایا۔ پھر گورکھپور کی ٹرین ملی، پھر انٹر سٹی سے بنارس پہنچے، مولوی اصغر کے ساتھ اس سفر میں خوب ٹہلنے کا موقع ملا۔ پورا مغربی چمپارن گھوم لیا اور بعافیت بنارس پہنچ گئے۔ الحمد للہ