Articles مضامین

شربتِ روح افزا: تاریخ سے تنازع تک

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ، مہاراشٹر)

برصغیر پاک و ہند کا ہر دل عزیز، یاقوتی رنگت والا مشروب، روح افزا، حال ہی میں ایک شدید تنازعے کی زد میں آ گیا ہے۔ گلاب کی مہک اور تازگی بخش ذائقے والا یہ روایتی شربت، جو نسلوں سے شدید گرمی میں تسکین کا باعث اور رمضان المبارک کی تقریبات کا لازمی جزو رہا ہے، اب سوامی رام دیو کے متنازعہ ”شربت جہاد” کے دعوے کے بعد ایک تلخ بحث کا محور بن چکا ہے۔
روح افزا کی داستان کا آغاز سنہ 1907ء میں غیر منقسم ہندوستان کے قلب، پرانی دہلی کی گلیوں سے ہوتا ہے، جہاں حکیم حافظ عبدالمجید نے اپنے چھوٹے سے یونانی کلینک، جو محض ایک سال قبل 1906ء میں قائم ہوا تھا، میں اس بے مثال مشروب کو پہلی بار ترتیب دیا۔ یہ کلینک ‘ہمدرد’ کے نام سے موسوم ہوا، ایک ایسا نام جس کا مفہوم ‘دکھ درد کا ساتھی’ ہے اور جو عام لوگوں تک روایتی یونانی طب کو پہنچانے کے ان کے مشن کی بخوبی عکاسی کرتا تھا۔ خود ‘روح افزا’ کا نام بھی، جس کا ترجمہ ‘روح کو تازگی بخشنے والا’ بنتا ہے، اس فرحت بخش مرکب کے لیے ایک انتہائی موزوں نام تھا، جس نے آگے چل کر پورے برصغیر کے ذائقوں کو اپنا اسیر بنا لیا۔ جو شے ایک طبی نسخے کے طور پر شروع ہوئی تھی، وہ جلد ہی اپنی طبی حیثیت سے کہیں بلند ہو کر جنوبی ایشیا کے ثقافتی منظرنامے کا ایک اٹوٹ انگ بن گئی۔ اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل سنہ 1945ء میں دریا گنج میں روح افزا کی پہلی باقاعدہ فیکٹری کا قیام عمل میں آیا۔
حکیم حافظ عبدالمجید کے انتقال کے بعد، ان کا ورثہ ان کی اہلیہ اور دو بیٹوں نے پوری ذمہ داری سے سنبھالا۔ پھر 1947ء آیا، جب برصغیر پاک و ہند کی تقسیم نے روح افزا کی تاریخ میں بھی ایک گہری لکیر کھینچ دی، بالکل اسی طرح جیسے خطے کو تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک بیٹا، حکیم عبدالحمید، دہلی میں ہی رہے، جبکہ دوسرے، حکیم محمد سعید، نے پاکستان کی راہ لی۔ اس وقت کے جذبات اور فیصلے کی بازگشت حکیم عبدالحمید کے پوتے، عبدالمجید کے الفاظ میں سنائی دیتی ہے، جب وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ”1947 میں، خاندان کا بڑا حصہ پاکستان چلا گیا۔ صرف میرے دادا، حکیم عبدالحمید، اور ان کے دو بیٹے یہاں رہ گئے۔ یہاں تک کہ جب ان کے چھوٹے بھائی، حکیم محمد سعید، پاکستان گئے، تو میرے دادا نے کہا، ”میں بھارت نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہ میرا وطن ہے۔” ان کے اس قول میں اپنے وطن سے ان کی گہری محبت اور وابستگی صاف ظاہر تھی۔
خاندان کی اس تقسیم کے نتیجے میں دونوں ممالک میں ہمدرد کے الگ الگ ادارے قائم ہوئے۔ بعد ازاں، 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ، ڈھاکہ کی شاخ ‘ہمدرد لیبارٹریز (وقف) بنگلہ دیش’ میں تبدیل ہوگئی۔ خود مختار اداروں کے طور پر کام کرنے کے باوجود، یہ تینوں ادارے قومی سرحدوں سے ماورا، روح افزا کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے، بڑی حد تک یکساں مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ تینوں ممالک میں یہ مشترکہ ورثہ اس بے مثال مشروب کی لازوال مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کرنے والی سیاسی سرحدوں کے باوجود، روح افزا ایک مضبوط ثقافتی رشتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ قومی حدود سے بلند ہو کر وہ شکل اختیار کر گیا ہے جسے کئی لوگ بھارت اور پاکستان کے درمیان ”مشترک خورد و نوش کا ورثہ” قرار دیتے ہیں۔ اس کا امتیازی سرخ رنگ اور منفرد ذائقہ ان خطوں کے لوگوں میں یکساں طور پر خوشگوار یادیں تازہ کرتا ہے، اور ایسے خطوں میں ایک نایاب قدرِ مشترک پیدا کرتا ہے جو اکثر اپنے اختلافات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
مذہبی تہواروں میں روح افزا کی ایک خاص حیثیت ہے، لیکن ماہِ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اس کی اہمیت گویا بامِ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ برصغیر کے انگنت مسلم گھرانوں میں غروبِ آفتاب کے وقت، افطار کے دسترخوان کی رونق اس وقت تک ادھوری سمجھی جاتی ہے جب تک روح افزا کی وہ جانی پہچانی، پھولوں کے دلکش نقش والی بوتل وہاں موجود نہ ہو۔ یہ محض ایک شربت نہیں، بلکہ نسل در نسل منتقل ہونے والی ایک روایت ہے، روزہ کھولنے کی پر کیف رسم کا ایک لازمی، ناقابلِ تصور جزو بن چکا ہے۔
اپنی مذہبی اہمیت کے علاوہ، روح افزا نے گرمیوں میں تازگی بخشنے والے ایک اہم مشروب کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کی ہے۔ اسے ‘موسمِ گرما کی پیاس بجھانے والا بہترین مشروب’ کہا جاتا ہے، اور یہ دہلی و برصغیر کے دیگر حصوں کی شدید گرمی کے دوران لُو لگنے اور خفقان (دل کی دھڑکن تیز ہونا) سے بچاؤ کی اپنی مبینہ صلاحیت کی بنا پر بھی مقبول ہوا۔ نسل در نسل، لاتعداد افراد کے ذہنوں میں ٹھنڈے پانی یا دودھ میں ملے روح افزا کے گلاس سے حاصل ہونے والی ٹھنڈک کی یادیں محفوظ ہیں۔
روح افزا کی لازوال مقبولیت کا ایک اہم پہلو، تبدیلی کے سامنے اس کی ثابت قدمی ہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں صارفین کی بدلتی ترجیحات کے مطابق مصنوعات میں اکثر تبدیلیاں کی جاتی ہیں، روح افزا نے بڑی حد تک اپنی اصل ترکیب کو برقرار رکھا ہے۔ جیسا کہ حکیم عبدالحمید کے پوتے، عبدالمجید نے ایک انٹرویو میں اس کی وضاحت کی، ”جب میں نے کام شروع کیا اور روح افزا کو دیکھا، تو مجھے تجاویز ملتیں کہ ہم اسے بہتر بنانے کے لیے کیا شامل کر سکتے ہیں… میرے دادا نے مجھے بلایا اور سمجھایا کہ اس مشروب کی تیاری میں بہت وقت صرف کیا گیا تھا اور کئی سالوں کی محنت کے بعد یہ ایک مستحکم شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب ہمارے پاس ایک ایسی پروڈکٹ تھی جو لوگوں کی ضروریات کے لیے بہترین تھی۔ اگر کوئی چیز ٹھیک کام کر رہی ہے، تو اسے چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟” روایت کے ساتھ یہ مضبوط وابستگی ہی ہے جس نے اس اصل ذائقے کو محفوظ رکھا ہے، جو نسل در نسل خوشگوار یادیں تازہ کرتا رہتا ہے۔
روح افزا کی دلکشی کا ایک حصہ قدرتی اجزاء پر مبنی اس کی ترکیب میں پوشیدہ ہے۔ اس شربت میں متنوع نباتاتی عناصر شامل ہیں، جن میں پھول (جیسے گلاب، کنول، نیلوفر)، سبزیاں (جیسے پودینہ، گاجر، پالک)، اور پھل (بشمول تربوز، چکوترا، اسٹرابیری، مالٹا، رس بھری، لوگن بیری، بلیک کرینٹ، اور چیری) شامل ہیں۔ مزید پھولوں کی خوشبو لیموں، گلاب، نارنجی، اور خس سے آتی ہے۔ اجزاء کا یہی پیچیدہ امتزاج اس منفرد ذائقے کو تشکیل دیتا ہے جو ایک صدی سے زائد عرصے سے بڑی حد تک تبدیل نہیں ہوا۔
ان اجزاء کی پیچیدگی بعض اوقات ان کی دستیابی میں مسائل کا باعث بنتی ہے۔ ماضی میں بھارت میں روح افزا کی قلت کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں، جن کی وجہ کبھی اہم اجزاء کی کمی اور کبھی کمپنی کے اندر خاندانی تنازعات کو قرار دیا گیا۔ تاہم، ان مواقع پر قلت کی اصل نوعیت کسی حد تک غیر واضح رہی، اور یہ قیاس آرائیاں ہی ہوتی رہیں کہ کون سے مخصوص اجزاء کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔
اپریل 2025 میں، معروف یوگ گرو اور پتانجلی کے بانی، سوامی رام دیو نے اس وقت ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا جب انہوں نے سافٹ ڈرنک کمپنیوں پر کڑی تنقید کی، اور خاص طور پر ہمدرد کے مشہورِ زمانہ روح افزا کو اپنے الزامات کا ہدف بنایا۔ پتانجلی کے اپنے گلاب شربت کی تشہیر کے لیے جاری کردہ ایک اشتہاری ویڈیو میں، رام دیو نے یہ چونکا دینے والا موقف پیش کیا کہ بڑی مشروب ساز کمپنیاں مبینہ طور پر ‘شربت جہاد’ نامی ایک مہم میں ملوث ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ الزام عائد کیا کہ یہ کمپنیاں ‘ٹھنڈے مشروبات کی آڑ میں بازار میں زہر پھیلا رہی ہیں’، بلکہ یہ سنگین دعویٰ بھی کیا کہ ان مصنوعات پر صارفین کا خرچ کیا گیا پیسہ بالآخر ‘مساجد اور مدرسوں کی تعمیر پر صرف ہوتا ہے’۔
رام دیو نے اپنے ‘شربت جہاد’ کے تصور کو محض ایک الگ تھلگ الزام کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ اسے ہندو شدت پسند عناصر کی جانب سے وقتاً فوقتاً استعمال کی جانے والی دیگر متنازعہ اور تفرقہ انگیز اصطلاحات، جیسے ‘لو جہاد’، ‘ووٹ جہاد’، ‘لینڈ جہاد’، ‘تھوک جہاد’، ‘کورونا جہاد’، اور ‘یو پی ایس سی جہاد’ وغیرہ کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا۔ اس براہ راست موازنے کے ذریعے، انہوں نے صارفین کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان کی خرچ کی گئی رقم بالآخر کہاں استعمال ہو رہی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں اپیل کی: ‘آپ جو بھی ٹھنڈا مشروب پیتے ہیں، زہر آپ کے جسم میں داخل ہوتا ہے، اور جو پیسہ آپ خرچ کرتے ہیں وہ مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کی طرف جاتا ہے’۔ اس کے برعکس، انہوں نے پتانجلی کی مصنوعات کو ایک متبادل کے طور پر فروغ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں خریدنا دراصل ‘گرُوکُلوں اور پتانجلی یونیورسٹی کی تعمیر’ میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
یہ متنازعہ بیانات پتانجلی کی، روح افزا کے مقابلے میں لائی گئی، گلاب شربت کی مصنوعات کی مارکیٹنگ مہم کا حصہ تھے۔ کمپنی نے اپنے سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے ان پیغامات کو پھیلایا، پتانجلی کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں کہا گیا: ”اپنے خاندان اور معصوم بچوں کو ٹوائلٹ کلینرز کے زہر سے بچائیں جو سافٹ ڈرنکس اور ‘شربت جہاد’ کے نام پر بیچے جا رہے ہیں۔ گھر صرف پتانجلی شربت اور جوس لائیں”۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا جب پتانجلی پہلے ہی کئی محاذوں پر مشکلات سے دوچار تھی۔ کمپنی اس وقت اپنی متعدد مصنوعات، بشمول دنْت کانتی ٹوتھ پیسٹ، شہد اور گھی، کے معیار پر اٹھنے والے سوالات اور مبینہ طور پر گمراہ کن اشتہاری دعووں کے الزامات کے سبب قانونی جانچ پڑتال اور عوامی تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کے نزدیک، مذہبی جذبات کو ابھارنے کا یہ متنازعہ حربہ دراصل ان اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے اور مذہبی تقسیم کو ہوا دے کر اپنی فروخت بڑھانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، بعض ناقدین نے پتانجلی کی مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی مارکیٹنگ میں ایک واضح تضاد کی جانب بھی توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ یہی کمپنی جب مشرقِ وسطیٰ، بالخصوص خلیجی ممالک کی مارکیٹوں کا رخ کرتی ہے، تو اپنی مصنوعات کی برآمد کے لیے باقاعدہ ‘حلال سرٹیفیکیشن’ حاصل کرتی ہے۔ ان ناقدین کے خیال میں، یہ دوغلی حکمت عملی، جو ہدف مارکیٹ کے مطابق مذہبی رنگ اختیار کرتی نظر آتی ہے، کمپنی کے اختیار کردہ نظریاتی موقف کے حقیقی ہونے اور اس کے بیان کردہ اصولوں کے خلوص پر سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے۔
روح افزا کو تفرقہ انگیزی کا نشانہ بنانا بذاتِ خود ایک تلخ ستم ظریفی ہے، کیونکہ یہ وہ مشروب ہے جس نے تاریخی طور پر مذہبی و قومی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے پورے برصغیر میں ایک مشترکہ ثقافتی علامت کی حیثیت اختیار کی۔ ایک صدی سے زائد عرصے سے، یہ شربت بلا تفریقِ مذہب و ملت، مختلف قوموں اور برادریوں کے دلوں میں یکساں طور پر بسا ہوا ہے، ایک ایسا منفرد مقام جو کم ہی مصنوعات کو نصیب ہوتا ہے۔ لہٰذا، اسے جان بوجھ کر تفرقہ انگیز مذہبی رنگ دینے کی ہر کوشش، ایک متحد کرنے والے ثقافتی ورثے کے طور پر اس کے دیرینہ اور مسلمہ کردار کے سراسر منافی ہے۔
روح افزا کا سفر پرانی دہلی کے ایک چھوٹے سے یونانی مطب میں تیار ہونے والے طبی ٹانک سے لے کر آج تین ممالک میں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بننے والے ہر دل عزیز مشروب تک بذاتِ خود ان گہرے اور پیچیدہ ثقافتی رشتوں کا عکاس ہے جو برصغیر پاک و ہند میں سیاسی تقسیم کی کھینچی گئی لکیروں کے باوجود نہ صرف قائم ہیں بلکہ دھڑکتے بھی ہیں۔ اس کی لازوال مقبولیت، جسے اس کی روایتی ترکیب پر ثابت قدمی اور عدم تبدیلی نے مزید جلا بخشی اور مستحکم کیا ہے، اس منفرد مشروب کے ساتھ عوام کے گہرے جذباتی لگاؤ اور نسل در نسل چلنے والی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حالیہ ‘شربت جہاد’ تنازعہ، درحقیقت، تجارتی مفادات کی خاطر مذہبی جذبات کے استحصال کی ایک نہایت تشویشناک اور خطرناک کوشش ہے۔ ثقافتی طور پر دلوں میں بسی ہوئی مصنوعات پر زبردستی تفرقہ انگیز مذہبی بیانیے کا لبادہ چڑھانا، ایسی مارکیٹنگ حکمت عملی ہے جو براہ راست اس مشترکہ ثقافتی ورثے کی جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے جس کی روح افزا ایک روشن مثال ہے۔ جیسے جیسے یہ تنازعہ مزید گہرا ہو رہا ہے، یہ اس تلخ حقیقت کو پوری شدت سے عیاں کرتا ہے کہ کس طرح کاروباری مفادات معاشرے کی موجودہ حساسیتوں اور تناؤ کے دھاروں سے جڑ کر انہیں نہ صرف مزید ہوا دے سکتے ہیں، بلکہ بظاہر معصوم اشیاء، جیسے مشروبات تک کو، وسیع تر نظریاتی کشمکش کے لیے میدانِ کارزار بنا سکتے ہیں۔
اس تمام منظر نامے کے مدِ مقابل، نسلوں اور سرحدوں کی قید سے ماورا، روح افزا کی وہ لازوال، دل موہ لینے والی کشش پوری آب و تاب سے کھڑی ہے، جو ان تفرقہ انگیز مارکیٹنگ حربوں کے بالکل برعکس ہے۔ یہ صورتحال بذاتِ خود اس امر کی غماز ہے کہ مشترکہ ثقافتی بندھن اور باہمی احساسات کی جڑیں شاید اُن تمام کوششوں سے کہیں زیادہ گہری اور مضبوط ہیں جو انہیں مذہبی تفریق کی بنیاد پر توڑنے اور بکھیرنے کے درپے ہیں۔
====================

Related posts

’’وہ اک نشست جوکہ یاد گار ٹھہری ہے‘‘

Paigam Madre Watan

عقیدہ، ایمان، تہذیب اورتمدن کی حیثیت اور اہمیت انسانی زندگی میں

Paigam Madre Watan

تربت پہ میری آ کے اردو زبان لکھ دو

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar