Articles مضامین

میر صادق و میر جعفر کے ہاتھوں مسلم معیشت پر یلغار

نئی دہلی (نیوز ریلیز: مطیع الرحمن عزیز) ہیرا گروپ آف کمپنیز سود سے پاک تجارت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور تھی۔پچیس سال تک کامیابی کے ساتھ اپنے سرمایہ کاروں کے ساتھ ہنسی خوشی کے زندگی گزارے۔ کمپنی اپنے اولین دنوں میں سست رفتار تھی۔ اس کے باوجود اپنی دخل اندازی کے ذریعہ میر صادق و میر جعفروں نے اس کمپنی میں دراندازی کی پوری کوشش کی۔جس طرح سے چار مینار کو آپریٹیو بینک میں فرضی قرضداروں کا دخول کیا۔ دو سال تک مسلسل پیغامات اور اچھے برے نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن 2012 میں میر صادق نے اس کمپنی پر یہ الزام لگایا کہ یہ کمپنی مشکوک ہے، اور اس کے خلاف جانچ کی ضرورت ہے۔ کمپنی کا دعوی ہے کہ اس کا مدرسہ ہے، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کمپنی کہتی ہے زمینی سطح پر ہمارا تجارت ہے جب کہ کوئی تجارت نہیں ہے۔ کمپنی نے اخبار میں اشتہار شائع کرایا ہے مگر یہ اشتہار بے بنیاد ہے۔ میر صادق و میر جعفروں کی حکومتوں میں رسوخ کے بنا پر کمپنی ہیرا گروپ کی چار سال تک سخت جانچ پڑتال ہوئی۔ لیکن سود سے پاک تجارت کا دم بھرنے والی کمپنی ثابت قدم رہی اور اس کی سی ای او ڈاکٹر نوہیرا شیخ بڑی دلیری سے ہر جانچ پڑتال کا سامنا کیا۔ آخر کار عرصہ دراز کی بڑے مصائب و آلام بھری اذیت ناک جانچ سے چھٹکارہ میسر ہوا۔ اور ہائی کورٹ آف تلنگانہ نے کمپنی کو فتح مبین سے سرفراز کیا۔ اس کامیابی پر کمپنی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے میر صادق و میر جعفر پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ نچلی عدالت سے ہتک عزت مقدمہ میں ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو جیت میسر ہوئی اور فی الوقت ہائی کورٹ آف تلنگانہ میں میر صادق و میر جعفر نے اس بات کی اپیل دائر کی ہے کہ اس مقدمے کی ضرورت نہیں ہے، اس مقدمے کو خارج کیا جائے۔ لیکن ہائی کورٹ آف تلنگانہ نے میر صادق و میر جعفر وں کی اَن سُنی کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہتک عزت مقدمہ سے گھبرائے ہوئے میر صادق و میر جعفر نے ہر طرح کی زور آزمائی کی، اور ڈرانے دھمکانے، مرعوب کرنے اور حیدر آباد چھوڑ کر چلے جانے کیلئے کمپنی کیخلاف ہر طاقت کا سہارا لیا۔ مگر کمپنی چونکہ حیدر آباد میں اپنا عظیم الشان صدر دفتر قائم کر چکی تھی، لہذا کہیں بھی جانے کا فیصلہ نہ کرتے ہوئے حیدر آباد میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دیا۔ کیونکہ کسی بھی شہر چلے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میر صادق ومیر جعفروں سے چھٹکارہ مل جائے۔ ہر جگہ ابلیس کے شیطان صفت اولاد موجود ہیں۔ 16 ستمبر 2012کو 11.18 رات مرزا بیگ کا کمپنی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے ای میل پر ایک تحریر دستیاب ہوتا ہے۔ جس میں لکھا جاتا ہے کہ ”نوہیرا شیخ اگر تم ہوشیار بن رہی ہو تو سمجھ جاﺅ کہ تم ہماری پہنچ سے باہر نہیں ہو۔ حیدر آباد کے غنڈے اور پولس یہاں تک کہ حکومت تلنگانہ ہمارے قائد (میر صادق و میر جعفر)کے اشارے پر چلتے ہیں۔ لہذا تم یا تو مصالحت کر لو یا پھر مقدمہ واپس لے لو۔ بہت بہتر ہوگا کہ تم حیدر آباد کو چھوڑ کر چلی جاﺅ ورنہ تمہارے دفتر کو تمہاری اور تمہارے لوگوں کی قبریں بنا دیں گے۔ مرکزی حکومت سے کسی بھی طرح کی مدد لانے کی کوشش مت کرنا۔ کیونکہ تمہاری کسی بھی طرح کی کوشش برباد ہے، اور ہاں غنیمت سمجھو کہ اکبر بابا تمہارے خلاف مستعد نہیں ہیں۔ جس دن وہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اس دن تمہیں پناہ لینے کے لئے جگہ نہیں ملے گی“۔ اس طرح کی بہت ساری دھمکیاں میر صادق و میر جعفر نے آزمائے، اور اپنے سودی بینک دارلحرام کو ہرا بھرا رکھنے اور پھلتا پھولتا بنانے کے لئے ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف ہر وہ ہتھکنڈے اپنائے جو ممکن ہو سکتے تھے۔ صدر دفتر ہو یا شاپنگ کامپلیکس، یا مال مارٹ ہر جگہ ڈرانے دھمکانے کے لئے لوگوں کے غنڈوں کا ہجوم بھیج کر دھمکیاں دلوائی گئیں۔
سیاست کی آڑ میں کی جانے والی میر صادق و میر جعفروں کی اپنے قوم اور ملک سے غداری اور غنڈہ گردی و بلیک میلنگ کے عوض عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے سیاسی پلیٹ فارم پر جانے کا تہیہ کیا۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا سیاسی میدان میں اترنا تھا کہ میر صادق و میر جعفروں کے قلعے میں آگ لگ گئی۔ چار مینار بینک کی طرح ہیرا گروپ آف کمپنیز میں سرمایہ کاری کے راستے اپنے فرضی لوگوں کو داخل کیا، اور اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پہلے کمپنی کے اکاﺅنٹس کو بند کرایا گیا۔ پھر اپنے ایک آدمی کو مستعد کرکے یہ اعلان کروایا کہ کمپنی ڈوب گئی۔ اس طرح اپنی من پسند لوگوں کی تلاش کرکے ہر اس جگہ ایف آئی آر کرایا گیا جہاں میر صادق و میر جعفروں کے پائے مضبوط تھے۔ اسی درمیان مہاراشٹر ودھان سبھا الیکشن میں میر صادق و میرجعفر نے اپنے ایک سیاسی جلسے میں اپنی زبانی یہ اعلان کیا کہ میں نے ہی کمپنی کے خلاف کارروائی کی اور ایف آئی آر کرایا ۔ لیکن میر صادق و میر جعفر نے یہ نہیں بتایا کہ اس مقدمے میں میں ہار گیا اور اب ہتک عزت مقدمہ سانپ کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
دوسری جانب میر صادق و میر جعفر کے کرائے کے ٹٹوﺅں کو مستعد رکھا گیا تاکہ وہ اپنے شور شرابے کے ذریعہ ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف بے تکے اور واہیات افواہ پھیلاتے رہیں۔ اسی درمیان میر صادق و میر جعفر کے ایک نمائندے نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر برملا انداز میں کمپنی ہیرا گروپ کے خلاف ملک کے وزیر خزانہ کے سامنے بات رکھی۔ پارلیمنٹ میں اٹھائی گئی یہ آواز ملک کے معززین اور پڑھے لکھے لوگوں کے لئے یہ سمجھنا کافی تھا کہ کمپنی کو برباد کرنے کے خواب کے پیچھے آخرکار میر صادق و میر جعفر ہی ہیں؟ سودی کاروبار سے اپنے وجود کو بچائے رکھنے میں ناکام یہودی ایجنٹ ہیرا گروپ آف کمپنیز کی بربادی کے درپے اس لئے تھے کہ کمپنی کی طرف سے حیدر آباد کی ایک بڑی آبادی کی ضرورت پوری ہو رہی تھی۔ اس طرح سے لوگ بینکوں کی طرف اپنے گہنے اور زیور لے کر سود پر قرض لینے کم ہی جا رہے تھے اور یہ معاملہ وہاں کے بینکوںکے لئے المیہ تھا۔ دوسری جانب سود پر لوگ پیسے بھی کم اٹھا رہے تھے کیونکہ ہیرا گروپ آف کمپنیز میں سرمایہ کاری کے ذریعہ لوگوں کی ضرورتیں پوری ہو رہی تھیں۔
اسی طرح سے ملک بھر میں اقلیتوں کے ووٹوں کی تقسیم نہ کر پانے کا خطرہ اور خاص طور سے زمینوں پر ناجائز قبضے، وقف زمینوں پر ناجائز قبضے، وصولی، غنڈہ گردی اور گھناﺅنی سازش کے ذریعہ حکومتی پشت پناہی اور جانچ ایجنسیوں سے چھٹکارہ کا میر صادق و میر جعفرکو خطرہ لاحق ہوا کہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی سیاست میں آمد سے وہ گھبرا گئے۔ حیدر آباد میں جہاں سماجی کارکنوں، دیگر پارٹیوں کے چھوٹے چھوٹے سیاسی لیڈران کو میر صادق و میر جعفر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے تھے وہاں ڈاکٹر نوہیرا شیخ جیسی قد آور سماجی، فلاحی، بہبودی اور رفاہی کاموں کے لئے دنیا بھر میں مشہور خاتون کو میر صادق و میر جعفر کیوں کر برداشت کر سکتے تھے۔ لہذا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا کہ ان کو سیاست اور کمپنی کے ذریعہ تجارت سے روکا جائے۔ میر صادق و میر جعفروں کے اس روکنے اور منافقت کے عمل میں جہاں کمپنی کی سی ای او اور ان کا کنبہ قبیلہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوا، وہیں بیس ہزار افراد کو روزگار دینے والی کمپنی لگ بھگ سکوت کے عالم میں ہے۔ اور دوسری جانب ایک لاکھ بہتر ہزار افراد جو کمپنی میں سرمایہ کار ہیں ان کی اور ان کے اہل و عیال کی روزی روٹی صرف ایک میر صادق و میر جعفر کی منافقت، غداری اور سودے بازی و سود سے ملمع آرام وآسائش حاصل کرنے کے عوض مجروح ہے۔ اس نقصان کا تلافی قوم وملک کیسے کر پائیں گے؟ سمجھنے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

Related posts

انتشار کے ہر دروازے کو بند کردیجیے

Paigam Madre Watan

اردو کا تحفظ کیوں اور کیسے کیا جائے؟

Paigam Madre Watan

جنگِ آزادی کا ایک عظیم مجاہد : مولوی سید علاؤالدین حیدر

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar