Articles مضامین

اسدالدین اویسی کا بیان: سچ کا گلا گھونٹنے کی سیاسی کوشش

بالآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔بحرین کی سرزمین پر، ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس کے دوران جناب اسدالدین اویسی نے فرمایا: ہاں، ہمارے ملک میں کچھ سیاسی اختلافات ہیں، لیکن ہم سب پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔ یہ ایک جملہ تھا، مگر اس ایک جملے میں ظلم کے کرب کو ”اختلاف” کا نام دے کر تاریخ کے خون آلود صفحات پر پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی۔ اویسی صاحب، آپ نے جس صورتحال کو محض *سیاسی اختلاف* قرار دیا، وہ درحقیقت *ماب لنچنگ، بلڈوزر دہشتگردی، کھلے عام مسلم دشمنی، فرقہ وارانہ نفرت، اور ہندوتوادی قتل و غارت گری* پر مشتمل ایک ہولناک عہد ہے۔ یہ کوئی معمولی اختلافات نہیں، بلکہ منظم ریاستی ظلم ہے جس کے زخم آج ہر مسلمان کے جسم اور روح پر نقش ہیں۔
اگر واقعی آپ ہندوستانی مسلمانوں کی آواز ہوتے تو آپ کو کہنا چاہیے تھا: گرچہ ہندوستان میں مسلمانوں کو آر ایس ایس اور بھاجپا کے ہندوتوادی غنڈوں کی طرف سے ظلم، خوف اور جبر کا سامنا ہے، لیکن ہم بہر حال پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسا جملہ سچ پر مبنی بھی ہوتا اور مظلوموں کے ساتھ انصاف بھی کرتا۔ لیکن آپ نے ظلم کو ”اختلاف” کا لیبل دے کر مودی حکومت کے بیانیے کو جلا بخشی، اور دشمنوں کے ہاتھ میں وہ آلہ دے دیا جو ہمارے خون سے آلودہ ہے۔
آج آپ کا یہ بیان ہندوتوادی آئی ٹی سیل کے لیے جشن کا سامان بن چکا ہے۔ وہی دشمن جو دن رات مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے، آج آپ پر فخر کررہا ہے۔ کیا یہ منظر آپ کے لیے باعث تشویش نہیں؟ کیا آپ یہ بھی نہ سمجھے کہ آپ کے اس بیان سے وہی عناصر خوش ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم ہیں؟ یقیناً، آپ کے چند جذباتی حمایتی یا کم فہم نوجوان شاید آپ کی تقریروں سے متاثر ہو جائیں، لیکن سچ کی تلاش میں سرگرداں باشعور افراد آپ کی اس تعبیر کو قبول نہیں کریں گے۔ آپ کی اس روش پر اب وہ لوگ بھی سوال اٹھا رہے ہیں جو کل تک آپ کو مسلمانوں کی امید سمجھتے تھے۔ کئی تحریریں سوشل میڈیا پر گواہ ہیں کہ آپ کے اس بیان کو ”مودی حکومت کی مسلم دشمنی کو نارمل کرنے کی کوشش” قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اگر یہی جملہ مولانا محمود مدنی یا کسی دوسرے عالم دین نے کہہ دیا ہوتا تو آپ کے قافلے نے شور مچاکر اسے غدارِ ملت ثابت کر دیا ہوتا۔
اویسی صاحب! آپ کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ بھارت کی موجودہ صورتحال محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ جمہوریت اور فاشزم کے درمیان ایک کھلا معرکہ ہے، جس میں سب سے زیادہ قربانی مسلمان دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے، ان کی مساجد کو شہید کرنے، ان کے مکانات کو مسمار کرنے، ان کی شناخت مٹانے، اور انہیں خوف کی فضا میں زندہ رکھنے کی جو منظم کوشش کی جا رہی ہے، اسے آپ سیاسی اختلاف کیسے قرار دے سکتے ہیں؟اگر یہ سب کچھ صرف اختلافات ہیں، تو پھر آپ خود ہندوستان بھر میں ان ہی حالات کو بنیاد بناکر جو آتشیں اور جذباتی تقاریر کرتے ہیں، ان کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟کیا آپ خود تضاد کا شکار نہیں ہوگئے؟
ہم نے ہمیشہ آپ پر ہونے والے الزامات کو رد کیا۔ جب کوئی آپ کو بی جے پی کی بی ٹیم کہتا تھا، ہم نے دلیل کے ساتھ آپ کا دفاع کیا۔ ہم نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ آپ کی جماعت کو مضبوط کریں۔ لیکن بحرین میں دیا گیا آپ کا یہ بیان ہمارے لیے مایوسی کا باعث بنا ہے۔ آپ نے ایک عظیم موقع پر وہ بات کہی جو مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، ظالموں کے بیانیے کی تصدیق بن گئی۔ یہ بیان، تاریخ کے سینے پر لکھا جائے گا۔ اور آنے والے مؤرخ ضرور لکھیں گے کہ: جب ہندوستان کا مسلمان خون میں نہایا جا رہا تھا، اُس وقت اس کی نمائندگی کے دعوے دار نے اس خونی منظر کو ‘سیاسی اختلاف’ کہہ کر مٹی تلے دبانے کی کوشش کی!
الغرض! اسدالدین اویسی نے بحرین میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو صرف ”سیاسی اختلافات” قرار دیا، جس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان ماب لنچنگ، بلڈوزر دہشتگردی، نفرت انگیزی اور ہندوتوادی تشدد کا شکار ہیں۔ اویسی کا یہ بیان مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالم حکومت کے بیانیے کو تقویت دینے والا ہے۔ا گر یہی بیان کسی اور عالم یا سیاسی رہنما نے دیا ہوتا تو اویسی اور ان کی جماعت اسے غداری قرار دیتے، مگر جب خود اویسی نے مسلمانوں کے خون سے کھیلتی فاشسٹ حکومت کو ”اختلاف” کا نام دیا، تو یہ سچائی کو چھپانے کی کوشش بن گئی۔
یہ بیان ہندوتوادی عناصر کے لیے خوشی کا باعث بنا ہے اور سنگھ پریوار کے بیانیے کو عالمی سطح پر جواز ملا ہے۔ مسلمانوں نے اویسی کے اس مؤقف کو رد کر دیا ہے اور ان پر بی جے پی کے بی ٹیم ہونے کا الزام پھر سے تازہ ہو گیا ہے۔ آخر میں لکھا گیا ہے کہ تاریخ اس بیان کو مظلوموں سے غداری کے طور پر یاد رکھے گی۔

Related posts

یہودیت تاریخ کے آئینے میں

Paigam Madre Watan

امبانی کا ہمارے نوابوں سے کیا مقابلہ

Paigam Madre Watan

ہندوستان میں ملی تعمیر کا دس نکاتی لائحۂ عمل

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar