Articles مضامین

ڈاکٹر اقبال درانی سے ایک یادگار ملاقات

تحریر: مطیع الرحمن عزیز

نہایت خلوص، ملنساری اور اردو سے گہری محبت رکھنے والے معروف ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور رائٹر جناب ڈاکٹر اقبال درانی سے ملاقات میرے معزز دوست ابصار احمد صدیقی کی عنایت سے ممکن ہوئی۔ بچپن سے ڈاکٹر اقبال درانی کی تخلیقات پر مبنی فلموں سے لطف اندوز ہونا ہر ہندوستانی کے لیے ایک عام سی بات ہے، لیکن اس عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنا، ان کے مشفقانہ انداز میں گفتگو کرنا، اور ان کی پرخلوص طبیعت کو محسوس کرنا ایک ناقابل فراموش اور خوشگوار تجربہ ہے۔ ڈاکٹر اقبال درانی سے چند لمحوں کی ملاقات اور ان کی میٹھی اردو میں گفتگو نے دل و دماغ کو اس قدر متاثر کیا کہ ایک لمبی نشست کی خواہش شدت سے ابھری، تاکہ ان کے جہاندیدہ خیالات اور عظیم افکار کو مزید گہرائی سے سمجھا جائے۔ وہ جذبہ اور جستجو جو انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے پردہ سیمیں پر ستاروں کو چمکایا اور ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کیا، اسے سمجھنے کی تمنا دل میں جاگزیں ہوئی۔
ڈاکٹر اقبال درانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، لیکن ان کی زندگی کے سفر کو قارئین تک بہتر انداز میں پہنچانے کے لیے ماضی کے اوراق پلٹنا ضروری ہے۔ ان کی گفتگو سے یہ احساس ہوا کہ وہ ہندوستان کی دیہی مٹی کی سوندھی خوشبو سے معطر، سادہ اور خلوص سے بھرپور انسان ہیں۔ ڈاکٹر اقبال درانی کا بچپن بہار کے ضلع بانکا کے قصبہ جھنکا میں گزرا۔ وہ 26 جنوری 1956 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شجاعت علی تھا، اور ان کی اہلیہ کا نام ممتا درانی ہے۔ ان کے فرزند مشعال درانی آج دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر اقبال درانی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد تصنیفات پیش کیں۔ ایک عظیم مصنف کے طور پر انہوں نے ترقی کی منازل طے کیں اور خود ایک جگنو سے ستارہ، پھر آفتاب اور ماہتاب بن گئے۔ انہوں نے اپنی رہنمائی اور شفقت سے کئی ہستیوں کو عام انسان سے عالمی شہرت یافتہ ستارہ بنایا۔ جن شخصیات نے ان کی شاگردی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، ان میں اجے دیوگن (فلم: پھول اور کانٹے)، شاہ رخ خان (فلم: دل آشنا ہے)، اکشے کمار (فلم: سوگندھ)، رانی مکھرجی (فلم: مہندی)، ناگ ارجن (فلم: شیوا)، مدھو (فلم: پھول اور کانٹے)، مموٹی (فلم: دھرتی پتر)، فردوس (فلم: مٹی)، مشعال درانی (فلم: ہم تم دشمن دشمن)، اور سوہنی پول (فلم: ہم تم دشمن دشمن) شامل ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے ڈاکٹر اقبال درانی کی رہنمائی میں اپنی پہلی فلم سے شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور آج دنیا انہیں عزت سے یاد کرتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال درانی نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور اردو داں کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ اردو محبت کی زبان ہے، جس نے ہندوستان میں حب الوطنی اور بھائی چارے کا پیغام عام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنہوں نے پردہ سیمیں پر اردو کو اپنایا، وہ غیر معمولی کامیابیوں تک پہنچے۔ گفتگو کے دوران جب میں نے کہا کہ "جب تک فلموں میں اردو تھی، تب تک ان کی چاشنی برقرار تھی،” تو ڈاکٹر صاحب نے برجستہ جواب دیا، "بغیر اردو کے فلمی دنیا ہیچ ہے۔” یہ بات سو فیصد درست ہے۔ انہوں نے فلم "نیل کمل” کا ذکر کیا، جسے خالص ہندی میں بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن چند لمحوں بعد یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اردو کے بغیر بالی ووڈ اپاہج ہے۔ اس فلم کو اردو کے رنگ میں رنگ کر کامیابی سے ہمکنار کیا گیا۔
ڈاکٹر اقبال درانی کی شخصیت میں ایک ایسی کشش ہے جو لمحوں میں سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ وہ مشفق، دور اندیش، ملنسار اور ہنس مکھ ہیں۔ ان کا سادہ اور سلجھا ہوا لہجہ، ناز و نخرے سے پاک ہندوستانی مزاج، اور ہر عمر کے لوگوں میں یکساں مقبولیت ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ دوران گفتگو جب کچھ لوگوں نے تصویر کی اجازت مانگی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، میں ایک ہی تصویر کے لائق ہوں، لیکن تصویریں لے لو!” یہ جملہ سن کر سب ہنس پڑے۔ یہ خوش مزاجی اور متانت صرف اسی شخصیت میں دیکھی جا سکتی ہے جس کے اندر سمندر کی گہرائی، پہاڑوں جیسا عظیم دل، اور وطن پرستی کا جذبہ ہو۔
ان کی تخلیقات میں سیکڑوں تصانیف اور خدمات شامل ہیں۔ انہوں نے ادبی بات چیت کی آڈیو کیسٹس شائع کیں اور جھارکھنڈ کے انقلابی قبائل پر "برسامنڈا” اور "گاندھی سے پہلے گاندھی” جیسی کتابیں لکھیں، جو 2008 میں شائع ہوئیں۔ ان کی تحریروں کو ہندی ادب میں "میکسم گور” کی کتاب "ماں” کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھائی چارے اور حب الوطنی کے علمبردار ہیں۔ جین قومیت کی تنظیموں نے انہیں بھگوان مہاویر کی تعلیمات پر مقالے پڑھنے کی دعوت دی، جو ایک مسلم گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے بڑی عزت کی بات ہے۔
ڈاکٹر اقبال درانی انسانی حقوق ایسوسی ایشن (جھارکھنڈ)، امن کمیٹی بینک، اور آئی ٹرسٹ ممبئی کے چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نے اپنی سماجی سرگرمیوں اور تحریروں کے لیے متعدد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں جھارکھنڈ رتنا ایوارڈ (2008)، راجیو گاندھی گلوبل ایکسیلنس ایوارڈ (2010)، بابا صاحب امبیڈکر ایوارڈ (2011)، اور ودیا ویچسپتی ڈگری شامل ہیں۔
آج کل ڈاکٹر اقبال درانی قرآن کا سلیس ترجمہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر ویب سیریز پر کام کر رہے ہیں، جبکہ متعدد کتابوں کی اشاعت بھی جاری ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنی تحریروں، خیالات، اور اعمال سے انسانیت، محبت، اور بھائی چارے کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ ان کی زندگی ہر اس شخص کے لیے مشعل راہ ہے جو عظیم مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

Related posts

واہ رے اجلاس عام واہ رے پیشہ ور مقرر

Paigam Madre Watan

The Shaheen Group of Institutions provides specialized education for students from madrasas, fostering academic growth in a culturally sensitive atmosphere.

Paigam Madre Watan

دولت اور صحت کی بربادی

Paigam Madre Watan

Leave a Comment