Articles مضامین

نکاح میں سادگی سنتِ نبویؐ اور اسراف سے اجتناب

محمد طارق اطہر محمد
ڈگری اسکالر دار الہدی اسلامک یونیورسٹی کیرلا

 

دینِ اسلام ایک ایسا کامل و جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ واحد
دین ہے
جس میں انسانی زندگی کے تمام معاملات، چاہے وہ معاشرتی ہوں، سماجی ہوں یا اقتصادی، سب کے لیے
واضح اصول و ضوابط موجود ہیں۔ اسلام نے انسان کو نہ صرف عبادات کا طریقہ سکھایا بلکہ باہمی
تعلقات، اخلاقیات، رہن سہن، معاملاتِ زندگی اور معاشرتی روابط کے بھی بہترین اصول بیان کیے ہیں۔
یہی وہ دین ہے جو انسان کو باعزت زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے اور اسے سکھاتا ہے کہ کس
طرح محبت، احترام اور بھائی چارے کے ساتھ دوسروں کے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔ چنانچہ قرآنِ
مجید میں اللہ تعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتا ہے:
"اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ"
یعنی "بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔"
یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے،
اور جس دین کو خود خالقِ کائنات نے پسند فرمایا ہو، اس میں کسی قسم کی خامی یا کمی ممکن نہیں۔
اسلام نے جہاں عبادات کا ایک منظم نظام دیا ہے، وہیں معاملاتِ زندگی کے لیے بھی اصول وضع
فرمائے ہیں۔ انہی میں سے ایک نہایت اہم اور بابرکت اصول نکاح ہے۔ نکاح نہ صرف انسان کی فطری
ضرورت ہے بلکہ یہ ایمان کی تکمیل کا بھی ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے نکاح کیا، اس نے اپنے ایمان کا آدھا حصہ مکمل کر لیا۔"
اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا
"نکاح میری سنت ہے، پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس نے مجھ سے منہ موڑا۔"
نکاح انسان کی فطری ضرورت ہے. اسلام نے نکاح کو نہ صرف ایک معاشرتی معاہدہ قرار دیا بلکہ
اسے عبادت کا درجہ بھی عطا فرمایا۔ قرآن و سنت میں نکاح کی فضیلت، اس کے احکام، اور
اس کی حکمتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے
> وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ
يَتَفَكَّرُونَ
(سورۃ الروم: 21)

ترجمہ: “اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا
کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں
غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔”
یہ آیت نہ صرف ازدواجی زندگی کی فطری حقیقت بیان کرتی ہے بلکہ یہ بتاتی ہے کہ نکاح انسان کے
سکونِ قلب، باہمی محبت، اور رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
اسی طرح سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
> فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
(سورۃ النساء: 3)
ترجمہ: “ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں، دو دو، تین تین اور چار چار۔”
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح ایک عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے
مقرر کی گئی ہے۔ نکاح کے ذریعے انسان اپنی فطری خواہش کو پاکیزہ طریقے سے پورا کرتا ہے، نسلِ
انسانی کا تسلسل برقرار رکھتا ہے، اور معاشرتی فساد سے محفوظ رہتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں صرف مرد پیدا فرماتا اور عورتوں کو کسی دوسری
مخلوق، مثلاً جنّات یا حیوانات، سے پیدا فرماتا تو انسان کبھی سکون نہ پاتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت
سے انسانوں ہی کی جنس سے عورتیں پیدا فرمائیں تاکہ باہمی انسیت اور قربت قائم ہو۔
نکاح کی حکمت یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت، ہمدردی، اور رحمت قائم ہوتی ہے — وہ
ایک دوسرے کے لیے سکون، راحت اور تکمیلِ زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی رشتہ ایک صالح خاندان
اور مضبوط امت کی بنیاد ہے۔

نکاح کیسا ہونا چاہیے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے اچھا نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ
میں ہو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے اچھا نکاح وہ ہے جو حسب نسب
مال اور دیانت داری کے حساب سے ہو مگر افسوس کہ اج مسلم معاشرہ پورا اس کی مخالفت کر بیٹا ہے
اج انسان اس نکاح کو چھا مانتا ہے جس میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ ہو حالانکہ یہ اسلامی لحاظ سے
بالکل غلط ہے کیونکہ نکاح میں اگر زیادہ خرچ کہیں گے تو اسراف پایا جاتا ہے اور شریعت مطہرہ میں
اسراف بالکل حرام ہے کیونکہ خدا تعالی نے اسراف کے بارے میں بھی قران شریف میں ارشاد فرمایا کہ
بے شک زیادہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں
تو ہم کو اس سے سمجھنا چاہیے کہ نکاح میں اسراف نہ کریں بلکہ جتنے کم خرچ میں ہوں اپنا نکاح
کرنے کی کوشش کریں اج کل یہ رواج بن گیا ہے کہ لوگ بارات لے کے جاتے ہیں تو پان پان سو ہزار
ہزار لوگوں کی تعداد میں جاتے ہیں حالانکہ شریعت سے بالکل غلط ہے کیونکہ یہ ایک طریقے کا

لڑکیوں کے گھر والوں کے اوپر بوجھ ہے اور بعض دفعہ تو ایسا بھی دیکھنے کو اتا ہے کہ کچھ لوگ
بے شرم بے حیائی کے ساتھ لڑکیوں سے جہز مانگتے ہیں جو کہ اسلام میں بالکل سخت ناجائز و حرام
ہے

نکاح کی حقیقت اور اس کی سادگی
نکاح اسلام میں ایک نہایت مقدس اور بابرکت عمل ہے، جو دو انسانوں کے درمیان محبت، وفاداری اور
عفت پر مبنی زندگی کی بنیاد رکھتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سب سے
بابرکت نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ میں ہو۔” اس ارشادِ نبوی سے ہمیں صاف طور پر یہ تعلیم ملتی
ہے کہ نکاح میں سادگی اختیار کی جائے اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کیا جائے۔ افسوس کے
ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس سنتِ مبارکہ سے بہت دور جا چکا ہے۔ جہاں نکاح کی سادگی
کو کم مایہ سمجھا جاتا ہے، وہاں فخر و غرور کے اظہار کے لیے اسراف اور نمود و نمائش کو رواج دیا
جا رہا ہے۔

اسراف اور دکھاوا: ایک سماجی برائی
آج کل نکاح کو ایک مذہبی فریضہ کے بجائے ایک معاشرتی نمائش بنا دیا گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ
جتنا زیادہ خرچ ہوگا، نکاح اتنا ہی معتبر سمجھا جائے گا، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قرآنِ مجید
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “بے شک اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔” (سورۃ الاسراء: 27)۔ اس
سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح میں فضول خرچی اور دکھاوا کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ بعض
جگہوں پر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بارات سینکڑوں یا ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جس سے نہ
صرف فضول خرچ بڑھتا ہے بلکہ لڑکی والوں پر مالی بوجھ بھی ڈالا جاتا ہے۔ یہ روش اسلامی تعلیمات
کے بالکل خلاف ہے۔

جہیز اور رسم و رواج کی قباحت
اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ازواجِ مطہرات یا
بیٹیوں سے جہیز طلب نہیں کیا، بلکہ سادگی کو اپنی سنت قرار دیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج
بہت سے لوگ بے شرمی کے ساتھ جہیز مانگتے ہیں، جو کہ سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ یہ عمل نہ
صرف گناہ کا باعث ہے بلکہ لڑکی کے خاندان پر ظلم کے مترادف بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس غیر
اسلامی رواج سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ
ہمارے معاشرے میں برکت، محبت اور حقیقی خوشی قائم ہو تو ہمیں نکاح کو آسان، سادہ اور سنت کے
مطابق بنانا ہوگا۔ یہی اسلام کی اصل روح ہے، اور اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی پوشیدہ ہے۔

مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنّان فرماتے ہیں کہ درحقیقت وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت اور رحمت
والا ہوتا ہے جس میں سادگی، اعتدال اور دین کی روح کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ یعنی جب نکاح کے وقت
دلہا اور دلہن دونوں فریقین کا خرچ کم رکھا جائے، مہر معمولی اور آسان رکھا جائے، جہیز کا بوجھ
والدین کے سروں پر نہ ڈالا جائے، اور کسی بھی جانب سے ایسی سخت شرطیں یا تکلفات نہ ہوں جن
سے کسی پر مالی یا نفسیاتی دباؤ پڑے، تو ایسا نکاح اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا باعث بنتا ہے۔
یہ نکاح محض دو افراد کا میل نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان محبت، الفت اور اعتماد کی بنیاد رکھتا
ہے۔ ایسی شادی میں نہ غرور ہوتا ہے، نہ دکھاوا، نہ اسراف، بلکہ اخلاص، توکل اور دینی سادگی ہوتی
ہے۔ یہی وہ نکاح ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ "بابرکت" ہے، یعنی جس میں کم خرچ اور
زیادہ خیر ہو۔ لیکن افسوس کہ آج کے دور میں مسلمان سادگی اور سنت کے راستے کو چھوڑ کر غیر
شرعی رسموں اور فضول خرچیوں میں الجھ گئے ہیں۔ شادی کو ایک عبادت کے بجائے ایک مقابلہ اور
نمود و نمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ جہیز کے نام پر غریب والدین کو مقروض کر دیا جاتا ہے، مہنگے
کھانے اور بے جا تقاریب میں مال ضائع کیا جاتا ہے، اور بسا اوقات انہی رسموں کے بوجھ سے
خوشیوں کے بجائے جھگڑے، رنجشیں اور بربادی جنم لیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو نکاح دراصل "خانہ
آبادی" یعنی گھر بسانے کا ذریعہ تھا، وہ اب "خانہ بربادی" بلکہ بہت سے گھروں کی تباہی کا سبب بن گیا
ہے۔ مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ کا یہ ارشاد امت کے لیے نہایت گہری نصیحت ہے کہ ہمیں نکاح کو
آسان، پاکیزہ اور سنتِ رسول ﷺ کے مطابق بنانا چاہیے، تاکہ گھروں میں حقیقی سکون، محبت اور
اطمینان پیدا ہو۔ اگر ہم اللہ پر بھروسہ کریں، دکھاوے سے بچیں اور دین کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل
کریں، تو ہماری شادیاں صرف دنیاوی تعلق نہیں بلکہ اخروی کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں اس حدیثِ پاک کی روح کے مطابق عمل کرنے اور اپنی زندگیوں میں سادگی، تقویٰ اور توکل پیدا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(مرات المناجیح جلد 5 صفحہ ۱۱)

آخرِ آج کے زمانے میں نکاح مشکل کیوں
آج کے دور میں نکاح، جو کہ اسلام میں آسانی، برکت اور سکون کا ذریعہ ہے، نہ صرف مشکل بلکہ
بعض اوقات بہت پیچیدہ اور پریشان کن عمل بن چکا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نکاح کو ایک عبادت اور
دلوں کے سکون، خاندانوں کے استحکام اور معاشرتی بھلائی کے لیے بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ نبی
کریم ﷺ، صحابہ کرام اور علماء کرام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ نکاح کو آسان، سادہ اور بغیر
کسی فضول خرچی کے انجام دیا جائے تاکہ یہ عمل بابرکت، خوشی اور اللہ کی رضا کا سبب بنے، لیکن
افسوس کہ آج کے معاشرے میں ہم نے اپنی خواہشات، دکھاوے، فضول رسومات اور دنیاوی فخر و
مباہات کی وجہ سے نکاح کو ایک مشکل مرحلہ اور بوجھ بنا دیا ہے۔ سب سے پہلے تو والدین اور خاندان
شادی کے لیے غیر ضروری اور مہنگے اخراجات پر زور دیتے ہیں، جیسے بھاری جہیز، مہنگے
ملبوسات، رنگ برنگی دعوتیں، سجاوٹ، مہندی، مایوں، اُبٹن، کارڈز، کھانے پینے کی غیر ضروری
تیاری اور دیگر رسم و رواج جو اصل مقصد یعنی شادی کے ذریعے سکون، محبت اور اللہ کی رضا

حاصل کرنا، پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں والدین قرضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں،
نوجوانوں پر مالی دباؤ بڑھتا ہے اور شادی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں، جس کے باعث کنوارے
نوجوانوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور معاشرت میں ذہنی دباؤ اور بے چینی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا
اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگ شادی کے لیے صرف مالدار، عہدہ یا حیثیت والے خاندانوں کی تلاش میں لگ
جاتے ہیں، حالانکہ اسلام نے واضح فرمایا ہے کہ سب سے اہم معیار دین اور اخلاق ہے، نہ کہ دولت یا
سماجی حیثیت۔ یہ غلط ترجیح رقابت، حسد اور خاندانی جھگڑوں کا سبب بنتی ہے اور شادی کے بعد
گھروں میں تلخی اور خلفشار کو جنم دیتی ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ والدین اور خاندان اکثر لڑکے یا لڑکی
کے مستقبل کے لیے مالی کاملتی کی توقع رکھتے ہیں اور اسے شادی میں تاخیر کا سبب بناتے ہیں، جو
کہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ المنّان اس حوالے سے (مرات
المنجیح )میں واضح فرماتے ہیں کہ اگر لڑکی کے لیے دین دار اور اخلاقی معیار رکھنے والا مناسب لڑکا
مل جائے تو محض دولت یا مال کی خواہش میں نکاح نہ ملتوی کیا جائے، ورنہ نہ صرف لڑکیاں کنواری
رہ جائیں گی بلکہ لڑکے بھی طویل عرصے تک شادی سے محروم رہیں گے اور معاشرت میں بے
سکونی، رقابت اور فتنہ و فساد پیدا ہوگا۔ چوتھا اور نہایت اہم نقطہ یہ ہے کہ آج کے دور میں شادیوں کی
دکھاوے بازی اور اسراف نے نکاح کو ایک سماجی مظاہرہ اور تجارتی سرگرمی میں بدل دیا ہے، جہاں
اصل مقصد یعنی خاندان کا قیام، محبت اور اللہ کی خوشنودی، نظر انداز ہو گئی ہے۔ اس طرح نہ صرف
والدین اور نوجوانوں پر مالی بوجھ بڑھتا ہے بلکہ شادی کے بعد بھی گھروں میں ذہنی دباؤ، حسد اور
جھگڑوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جدید دور کی یہ رسمیں اور فضول خرچیاں اصل دین کے اصولوں
سے ہٹ کر شادی کو مصیبت میں بدل دیتی ہیں، اور اس سے معاشرت میں غیر ضروری خلفشار اور
خانہ بربادی کا خطرہ بڑھتا ہے۔ تاہم اگر والدین، نوجوان اور خاندان اسلامی اصولوں کی روشنی میں،
سادگی، توکل اور دین کی ترجیح دیتے ہوئے نکاح کریں، تو نہ صرف یہ عمل آسان اور بابرکت ہو جائے
گا بلکہ گھروں میں محبت، سکون اور استحکام قائم ہوگا، معاشرت میں اخلاقی و سماجی مسائل کم ہوں
گے اور شادی ایک عبادت کے طور پر انجام پائے گی۔ اس کے علاوہ، ایسے نکاح میں مالی بوجھ نہ
ہونے کے برابر ہوگا، قرض سے نجات ملے گی اور نوجوان اپنی زندگی کو بلا خوف و پریشانی شادی
کے ذریعے خوشیوں بھرا اور برکت والا بنائیں گے۔ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ المنّان اس بات پر
زور دیتے ہیں کہ دین کی روشنی، توکل، اخلاص اور سادگی کو اپنانا ہی اصل کامیابی ہے، اور یہی
معاشرتی ترقی، گھریلو خوشحالی اور دینی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ آج کے
زمانے میں نکاح کی مشکلات دراصل ہمارے فضول رسومات، دنیاوی دکھاوے، دولت کی ہوس اور سنت
سے ہٹ کر طرز عمل اختیار کرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں، اور اگر ہم ان رکاوٹوں کو ترک کر
کے سنت کے مطابق عمل کریں تو شادی نہ صرف آسان بلکہ برکت اور سکون کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ شادی کے سلسلے میں اسلام کی تعلیمات کو مقدم رکھے، غیر
ضروری خرچ اور رسومات سے اجتناب کرے، والدین اور خاندان کی غیر ضروری مداخلت کو محدود
کرے، اور اللہ کی رضا اور اخلاقی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے نکاح کرے تاکہ خاندان میں خوشی،
محبت، سکون اور استحکام قائم ہو اور معاشرتی ترقی و اخلاقیات بھی برقرار رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ
توفیق عطا فرمائے کہ ہم شادی کے عمل کو سنت کے مطابق اور آسانی و برکت کے ساتھ انجام دیں تاکہ

ہماری نسلیں خوشحال، گھریلو زندگی پرامن اور دین کی روشنی میں قائم رہیں، اور معاشرہ ہر لحاظ سے
مضبوط، مستحکم اور برکت والا ہو۔
مہر کا نصاب
حنفی مسلک میں مہر نکاح کے سب سے بنیادی اور اہم ارکان میں سے ایک ہے، اور اس کی واجبیت،
مقدار، شرعی حیثیت اور معافی کے احکام نہایت واضح اور دقیق ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ نے نکاح میں مہر
کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ عورت کے حقوق کا تحفظ ہو، شادی کے تعلقات میں اخلاص قائم رہے اور
نکاح بابرکت اور خوشیوں کا ذریعہ بن سکے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہنفی فقہ کے
مطابق کم سے کم مہر دس درہم مقرر ہے، یعنی تقریباً دو تولہ ساڑھے سات ماشہ (۳۰.۶۱۸ گرام) چاندی
یا اس کے مساوی قیمت، خواہ وہ سکّہ ہو یا چاندی کا کوئی اور سامان، کیونکہ نکاح کے فرائض و شرائط
میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حق مہر مقرر ہو، ورنہ نکاح شرعی طور پر نامکمل اور بعض حالات
میں ناجائز ہو سکتا ہے۔ بہارِ شریعت میں واضح طور پر بیان ہے: “کم سے کم مہر دس درہم (یعنی دو
تولہ ساڑھے سات ماشہ) ہے، اس سے کم نہیں ہو سکتا، خواہ سکّہ ہو یا ویسی ہی چاندی یا اُس قیمت کا
کوئی سامان” (بہارِ شریعت، ج2، ص64)۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مہر معجل ہو یا مؤجل،
دونوں شرعاً جائز ہیں، اور اگرچہ لڑکی مہر کو معاف کر دے، تب بھی مہر کا حق اس پر واجب رہتا ہے
اور اسے بعد میں ادا کرنا ضروری ہے۔ تاہم، اگر بیوی اپنی خوشی اور آزاد رضا مندی کے ساتھ مہر
معاف کر دے اور شوہر بھی اس معافی کو قبول کرے تو مہر واجبیت سے آزاد ہو جائے گا، اور اس
صورت میں حتیٰ کہ اگر نکاح بعد میں طلاق کی صورت اختیار کر لے تو بھی بیوی دوبارہ حق مہر کا
مطالبہ نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں اس سلسلے میں واضح ارشاد ہے: "فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ
اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ" (القرآن الکریم، پارہ 05، سورۃ النساء،
آیت 24، ترجمہ کنزالایمان: "تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو
اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اُس میں گناہ نہیں")۔ اس آیت سے
واضح ہوتا ہے کہ عورت کی خوشی اور آزاد رضامندی کے ساتھ مہر معاف کرنا جائز ہے اور اس میں
کوئی گناہ یا شرعی ممانعت نہیں ہے۔ صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے اس
کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "خواہ عورت مہر مقرّر شدہ سے کم کردے یا بالکل بخش دے یا
مرد مقدار مہر کی اور زیادہ کردے" (تفسیر خزائن العرفان، ص161، مکتبۃ المدینہ، کراچی)، جس سے
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معافی کی صورت میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے اور عورت کے
حقوق اس وقت محفوظ رہتے ہیں، لیکن آزاد رضا کے ساتھ معافی ہونے پر حق مہر باقی نہیں رہتا۔ اسی
طرح، تنویر الابصار مع درمختار میں بیان کیا گیا ہے: "لکلہ او بعضہ (عنہ) قبل او لا" یعنی عورت پورا
مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کرے تو یہ جائز ہے، چاہے شوہر قبول کرے یا نہ کرے، لیکن شرط یہ
ہے کہ عورت کی رضا آزاد اور بغیر کسی جبر یا خوف کے ہو۔ ردالمحتار میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ
اگر شوہر عورت پر زور یا دھمکی کے ذریعے مہر معاف کروائے تو یہ معافی صحیح نہیں ہوگی اور
عورت کو اس کا حق دوبارہ طلب کرنے کا حق حاصل ہوگا، جیسا کہ بیان ہے: "ولا بد من رضاها۔ ففي
هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب" (ردالمحتار مع الدرالمختار،
ج3، ص113، مطبوعہ بیروت)، اور یہ اصول خاص طور پر مہر کی عین چیز یا معین مال کے لیے

لاگو ہوتا ہے، یعنی اگر مہر میں کوئی معین زمین یا کوئی معین سامان مقرر ہو تو اس کی معافی درست
نہیں ہوگی اور عورت اسے دوبارہ طلب کر سکتی ہے۔ بہارِ شریعت میں بھی اس بات کی وضاحت کی
گئی ہے: "عورت کل مہر یا جز معاف کرے تو معاف ہو جائے گا بشرطیکہ شوہر نے انکار نہ کر دیا ہو"
(بہارِ شریعت، ج2، ص68، مکتبۃ المدینہ، کراچی)۔ فتاوٰی امجدیہ میں بیان ہے: "جب عورت نے مہر
برضا و رغبت معاف کر دیا تو معاف ہوگیا، اور اب وہ مستحق نہ رہی" (فتاوٰی امجدیہ، ج2، ص143،
مکتبہ رضویہ، کراچی)، جبکہ فتاوٰی فقیہ ملت میں بھی یہی اصول واضح کیا گیا ہے کہ اگر واقعی شوہر
نے اپنی بیوی سے بلا اکراہِ شرعی مہر معاف کروالی تو والدین یا کوئی اور اب دوبارہ اس پر مہر کا
مطالبہ نہیں کر سکتا (فتاوٰی فقیہ ملت، ج1، ص419، شبیر برادرز)۔ اس پورے مسئلے کی عملی اہمیت
یہ ہے کہ نکاح میں مہر کی ادائیگی اور اس کی معافی کے معاملات میں شرعی حدود کی پابندی انتہائی
ضروری ہے تاکہ کسی بھی فریق کے حقوق پامال نہ ہوں اور شادی کے عمل میں اخلاص، رضا مندی
اور سکون برقرار رہے۔ یہ اصول واضح کرتے ہیں کہ مہر کی ادائیگی صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ
عورت کے حقوق کی حفاظت، شادی میں برکت اور گھریلو خوشحالی قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “خَیْرُہُنَّ اَیْسَرُہُنَّ صَدَاقاً”، یعنی عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا مہر
آسانی سے ادا کیا جائے (معجم کبیر، ج11، ص65، حدیث: 11100)، اور حضرت سیّدنا علامہ عبد
الرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی نے فرمایا کہ عورت کے مہر کا کم ہونا برکت اور کامیابی کی
علامت ہے اور یہ نکاح کے اچھے شگون کی نشانی ہے (فیض القدیر، ج3، ص667، تحت الحدیث:
4117)۔ اسی طرح کم اور مناسب مہر والدین پر اضافی مالی بوجھ نہیں ڈالتی، نوجوانوں کے لیے شادی
کو آسان بناتی ہے اور غیر ضروری رقابت، حسد اور دکھاوے بازی سے تحفظ فراہم کرتی ہے، جس سے
شادی کا عمل نہ صرف آسان بلکہ بابرکت اور معاشرتی برکت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ نتیجتاً، شریعت میں
مہر کی مقررہ کم از کم حد کی پابندی اور اسے آسان رکھنے کی ہدایت نہ صرف قانونی ضرورت ہے
بلکہ نکاح کی برکت اور خاندان کی خوشحالی کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام
نے شادی کے سلسلے میں آسانی، سکون اور اخلاص کو مقدم رکھا ہے تاکہ یہ عبادت، محبت اور اللہ کی
رضا کا ذریعہ بن سکے اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نکاح میں مہر کی شرعی حد کا لحاظ کرے،
مناسب اور آسان رقم مقرر کرے اور سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق شادی کو انجام دے تاکہ نکاح بابرکت،
برکت والا اور کامیاب ہو، اور خاندان میں خوشی، محبت اور سکون قائم رہے۔ اس تمام فہم سے یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت نے نکاح کے معاملات کو آسان، محفوظ، بابرکت اور باہمی رضا پر
مبنی بنایا ہے تاکہ ہر فریق کے حقوق محفوظ رہیں، تعلقات میں اخلاص اور سکون قائم ہو، شادی ایک
عبادت اور محبت کا ذریعہ ہو، اور معاشرت میں اخلاقی اور سماجی فتنہ و فساد کم سے کم ہوں۔

ولیمہ کا حکم
ولیمہ سنت موکدہ ہے جو کہ شوہر کی طرف سے رخصتی کے بعد کیا جاتا ہے اور اس پر بہت سی
حدیثیں بھی والد ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ولیمہ کیا ہے اور صحابہ کرام کو بھی حکم
دیا تھا اور علمائے متقدمین و متاخرین اس بات سے بھی راضی ہے کہ ولیمہ سنت نبوی میں سے ہے

ولیمہ کرنا سنت مستحبہ ہے،احادیث کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کا حکم
فرمایا۔چنانچہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:”ان عبد
الرحمن بن عوف جاء الی رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و بہ اثر صفرۃ فسالہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم فاخبرہ انہ تزوج امراۃ من الانصار قال کم سقت الیھا قال زنۃ نواۃ من ذھب قال رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اولم ولو بشاۃ“حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ ان پر زعفران کا اثر تھا،پس رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے (وجہ )پوچھی ،تو انہوں نے خبر دی کہ انصار میں سے ایک
عورت سے انہوں نے شادی کر لی ہے، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پوچھا:اسے کتنا مہر
دیا؟عرض کیا:گٹھلی برابر(چھے مثقال) سونا،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کر
اگرچہ ایک بکری کے ساتھ۔(صحیح البخاری،ج2،ص280
ولیمہ کے سنت مستحبہ ہونے کے بارے میں سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمن فرماتے ہیں:’’ولیمہ بعد نکاح سنت ہے،اس میں صیغہ امر بھی وارد ہے،عبد الرحمن بن عوف
رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’اولم ولو بشاۃ‘‘ولیمہ کر اگرچہ ایک ہی دنبہ یا اگرچہ ایک دنبہ۔دونوں
معنی محتمل ہیں اور اول اظہر،تارکان سنت ہیں،مگر یہ سنن مستحبہ سے ہے،تارک گناہ گار نہ ہوگا اگر
اسے حق جانے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج11،ص278

عمدۃ القاری میں ہے :”قولہ:(اولم ولوبشاۃ ) وقد اختلف السلف فی وقتھا:ھل ھو عند العقد اوعقیبہ ؟او عند
الد خول او عقیبہ ؟او موسع من ابتداء العقد الی انتھاء الدخول ؟علی اقوال ۔ قال النووی :اختلفو ا ، فقا ل
عیاض :ان الاصح عند المالکیۃ استحبابہ بعد الدخول ، وعن جماعۃ منھم :انھا عند العقد ،عند ابن حبیب
:عند العقد وبعد الدخول ،وقال فی موضع آخر:یجوز قبل الدخول وبعدہ ،وقال الماوردی :عند الد خول
،وحدیث انس :فاصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عروسا بزینب فدعی القوم ،صریح انھا بعد الد خول
،واستحب بعض المالکیۃ ان تکون عند البناء ویقع الد خول عقیبھا ،وعلیہ عمل الناس ‘‘آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا قول:(ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری کے ساتھ)اور تحقیق سلف نے ولیمہ کے وقت کے بارے میں
اختلاف کیا کہ:کیا وہ عقد کے وقت ہے یا اس کے بعد؟یا دخول کے وقت ہے یا اس کے بعد؟یا عقد کی
ابتداء سے دخول کی انتہاء تک گنجائش ہے؟یہ کئی اقوال ہیں۔امام نووی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:علماء نے
(ولیمہ کے وقت کے بارے میں اختلاف کیا)،پس قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا:بے شک مالکیہ
کےنزدیک زیادہ صحیح، ولیمہ کا دخول کے بعد مستحب ہونا ہے،اور انہی کی ایک جماعت سے(مروی)
ہے:کہ وہ عقد کے وقت ہے،ابن حبیب کے نزدیک :عقد کے وقت اور دخول کے بعد (اس کا وقت
ہے)،اور ایک دوسری جگہ فرمایا: دخول سے پہلے اور بعد ولیمہ ہو سکتا ہے،اور ماوردی نے
فرمایا:دخول کے وقت اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث:’’رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کے بعد صبح کی تو قوم کو (ولیمہ کی)دعوت
دی۔‘‘ اس بات میں صریح ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد تھا،اور بعض مالکیہ نے مستحب قرار دیا کہ ولیمہ

دخول کے وقت ہو اور دخول ولیمہ کے بعد واقع ہو اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے۔(عمدۃ القاری
،ج20،ص 204
اس کے تحت علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’:قولہ :(بنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) من
البناء وھو الدخول بزوجتہ ،وقد ذکر غیر مرۃ ۔قولہ :(بامراۃ ) ھی زینب بنت جحش ‘‘حضرت انس رضی
اللہ تعالی عنہ کا قول:(نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دخول فرمایا)یہ بناء سے نکلا ہے اور وہ
(آدمی کے )اپنی بیوی کے ساتھ دخول کو کہتے ہیں اور یہ بات کئی مرتبہ مذکور ہوئی۔ان کا قول:(ایک
عورت کے ساتھ)وہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔(عمدۃ القاری ،ج20،ص219
شرح مسلم للنووی میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہاسے نکاح والی روایت کے تحت علامہ نووی
شافعی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں :’’ فیہ دلیل لولیمۃ العرس وانھا بعد الدخول ۔ملخصا‘‘اس حدیث میں شادی
کے ولیمہ کی دلیل ہے اور یہ کہ وہ دخول کے بعد تھا۔(المنھاج علی المسلم ،ج1،ص459،
مشکوۃ المصابیح میں ہے :’’قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طعام اول یوم حق وطعام یوم الثانی سنۃ
وطعام یوم الثالث سمعۃ ومن سمع سمع اللہ بہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے دن
کاکھانا حق ہے، دوسر ے دن کاسنت ہے اور تیسرے دن کاکھا نا نام ونمود ہے، جو سنانا چاہے گا، اللہ
اسے سنا دے گا۔(مشکوۃ المصابیح ،ج2،ص591،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یا ر خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’اس جملےکے کئی معنی
ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے دن سے مراد شادی وبارات کادن ہے اور حق سے مراد مستحق ہے یعنی
بارات والے دن کاکھانا مہمانو ں کاحق ہے، جوشرکت بارات کےلیے آئے ہیں اور دوسرے دن یعنی
زفاف کے بعد ولیمہ کاکھانا سنت ہے مؤکدہ یا مستحبہ اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے ،دوسرے
یہ کہ پہلے دن سے مراد زفاف کے بعد کادن ہے اور دوسرے دن سے مراداس دن کے بعد کادن یعنی
زفاف سے سویرے دعوت ولیمہ حق درست ہے اور دوسرے دن کاکھانا بھی سنت ہے یعنی بدعت
یاخلاف سنت نہیں تیسرے یہ کہ زفاف کے سویرے کھانا دینا فرض یاواجب ہے جس میں بلاوجہ شرکت
نہ کرنا گناہ دوسرے دن کا بھی کھانا سنت ہے۔ یہ تیسر ے معنی ان کے مذہب پرہیں جو ولیمہ کوواجب
کہتے ہیں۔فقیر کے نزدیک پہلے معنی زیادہ قوی ہیں ،چوتھے یہ کہ زفاف کے سویرے ولیمہ کاکھانا
دینا برحق ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے اس دن نہ دے سکے، تو دوسرے دن دے دینا بھی سنت ولیمہ
میں شامل ہے یعنی مسلسل تین دن تک کھانا دینا محض نام نمود ہے ،ثواب نہیں یازفاف کے تیسرے دن
کھانادیناسنت نہیں صرف نام ونمود ہے ۔‘‘(مراۃ المناجیح ،ج5،ص 101

Related posts

واٹس اپ فارورڈ کرنے کی بیماری

Paigam Madre Watan

تربت پہ میری آ کے اردو زبان لکھ دو

Paigam Madre Watan

मैं हूं मोदी का परिवार नारा विपक्ष के लिए पड़ सकता है भारी

Paigam Madre Watan

Leave a Comment