مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
انتخابی ہمہ ہمی اور ہل چل کے درمیان قومی اخبارات نے ایک بحث ایکس مسلم کی چھیڑ رکھی ہے، ایکس مسلم کے لیے ہمارے یہاں مرتد کی اصطلاح پہلے سے موجود ہے، اگر اس نے دوسرا مذہب اختیار کرلیا ہو لیکن اگر اس نے جاوید اختر اور تسلیمہ نسرین کی طرح مذہب سے بیزاری کا اعلان کردیا ہو اور کسی مذہب کو نہیں مانتا ہو تو اسے ہندی میں ناستک اور اردو میں دہریہ اور ملحد کہتے ہیں، ارتداد اور الحاد کا تعلق قلب سے ہے، اس کے بعد جو عملی معاملات سامنے آتے ہیں وہ اس عقیدہ کا عملی پرتو اور مظہر ہوا کرتا ہے۔
اخبارات میں یہ بحث اس لیے چل پڑی ہے کہ کیرل کی ایک خاتون صوفیہ نے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں ایک عرضی دائر کی ہے کہ میں مسلم خاندان میں پیدا ہوئی ضرور لیکن اب نہ تو میں اسلام کو مانتی ہوں اور نہ ہی میرے والد، اس طرح میں ایکس مسلم ہوں اور اب میرا اسلام سے (نعوذ باللہ) کچھ لینا دینا نہیں ہے، اس لیے میرے والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم ہندوستانی قانون کے مطابق کی جائے نہ کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق، اس عورت نے کیرل میں ’’ایکس مسلم‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے اور خود اس کی جنرل سکریٹری ہے، یہ اسلام چھوڑ چکے لوگوں کی تنظیم ہے، جو ہر سال ۹؍جنوری کو اپنا ’’یوم قیام‘‘ مناتی ہے، یہ ہندوستان میں اس قسم کی پہلی تنظیم ہے، ہندوستان میں اسلام مخالف جماعت، تنظیم اور فرقہ پرست طاقتیں ایکس مسلم تنظیم کے ساتھ کھڑی ہیں اور عدالت عظمیٰ پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ہندوستان کو قانون سے اگر چلنا ہے تو صوفیہ کے حق میں فیصلہ ہونا چاہئے اور اگر شریعت سے چلنا ہے تو دوسری بات ہے، اب ان جاہلوں کو کون بتائے کہ مسلم پرسنل لا ہندوستانی قانون کا حصہ ہے اور اس کے تحت کیا جانے والا ہر فیصلہ قانون کے دائرے میں ہی ہوتا ہے۔