جمع وترتیب
مفتی محمد تمیم احمد قاسمی
استاذ : مدرسہ کہف الایمان ٹرسٹ
حج ایک غیر معمولی عبادت ہے، جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے، گناہوں سے پاک کرنے اور روحانی طور پر از سرِ نو زندہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ صرف ایک عبادتی فریضہ نہیں بلکہ زندگی کی ایک بڑی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، حاجی جب بیت اللہ، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ جیسے مقامات سے گزرتا ہے تو اس کا ظاہر ہی نہیں بلکہ اس کا باطن بھی پاکیزہ ہو جاتا ہے، وہ روحانی سفر جس میں تلبیہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں، دل لرزتا ہے اور زبان پر صرف اللہ کا ذکر ہوتا ہے، وہ حاجی کو بالکل ویسا بنا دیتا ہے جیسا ایک نیا پیدا ہونے والا معصوم بچہ۔نبی کریم ﷺ نے اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:جس نے حج کیا اور اس دوران فحش باتوں اور گناہوں سے بچا، وہ ایسا پاک ہو کر لوٹتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہو۔ (بخاری)
لیکن یہ طہارت اور نورانیت کیا صرف مکہ اور مدینہ کے سفر تک محدود ہونی چاہیے؟ کیا حاجی کی عبادت کا رنگ واپسی کے بعد ماند پڑ جانا چاہیے؟ کیا حج کے بعد انسان کا طرزِ زندگی، طرزِ گفتگو اور معمولاتِ حیات ویسے ہی رہنے چاہئیں جیسے پہلے تھے؟ نہیں، بلکہ حج کا اصل مقصد یہی ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے، آئندہ زندگی کو اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق گزارنے کا پختہ عزم کرے، اور اپنے تمام معاملات میں تقویٰ، سچائی، نرمی اور استقامت کو اپنائے۔حج ایک ایسا عظیم موقع ہے جو اللہ تعالیٰ ہر کسی کو نہیں دیتا۔
یہ وہ عبادت ہے جس کے لیے مالی، جسمانی، وقتی اور دلی قربانی درکار ہوتی ہے۔ اسی لیے جو لوگ اللہ کے گھر کا دیدار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اس سفر کو محض ایک رسمی عبادت یا مذہبی سیاحت سمجھ کر نہ گزاریں، بلکہ اس کو زندگی کے نئے آغاز کی بنیاد بنائیں۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے حج مقبول کی علامت یہ بتائی ہے کہ آدمی دنیا سے بے رغبت ہو جائے اور آخرت کی طلب اور تیاری میں لگ جائے۔ یعنی اس کے رویے، ترجیحات، تعلقات اور سوچوں میں وہ تبدیلی آجائے جو بتائے کہ یہ شخص اللہ کے دربار سے ہو کر آیا ہے۔
اس کے بعد اگر کوئی شخص ویسے ہی گناہوں میں ڈوبا ہوا رہے، سستی اور غفلت میں مبتلا ہو جائے، نمازیں چھوڑے، زبان سے بدکلامی کرے اور دل سے دنیا کی محبت نہ نکالے تو اس کا حج روحانی طور پر ادھورا رہ جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا معمول
آپﷺکا معمول تھا کہ وہ ہر عمل کو استقامت اور مداومت کے ساتھ انجام دیتے، یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ چھوٹے چھوٹے اعمال کو بھی کبھی ترک نہ کرتے تھے۔ آپ کا فرمان ہے:اللہ تعالیٰ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو مستقل ہو، چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(مسلم)اسی استقامت کی بنیاد پر حج کے بعد کی زندگی کو سنوارا جا سکتا ہے،عبادت صرف حج کے ایام تک محدود نہ رہے، بلکہ حاجی کی نماز، قرآن سے تعلق، ذکر و دعا، حسنِ اخلاق، دینی جذبہ اور خدمتِ خلق کا ذوق مسلسل باقی رہے۔ نبی کریم ﷺ خود بخشے بخشائے ہونے کے باوجود راتوں کو عبادت میں اس قدر کھڑے ہوتے کہ پاؤں پر ورم آجاتا۔ اور فرماتے:کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (بخاری)
یہی جذبہ ایک حاجی کو اختیار کرنا ہے کہ وہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ میرا حج ہو گیا، اب سب کچھ کافی ہے، بلکہ اپنے اعمال کو قلیل سمجھے، ان میں مزید اضافہ کرے، اللہ تعالیٰ سے استقامت مانگے، جیسے آپ ﷺ دعا کیا کرتے تھے:یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک
(اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ)
استقامت کی ضرورت
شیطان انسان کو جب نیک عمل کی طرف راغب دیکھتا ہے تو وہ اس کے دل میں سستی، اکتاہٹ اور غفلت پیدا کرتا ہے، تاکہ وہ نیکی سے ہٹ جائے۔ اسی لیے حاجی کو سب سے زیادہ ضرورت استقامت، صبر، اور گناہوں سے مکمل اجتناب کی ہے۔ صرف نماز، روزہ، تسبیح اور ذکر ہی کافی نہیں بلکہ حاجی کا دل نرم، زبان پاک، نگاہیں جھکی ہوئی اور اخلاق بلند ہونے چاہئیں۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول یہاں بہت فکر انگیز ہے کہ:جو حج کرتا ہے، اللہ اس پر ایک نورانی مہر لگاتا ہے، اسے اللہ کی نافرمانی سے مت توڑو!یہ مہر حفاظت، محبت، قربت اور بخشش کی علامت ہے،لیکن یہ مہر اسی وقت باقی رہتی ہے جب حاجی اپنی زندگی کو گناہوں سے محفوظ رکھے، اور نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہے۔
حج کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی
اصل توبہ کی شرط
جب کوئی شخص حج کے عظیم سفر سے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے تو وہ یہ نیت لے کر جائے کہ وہ اللہ کی رضا چاہتا ہے، گناہوں کی معافی چاہتا ہے، اور ایک پاکیزہ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہےتو اس کے لئے لازم اور ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک بندہ اپنے مظلوم بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِ
یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچاؤ۔(سورۃ النساء: 58)یہ آیت نہ صرف مالی امانتوں بلکہ زمین، میراث، قرض، اعتماد، اور ہر وہ حق جسے ہم نے ناحق لیا ہو، اس کی واپسی کا واضح حکم دیتی ہے،اگر کسی کا مال یا زمین ناحق لی گئی ہورسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ناحق لی، قیامت کے دن وہ سات زمینوں کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری: 2454)یہ وعید ان لوگوں کے لیے ہے جو وراثت میں بھائی، بہن، بیوہ یا یتیموں کا حصہ دبا لیتے ہیں، یا کسی کمزور کا حق ہڑپ کر لیتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:جس نے کسی مسلمان کا مال ناحق لے لیا، وہ چاہے قسموں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، وہ شخص جہنم کا حق دار ہوگا۔(بخاری: 6678)یہ کوئی چھوٹا جرم نہیں، نہ یہ حج سے خود بخود معاف ہوگا، نہ ہی عبادات اس کا کفارہ بنیں گی۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ جس کا مال یا حق لیا گیا ہے، اس سے معافی یا ادائیگی کر لی جائے۔
حج کے بعد کی قبولیت کا دار و مدار
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے کسی پر ظلم کیا ہو، اُس کو چاہیے کہ آج ہی اُس سے معافی لے لے، اس دن سے پہلے کہ کوئی دینار و درہم نہ ہوگا، بلکہ اگر اس کے پاس نیکیاں ہوں گی، تو مظلوم کو اس میں سے دے دی جائیں گی، اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔(بخاری: 2449)یعنی حج کرنے سے پہلے اگر کسی کا قرض دینا ہے، یا زمین پر ناجائز قبضہ ہے، یا میراث سے کسی کو محروم کیا گیا ہے تو اس کا ازالہ کرنا فرض ہے،یہ محض اخلاقی بات نہیں، شرعی فریضہ ہے،جو ادا کرے اس کے لیے خوشخبر ی اللہ تعالیٰ نہایت مہربان ہے۔ جو بندہ سچے دل سے ظلم چھوڑ کر حق واپس کرے، وہ اللہ کے سب سے محبوب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:ظالم کے مال سے ہاتھ کھینچ لینا اور حق دار کو اس کا حق دینا بہترین صدقہ ہے۔ (احمد)اور اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا، فَأُوْلَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ
مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں، ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، تو اللہ ان کی برائیاں نیکیوں سے بدل دے گا۔ (الفرقان: 70)
عملی قدم
اگر آپ نے کسی کا مال لیا ہے، زمین پر قبضہ کیا ہے، کسی یتیم کا حق مارا ہے، یا بہن بھائیوں کا میراث روکا ہے:
1. فوراً ان سے رابطہ کر کے ان کا حق لوٹائیں۔2. اگر براہ راست دینا ممکن نہ ہو تو شرعی مشورے سے ان کے وارثوں یا مستحقین کو ادا کریں۔3. ان سے سچے دل سے معافی مانگیںاور وعدہ کریں کہ آئندہ ایسا ظلم نہ ہو گا۔
حج سے پہلے ہمیں صرف احرام باندھنے اور قربانی کی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ دل کو صاف، اور حقوق العباد کو ادا کرنے کی سب سے بڑی تیاری کرنی چاہیے۔ یہ وہی حقوق ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ
اور ان کو روک لو، یقیناً ان سے باز پرس ہوگی۔ (الصافات: 24)
ہمارے لئے امتحان
حج کے بعد کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے:کیا ہم واقعی بدل چکے ہیں؟
کیا ہمارا دل دنیا کی چمک سے آزاد ہوا؟
کیا ہماری زبان اب لوگوں کی عزت بچاتی ہے؟
کیا ہماری نمازیں اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتی ہیں؟
کیا ہم نے اللہ کے بندوں سے تعلقات میں نرمی، سچائی اور خیرخواہی کو اپنایا؟اگر ان سوالات کے جواب میں ہم ہاں کہہ سکتے ہیں تو سمجھ لیں ہمارا حج، ان شاء اللہ، مبرور ہے۔ اور اگر ہم ویسے ہی رہ گئے جیسے پہلے تھے، تو پھر ہمیں دوبارہ اپنے حال پر نظر ڈالنی چاہیے۔
حج کے بعد کی اصل کامیابی یہی ہے کہ بندہ خود کو رب کی رضا کے لیے وقف کر دے، ہر دن کو عبادت کا ذریعہ بنائے، اور اپنی عملی زندگی کو ایسی خوشبو سے مہکا دے کہ لوگ دیکھ کر کہیں: یہ واقعی بیت اللہ سے ہو کر آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا حج نصیب فرمائے جو صرف جسمانی نہ ہو، بلکہ روحانی، فکری اور عملی طور پر ہماری زندگی کو بدل دینے والا ہو۔ اور حج کے بعد ہمیں وہ استقامت، تقویٰ، اور شکر عطا فرمائے جو ایک سچے حاجی کی شان ہے۔
اے اللہ! ہمیں اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما، اور ہمارے حج کو مبرور، زندگی کو نیک، اور انجام کو بخیر فرما ۔آمین یا رب العالمین۔