ابونصر فاروق
درسگاہ تعلیم نسواں میں کلاس شروع ہونے سے پہلے حامدہ اورزاہدہ میں گرما گرم بحث ہو گئی۔ دونوں کے چہروں پر اس بحث کا اثر موجود تھا۔استانی صاحبہ جب حدیث کا کلاس لینے آئیں تو اُنہوں نے لڑکیوں کے چہروں کی طرف دیکھا اور حامدہ اور زاہدہ کے چہروں پر تبدیلی محسوس کرتے ہوئے پوچھا :
استانی صاحبہ: کیا بات ہے تم لوگوں کے چہروں پر کچھ غصے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
حامدہ: استانی صاحبہ! زاہدہ کہہ رہی تھی کہ میرے اباجان بقرعید میں قربانی کے لئے جو بکرا لائے ہیں اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔میں کہہ رہی تھی کہ وہ ہر سال بقرعید میں بکرے کی قربانی کرتے ہیں، اس سال بھی قربانی کر رہے ہیں، قربانی نہیں کیسے ہوگی ؟
استانی صاحبہ: کیوں زاہدہ، کیاتم ایسا کہہ رہی تھی ؟
زاہدہ: جی ہاں استانی صاحبہ: میں اس سے یہ کہہ رہی تھی کہ قربانی کرنے کے لئے مسلمان ہونا شر ط ہے۔ غیر مسلم کو قربانی کرنے کا حکم نہیں ہے۔حامدہ کے اباجان پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے ہیں۔نماز ترک کرنے کی وجہ سے وہ مسلمان ہی نہیں ہیں تواُن کی قربانی کیسے ہوگی ؟ زاہدہ کی بات سن کر استانی صاحبہ سو چ میں پڑ گیں۔
استانی صاحبہ: تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جونمازنہیں پڑھتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے ۔اس کے لئے تمہارے پاس کیاکوئی دلیل ہے ؟ کس بنیاد پر تم کہہ سکتی ہو کہ حامد ہ کے ابا جان کے بکرے کی قربانی نہیں ہوگی ؟
زاہدہ: استانی صاحبہ حدیث میں لکھا ہوا ہے کہــــ’’نماز دین کا ستون ہے ، جس نے نماز قائم کی اُس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز ڈھا دی اُس نے دین کو ڈھا دیا۔‘‘جو آدمی پنج گانہ نماز کا پابند نہیں ہے اُس کا دین نہیں ہے۔ جس کا دین نہیں ہے تو پھراُس کی قربانی کیسے ہوگی ؟ پھر وہ حدیث بھی تو ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’نمازکا (جان بوجھ کر) ترک کرنا بندگی اور کفر کے درمیان کی چیز ہے۔‘‘جو آدمی جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھتا ہے وہ اسلام کے دائرے سے نکل کر کفر کے دائرے میں چلا جاتا ہے یعنی کافر ہو جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی قربانی کیسے ہوسکتی ؟
استانی صاحبہ: صرف یہی دو حدیثیں تمہارے پاس تمہارے دعوے کی دلیل ہیں یا کچھ اور بھی ہے ؟
خالدہ: قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ تمہارے جانور کا گوشت اور خون اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں پہنچتا ہے ، بلکہ وہ تقویٰ پہنچتا ہے جو تمہارے اندر موجود ہے۔ ‘‘ جو آدمی نماز کا پابند نہیں ہے اُس کے اندر تقویٰ ہے نہیں ہے۔وہ جب قربانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے پاس اُس کا تقویٰ پہنچے گا ہی نہیں، تو پھر اُس کی قربانی کیسے ہوگی ؟
استانی صاحبہ: اس کے علاوہ اور بھی کوئی دلیل ؟
زاہدہ: قربانی کرتے ہوئے جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جواُنہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے دین کو چھوڑ کر خالص اللہ کی بندگی کرنے کاعہد کرتے ہوئے پڑھی تھی، جس کا مطلب یہ ہے’’بیشک میں اپنا رخ اُس اللہ کی طرف کرتا ہوں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، میں سچا اور پکا مسلم ہوں اور میں شرک کرنے والا نہیں ہوں۔میری نمازاورمیری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔میں اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘جو آدمی قربانی کرتے ہوئے یہ دعا پڑھتا ہے وہ دراصل جھوٹ بولتا ہے کیونکہ جو باتیںوہ کہہ رہا ہے اُن باتوں پر نہ اُس کو یقین ہے اور نہ اُس کا عمل ہے۔حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے، یعنی مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے۔
استانی صاحبہ: کہو حامدہ ! زاہدہ نے اپنے دعوے کی دلیل میں اتنی ساری باتیں کہی ہیں۔تم جو بات کہہ رہی ہو ، کیا تمہارے پاس بھی تمہارے دعوے کی کوئی دلیل ہے ؟
حامدہ: استانی صاحبہ زاہدہ کی باتیں تو سب درست ہیں ، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے بے نمازی مسلمان قربانی کرتے ہیں اُن کی قربانی نہیں ہوتی ہے ؟ اگر ایسی بات ہے تو جمعہ کے خطبے میں اور دوسری دینی تقریروں میں مولانا لوگ مسلم ملت کے لوگوں کو یہ باتیں کیوں نہیں بتاتے ؟
استانی صاحبہ: دیکھو اصل معاملہ یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اجتماعیت نہیں ہے۔مسلمانوں کے اعمال کا احتساب کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔غیر مسلم حکومت کے ماتحت مسلمان زندگی بسر کر ہے ہیں۔اگر کوئی مسلمان شریعت کے خلاف عمل کر رہا ہوتو کوئی دینی فرد یا دینی ادارہ اُس کی پکڑ نہیں کر سکتا ہے۔فوراً حکومت اور قانون دین کی خلاف ورزی کرنے والے کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے کہ اور اُس کی حمایت کے لئے سامنے آ جائیں گے کہ ،کسی کے ساتھ مذہب پر عمل کرنے کے لئے زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔ بے دین ، خدا فراموش اور آخرت بیزار مسلمان اس سہولت کا فائدہ اٹھا کر فاسق و فاجر جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ماحول ایسا بن گیا ہے کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہے اُس کو مسلمان سمجھا جاتا ہے۔کوئی اُس کو یہ باتیں نہیں کہہ سکتا جو خالدہ کہہ رہی ہے۔اور جو کچھ زاہدہ کہہ رہی ہے وہی حقیقت ہے ۔ اللہ اور اُس کے پیارے نبی ﷺ کے نزدیک ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی قربانی کیا کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ہے۔
اُن کی عید بقرعید اور جمعہ کی نمازیں، اُن کی قربانیاں، اُن کے حج، اُن کے صدقے اور خیرات کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ہوتے۔ جہاں تک عالموں اور خطیب و مقرر کا سوا ل ہے تو اس معاملے میں وہ بھی قصور وار ہیں کہ اُن کو ملت کے افراد کو یہ باتیں صاف صاف بتانی چاہئیں، تاکہ لوگ خبردار ہوں۔ عمل کرنا نہ کرنا ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے، لیکن دین وشریعت کے صحیح احکام بتانا ہر عالم دین کی ذمہ داری ہے۔جو لوگ علم رکھنے کے باوجود عوام کو دین وشریعت کا صحیح علم نہیں دیتے وہ گنہگار ہیں اور آخرت میں اُن کو اس کی سخت سزاملے گی۔ قرآن اور احادیث میں اس بات کو بہت وضاحت کے ساتھ بتایا گیاہے۔
راشدہ: استانی صاحبہ! میرے ابا جان ہر سال بکرے کی قربانی کرتے تھے، لیکن اس سال اُن کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اس لئے میرے گھر میں بکرے کی قربانی نہیں ہو رہی ہے۔امی نے اُن سے کہا، وہ بڑے جانور میں حصہ لے لیں ۔ یہ قربانی کم خرچ میں ہو جائے گی۔لیکن ابا جان کہتے ہیں کہ حصے والی قربانی بھی کوئی قربانی ہوتی ہے ؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اباجان صحیح کہہ رہے ہیں یا امی جان درست بات کہہ رہی ہیں ؟ براہ کرم اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈالئے۔
استانی صاحبہ: دیکھو بات جب چھڑ گئی ہے تو مجھے بھی بتانا ہی ہوگا ورنہ میں بھی گنہ گار ہو جاؤں گی۔دراصل تمہارے ابا جان اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں قربانی نہیں کرتے ،بلکہ سماج میں اپنی شان قائم رکھنے کے لئے قربانی کرتے ہیں۔بکرے کی قربانی کی جگہ حصے والی قربانی ہوگی توگھر میں قربانی کا ماحول نہیں پیدا ہوگا اور قربانی کا دکھاوا نہیں ہو پائے گا ، اس لئے تمہارے ابا جان اس سال قربانی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔یعنی وہ قربانی اللہ اورر سولﷺ کے حکم کی تعمیل میں نہیں کرتے ہیں بلکہ دنیاداری کی ایک رسم او ر رواج کی پیروی میں ہر سال قربانی کرتے ہیں۔
زاہدہ: راشدہ کے ابا جان کی قربانی بھی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تو شرک کرتے ہیں۔قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ جو آدمی دکھاوے کے لئے کوئی نیک عمل کرتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔ شرک ایسا گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کسی حال میں معاف نہیں کرے گا۔ یہ بھی قرآن میں لکھا ہواہے۔یعنی کہنے کو نیکی کا کام کیا جارہا ہے لیکن در اصل سنگین گناہ کیا جارہا ہے۔
استانی صاحبہ: دیکھو بات تو بہت کڑوی ہے ، لیکن زاہدہ بالکل صحیح بات کہہ رہی ہے۔
ساجدہ: میرے گھر میں بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔میرے بھائی جان ہر سال پچیس ہزار کا بکرا خرید کر قربانی کرتے ہیں۔ اس بار اُن کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔آپا جان کہہ رہی تھیں کہ کم وزن کا چھوٹا بکرا خرید کر لے آؤ۔ایک سال کا جانور ہونے کی شرط ہے۔ ایک سال کا جانور تو چھوٹا ہی ہوگا۔لیکن بھائی جان کہہ رہے ہیں کہ نہیں، ہمیشہ بڑا بکرا قربانی کرتے رہے ہیں ، اس بار چھوٹا بکراقربانی کریں گے تو سب سمجھیں گے کہ گھر میں غربت آ گئی ہے۔عزت بچانے کے لئے قربانی نہیں کرنا ہی اچھا ہے۔ بتائیے استانی صاحبہ ! آپا کی بات درست ہے یا بھائی جان کی بات صحیح ہے ؟
استانی صاحبہ: یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔تمہاری آپا کی بات بالکل صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کے جانور کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ اُس کی نیت، خلوص اور تقویٰ کو دیکھتا ہے۔جیسا جانور میسر ہو اُس کی قربانی کرنا واجب ہے۔تمہارے بھائی جان بھی قربانی درا صل شریعت کے حکم کی تعمیل کے لئے نہیں کرتے ہیں،بلکہ اپنی شان جتانے کے لئے قربانی کرتے ہیں۔
زاہدہ: ساجدہ! تمہارے بھائی جان کی قربانی بھی نہیں ہوتی ہے۔
زاہدہ: استانی صاحبہ، یہ بتائیے کہ جو لوگ قربانی کے لئے بہت قیمتی بکرا خریدتے ہیں اگر وہ اُتنی ہی قیمت میں کم قیمت کا ایک کی جگہ کئی بکرا خرید لیں اور ایک دن کی جگہ تین دن قربانی کریں تو کیا یہ بہترنہیں ہوگا ؟
استانی صاحبہ: تم نے بالکل درست بات کہی۔پچیس ہزار کا ایک بکرا خریدنے کی جگہ آٹھ نو ہزار کا تین بکرا خرید کر تین دن قربانی کرنے کا ثواب زیادہ ہوگا۔لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی دراصل نام و نمود کے لئے دکھاوے کی قربانی کرتے ہیں۔
زاہدہ: ایسے تما م لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی ہے۔
شاہدہ: استانی صاحبہ! اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پوری ملت میں شاید ہی ایسے لوگ ملیں گے جن کی قربانی شریعت کے حکم کے مطا بق ہوتی ہے ؟ عام طور پر جو قربانی ہوتی ہے وہ صرف رسم ادا کرنے یا اپنا شوق پورا کرنے یا شہرت اور ناموری کے لئے ہوتی ہے ؟ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
استانی صاحبہ: دیکھو بات تو تم بالکل درست کہہ رہی ہو۔ میں اس سلسلے میں کوئی فتویٰ تو نہیں دے سکتی لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس وقت مسلمان چونکہ شریعت سے آزاد اور غافل ہو کر بے دینی اور بے شعوری کی زندگی بسر کر ہے ہیں اس لئے اُن کی زندگی کا کوئی عمل دین و شر یعت کے مطابق ہو ہی نہیں رہا ہے۔اور اسی بے دینی کا انجام ہے کہ مسلمان دن بہ دن نئے نئے مسائل اور مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔یہ اپنے مسائل کو جتنا حل کرنا چاہتے ہیں مسائل اُتنے ہی الجھتے چلے جا رہے ہیں۔
ماجدہ: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان بننا نہیں چاہتے اُن کو قربانی نہیں کرنی چاہئے ؟
استانی صاحبہ: نہیں اس پوری گفتگو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ قربانی نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی قربانی کی نیت اور جذبے کو سدھاریں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کی قربانی کو قبول کرے اور اُن کو دنیا اور آخرت میں اس کا اچھا بدلہ ملے۔ اچھا بچیو! آج کا کلا س دراصل قربانی کے موضوع پر مذاکرے کا کلاس ہو گیا۔