Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

۲۰۰۲ءکا ایک عظیم حادثہ

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی 
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

۱۹۹۶ء میں دو لڑکیوں کی شادی ہوگئی تھی اور ۱۹۹۷ء یں تیسری لڑکی صبا کی شادی ہو گئی، اس کی وجہ سے سر پر بڑا بوجھ بڑھ گیا، اس لیے چوتھی بچی کی شادی کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، شادی اگر بیٹھ بھی جائے تو اس سے عہدہ برآ ہونا بڑا مشکل امر تھا، ادھر باہر ایک گھاری تھی وہ خالی پڑی تھی، گھاری مطیع الرحمٰن نے گرا دیا تو لکڑی ایندھن رکھنے کا انتظام نہ تھا، ادھر میمونہ کا پیٹ کا آپریشن ہوا تو ضرورت ایک باتھ روم کی بڑھ گئی اور ۲۰۰۱ میں ان کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کا پلاسٹر تین ماہ تک رہا لیکن ہڈی صحیح نہ ہوئی تو مجبوراً آپریشن کرانا پڑا۔ ان ہی اسباب کی بنا پر نسرین کی شادی رکی رہی، لیکن اس کی طبیعت عجیب طرح ہوا کرتی تھی اس لیے اس کی شادی کے بارے میں فکر مند ہونا ضروری تھا۔ ۲۰۰۲ء میں کچھ چھٹی لے کر گھر آیا تو ایک مناسب گھرانا اور جامعہ کے فارغ لڑکے کا پتہ لگا مگر دوری تھی۔ بہر حال اس کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ہم اور خاطر بھائی گئے۔ اچھا یہ ہوا کہ وہ لڑکا جس کے متعلق بات کرنا تھا بڑھنی تک آگئے، انہی کی رہنمائی میں ہم لوگ اس کے گھر گئے۔ رات کو کھانے کی بیٹھک ہوئی تو گفتگو میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہمارے پرانے رشتہ دار ہیں جو اب سبھی لوگوں نے بھلا دیا تھا،لڑکے کے والد گائوں بھر کے بڑے بڑے لوگوں کو بلا کر لائے ان سب لوگوں نے اس رشتہ کی تائید بلکہ رشتہ ضرور کیا جائے اس کی تاکید کی پھر سب لوگوں نے آرام کیا صبح پھر اس مسئلہ کے بارے میں بات چلی، تو کچھ معمولی اختلاف کے بعد رشتہ طے پاگیا اور دن تاریخ بھی متعین کر دی گئی۔ ۷؍۸ جون کی تاریخ متعین ہوئی۔ اب انتظام کے بارے میں فکر ہوئی ، عبد اللہ سعود ناظم جامعہ سلفیہ سے کہا تو اولاً وعدہ کردیا، مگر جب امتحان کے بعد گھرجانے کا وقت آیا اور تنخواہ لینے کے ساتھ اڈوانس کا مطالبہ کیا تو یک لخت نفی میں جواب دے دیا۔ بے چارے ڈاکٹر رضاء اللہ نے بہت کچھ اپنی طرف سے ڈھارس بندھائی ۔ کیونکہ وہ عبد اللہ سعود کی طبیعت جانتے تھے۔ چند ماہ ہونے کے بعد ہی کہنا شروع کر دیا کہ یہ شیخ الجامعیت میری جان لے گی۔ بالآخر انہی کا قول صحیح نکلا۔ ۳۰ مارچ ۲۰۰۳ء؁ کو ممبئی میں اچانک انتقال کر گئے۔ جس نے بھی سنا اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ لاش مبارکپور لائی گئی۔ اور لوگ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ان کی تجہیز وتکفین کرکے فارغ ہوگئے۔ عبد اللہ سعود کی اسی گھمنڈ نے اور ہم چوں دیگرے نیست اور جامعہ کی تنزلی بمعنی ترقی کے کتنے لوگوں کی جان لی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ابھی کتنے لوگ اس کے ظالمانہ پنجہ کے شکار ہوں گے۔ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ جامعہ کی سارے فضائل اور اسباب اختصاص یکسر ختم کرکے رکوا ڈالا۔ یہ سب دیکھنے والا اور وہاں رہنے والا ہر فرد بشر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جامعہ کو اس کی نظر بد سے بچائے۔ اس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کرے۔ آمین اور اس کے منحوس سایہ سے محفوظ رکھے اور اس کے ہم مثل لوگوں سے بچائے۔ آمین
بہر حال جون کا مہینہ آیا ، تاریخ قریب لگی تو رشتہ دار آنا شروع ہوئے۔ ان میں میرے دوستوں میں سے دو دوست محمد اختر اور ممتاز احمد بھی آئے۔ سب کے چہرے پر خوشی اور دل و زبان پر دعائیں تھیں۔
محمد اختر صاحب اس سے پہلے صبا کی شادی میں آئے تھے، اور خوب ٹہلے گھومے، بیس بائیس روز کے بعد میرے ساتھ بنارس گئے۔ اور ممتاز احمد بھائی بھی اس سے پہلے میرے گھر آ چکے تھے۔ اب کی بار میری مصروفیات دیکھ کر کہیں ٹہلنے چلے جاتے اور اگر میں خالی ہوتا تو ساتھ رہتا، جمعہ کو بدل پور بازار ہم سب ٹہلنے گئے تھے۔
شان الٰہی دیکھئے کہ بدھ وار کو ایک معمر خاتون کا انتقال جمعرات کو ہوئی، پھر بدر پور بازار میں یہ خبر ملی کہ ہماری بڑی پھوپھی کا انتقال ہوگیا، ان کی عمر کم از کم نوے سال رہی ہوگی، سنیچر کو تدفین ہوئی ، سنیچر کو ساڑے دس گیارہ بجے ان کی تدفین ہوئی۔ شام کو برات آنے والی تھی، یہ لوگ فری ہوتے تو ہر قسم کا ہنسی مذاق چلتا رہتا۔ اسی ہنسی مذاق میں ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اب کی کس کی باری ہے؟ تو دوسرے نے منع کیا اور کہا آج مولانا کی لڑکی کی شادی ہے دعا کیجیے کہ سب خیریت سے گزر جائے۔ اس جملہ پر دوسرے نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ شادی کو بخیر وخوبی انجام کو پہنچائے۔ لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے اصرار کرکے پوچھا اب کی بار کس کی باری ہے۔ اور اس بار میری باری ہے، اچھا اگر میری موت ہوئے تو آپ کیا کریں گے۔ ایسا کیجئے گا میری لاش میرے بچوں تک پہنچا دیجئے گا۔ اسی ہنسی مذاق میں دونوں نے وضو کیا اور وہ اس وقت مولوی اشفاق اللہ مرحوم کے گھر تھے، اس لیے اس گفتگو کا علم کسی تیسرے کو نہ تھا۔ اس کے بعد دونوں مسجد میں نماز پڑھنے گئے۔ لوگوں سے سلام دعا اور مصافحہ اور خیریت کا تبادلہ ہوا۔ اور مسجد سے نکلے تو نماز سے پہلے والی بات سب ختم ہو گئی۔
مغرب کے بعد سب کو کھانا کھلایا ، ابھی بارات نہیں پہونچی تھی اس لیے سب دعوت والوں کو کھلا دیا گیا۔ بارات ساڑھے دس بجے پہنچی اس لیے کہ دور کا سفر تھا ۔ پانی وغیرہ پلایا ، پھر ۱۱بجے رات میں کھانا، ۱۲؍بجے کے بعد نکاح ہوا۔ قاری صاحب نے نکاح پڑھایا ۔ اس طرح تقریبا ایک یا ڈیڑھ بج گئے۔ صبح چائے ناشتہ اور کھانے سے فراغت کے بعد سامان ٹرالی پر چڑھایا گیا ، اب بارات رخصت ہوئی اور ساتھ ساتھ سامان بھی گیا۔ تین راتوں کے بعد تھوڑی سی فرصت ملی تو میں بیٹھک میں لیٹ گیا۔نیند لگ گئی تو تقریبا ساڑھے تین یا ۴ بجے اٹھا۔ نماز کے بعد ممتاز احمد اور محمد اختر بھائی نے کہا کہ ہم دونوں آدمی کسمہی جا رہے ہیں، مولوی عبد الوہاب حجازی سے ملاقات کرنے اور ہم نے کہا اجازت ہے۔ آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ البتہ شام کا کھانا ہمارے گھر پہنچ کر کھائیں۔ اس لیے وہ لوگ کسمہی چلے گئے اور میں نے وکیع اللہ مستری کو لیا اور اوراتال گئے تاکہ جس کا بقایا ہے وہ ادا کر دیا جائے اور پیدل آنا جانا ٹھیک رہے گا ، تھوڑی چہل قدمی ہو جائے گی۔ بدن کچھ ہلکا ہوجائے گا۔ اس طرح ہم لوگ اوراتال گئے اور جس کا حساب تھا ادا کیا گیا۔ اور اس سے فارغ ہوئے تو گھر واپس ہوئے۔ مغرب کے بعد گھر پہنچے جب تک یہ لوگ مل ملا کر آگئے تھے۔ پانی پیا اور پلایا ، محمد اختر صاحب نے کہا مجھے کچھ گرانی محسوس ہو رہی ہے ، اس میں لیٹ جائوں تو اچھا رہے گا۔ وہ لیٹ گئے اور ہم گفتگو کرتے رہے، اسی دوران ممتاز بھائی نے بتایا کہ مولانا حجازی صاحب نے آج بڑاپر تکلف ناشتہ کرایا ۔ پہلے ٹھنڈا پلایا، پھر چائے کے ساتھ بسکٹ نمکین انڈا کھلایا پلایا پھر کھانے کے لیے بھی اصرار کر رہے تھے، لیکن ہم لوگوں نے معذرت کی کہ مولانا عزیز الرحمٰن سلفی نے کہا ہے کہ کھانا یہیں آکرکھائیے گا۔بہر حال اب اتنا کھا چکے ہیں کہ کھانے کی کچھ بھی خواہش نہیں ہے۔ محمد اختر صاحب سے میں نے کہا کہ آپ کو گیسٹک ہے ایک بیڑی پی لیجئے ابھی کم ہو جائے گا۔ میں نے مستری وکیع اللہ سے ایک سگریٹ مانگی اور ان کو دیا۔ پی چکے تو بتایا کہ کچھ گرانی کم ہوئی ہے۔ ہم نے کہا ان شاء اللہ ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی انتظار میں ساڑھے دس بج گئے ، کھانا لگایا اور محمد اختر صاحب نے کہا میں کچھ بھی نہیں کھائوں گا۔ کھانے کے بعد سب کا بستر لگا، تقریبا آٹھ چار پائی تھی، سب پر بستر لگا، سب کو ان کی ضرورت کا سامان ان کے بستر پر رکھا گیا، محمد اختر صاحب کے بستر کے پاس پانی رکھ دیا، اور ٹارچ بھی رکھا کہ شاید رات میں کچھ ضرورت پڑے۔ اور پھر سب سے اپنا آرام کرنے کے لیے اجازت لی۔ اور سلام کرکے اندر کھڑکی میں چلے گئے کیونکہ اس طرف صرف عورتیں تھیں میری تنہا ایک چارپائی خالی تھی میں جاکر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ ابھی مشکل سے ۵؍۷ منٹ ہوئے ہوں گے کہ ایک بچی خورشیدہ نے چھت پر سے کہا کہ محمد اختر صاحب معلوم نہیں کیوں بیہوش ہیں، ان کو جا کر دیکھئے، میں دوڑتا ہوا باہر آیا تو پتہ چلا کہ یہ قضائے حاجت کے لیے گئے تھے، وہیں گر پڑے اور چلا رہے تھے کہ مجھ کو مولانا کے گھر پہونچا دو۔ ایک نوجوان اٹھا کر لائے ۔ پانچ چھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ساری بات بتائی۔ اور اختر صاحب لیٹتے پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے، میرے سامنے تین چار مرتبہ ایسا کہا اور کہا یا اللہ اتنی دیر میں مجھ کو کیا ہوگیا، اتنی دیر میں مجھ کو کیا ہوگیا۔ اب کی بار میں نے ان سے پانی کے لیے پوچھا تو منع کر دیا۔ پھر ایک آدھ منٹ کے بعد پانی کے لیے پوچھا تو پینے کو مانگا، میں نے مولوی رضوان جو میرے داماد ہیںانہیں حیران کھڑے پانی اور چمچہ لانے کو کہا وہ فوراً لائے ، میں نے ایک چمچہ پانی ان کے منہ میں ڈالاتو پانی اندر چلا گیا، لیکن چمچہ پر دانت کا دبائو بڑھا۔ میں نے چمچہ نکالا اور داہنا ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا اور ان کا دوسرا پیشانی پر ۔ پیشانی والا ہاتھ بغل گرا اور داہنا ہاتھ جو میرے ہاتھ میں تھا آہستہ آہستہ ڈھیلا ہوکر بغل میں گر گیا۔ سب کے اوپر خاموشی چھائی تھی، میں نے ممتاز بھائی سے کہا انچارچ صاحب(محمد اختر) تو ہم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کوئی کچھ نہ بولا ، ہاں انہوں نے آخری بات پورا کلمہ (لاالہ الااللہ۔ محمد الرسول اللہ) پڑھا۔پھر پانی کے لیے ہوں بولے، اس سے پہلے پوچھا تو نہیں بولے تھے۔ لوگوں نے ڈاکٹر بلایا انہوںنے آلے سے دیکھا اور بتایا کہ کچھ نہیں ہے۔ پھر چھت پر ایک بچی کی طبیعت خراب تھی، اس کو جاکر انجکشن وغیرہ دیا۔ کچھ دیر بعد اس کو سکون ہوگیا۔ وہ نیچے آئے اور ایک نظر ڈال کر اپنے گھر چلے گئے، اس حادثہ نے میرے گھر والوں کو ہی نہیں بلکہ سارے گائوں والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اس موقع پر گائوں والوں نے میری مدد کی، مولوی عبد السلام مدنی نے ٹیلی فون کردیا، مولوی امر اللہ رحمانی نے جاکر بنارس ٹیلی فون کیا، لیکن ان لوگوں نے پہلے یہیں تجہیز وتکفین کرنے کی بات کہی ، اس کے بعد کہا کہ بچے اس پر راضی نہیں ہیں، لاش بنارس لائی جائے، رات ہی پردھان امان اللہ اپنا لیٹر پیڈ اور مہر لے کر آئے اور اپنی طرف سے تحریر لکھی، وکیع اللہ مستری وغیرہ کئی گائوں والے گاڑی کے لیے دوڑے مگر گاڑی نہیں مل سکی، صبح فجر کے بعد میں نے محمد یوسف ابن ادریس سیٹھ سے گاڑی کے لیے کہا وہ فورا گاڑی کے لیے گئے، ایک گاڑی والا آیا مگر میت لے جانے پر تیار نہ تھا۔ اس سے بڑی کوشش کی مگر کسی طرح تیار نہ ہوا۔ تو محمد یوسف دوسری گاڑی لے کر آئے وہ تیار تھا، لاش اس گاڑی پر رکھی اور لے کر چلے، تو پورا مجمع لگا ہوا تھا، آخر کار اس گاڑی پر میت کے ساتھ میں عزیز الرحمٰن، ممتاز احمد بھائی، مولوی ولی اللہ، مستری وکیع اللہ اور محمد یوسف ہمراہ ہوئے، دور تک لوگ پیدل گاڑی کے ساتھ چلتے رہے، پھر ساتھ چھوڑا، اس دن بنارس میں تیز بارش ہوئی تھی، اس لیے بنارس تقریبا شام پانچ بجے پہونچے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ ۲؍بجے تک پہونچ جائیں گے ، بنارس پہونچے تو ریوڑی تالاب چوراہے پر سیکڑوں لوگ جمع تھے، وہ لاش کو نہلانے کے لیے لے گئے، اور ہم لوگوں کو مولوی محمد اپنے گھر لے گئے تھے، محمد اختر صاحب مولوی محمد کے چچیرے بھائی تھے، مگر یہ پلے بڑھے خالد کے یہاں تھے، مولوی محمد نے ہم لوگوں کو کھانا کھلایا، نماز پڑھی پھر خالد کے گھر گئے، وہیں غسل وغیرہ دلایا جا رہا تھا، عشاء کی نماز کے بعد جنازہ ہوا اور تجہیز وتکفین ہوئی۔ پھر ہم لوگ مولوی محمد کے گھر گئے وہاں انہوں نے پھر سے کھانا کھلایا، مگر مجھے خواہش نہیں تھی، گاڑی والے نے دونوں مرتبہ کھانا کھایا، جامعہ میں گاڑی لاکر دھویا صاف کیا۔ تقریبا ۱۲؍بجے رات کو ہم لوگ واپس لوٹے۔ گاڑی والا تو پہلے بالکل رکنے کو تیار نہ تھا، پھر حالات اور مولوی محمد وغیرہ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا پھر اس نے تاخیر پر کوئی اعتراض نہ کیا تھا۔ ممتاز بھائی وہیں رک گئے بقیہ لوگ واپس ہوئے ، میں تو وہیں ایک سیٹ پر لیٹ گیا۔ ایک جگہ راستہ میں کہیں چائے پینے کے لیے رکے تو میں نے کھانا کھایا پر خلیل آباد آکر چائے وائے پی گئی۔ پھر دس بجے کے قریب گھر پہنچے۔ مجھے میمونہ دیکھ کر رونے لگیں اور کہا ہم کو ذرا بھی اطلاع نہ دی ۔ پھر ماشاءاللہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ دس روز کے بعد ہم اور خاطر نسرین کو لانے کے لیے گئے۔ ۴؍۵کلو میٹر یعنی کوٹیا بازار سے گائوں تک ہم لوگ پیدل آئے۔ اور نسرین کو بیل گاڑی پر لایا گیا۔ پھر ایک جیپ طے ہوئی اس سے گھر تک پہنچے، اس واقعہ کے بعد سب ٹھیک ٹھاک رہا ، ’’فالحمد للّٰہ علی ذالک کلہ‘‘ گرمی کی تعطیل کے بعد جب جامعہ کھلا تو ایک روز میں اختر صاحب کے گھر گیا۔ ان کی بچی کسی طرح چپ نہیں ہو رہی تھی بڑی دیر کے بعد وہ بات کرنے لائق ہوئی تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔

Related posts

اسناد

Paigam Madre Watan

بچپن کی بعض آدھی ادھوری باتیں

Paigam Madre Watan

سکون دل’’ میمونہ ‘‘راحت قلب وجان

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar