تصنیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)
اللہ تعالیٰ نے آدم اور ابنائے آدم کے لیے ایک ایسی ہستی پیدا کی ہے جو اس کے لیے باعث راحت وسکون ہو۔ جہاں عورت کو اللہ تعالیٰ نے آدم اور ابنائے آدم کی طبعی ضرورت کے تحت پیدا کیا، عورت کے اندر ایسی قوت پیدافرمائی کہ وہ بھی مرد کی ہمیشہ محتاج رہتی ہے۔ ان دونوں کے الگ الگ رہنے پر دونوں کی زندگی ادھوری ہوتی ہے۔ اور دونوں کے ایک ساتھ مل جانے کی وجہ سے انسان کی زندگی اور اس کی شخصیت مکمل ہوجاتی ہے۔ نہ عورت تنہا رہ کر سکون پاسکتی ہے اور نہ مرد کو بغیر عورت کے چین وسکون مل سکتا ہے۔ دونوں ہی دونوں کے ضرورتمند اور حاجت مند ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں اور اپنے انعامات جو ’’لاتعدولاتحصی ہیں‘‘ کو شمار کرتے ہوئے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا:
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ((الروم:۲۱))
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور نوازشوں میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ تمہاری اپنی ذات ہی سے تمہارے لیے جوڑا بنایا تاکہ تم اس کے پاس پہنچ کر سکون حاصل کرو اور اسی نے تمہارے دلوں میں محبت اور مہربانی کے جذبات پیدا کئے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو لوگ فکر وتدبر کرتے ہیں۔
اس ایک ذات کے آگے دنیا کی ساری رعنائیاں اور رنگینیاں ہیچ ہیں اور اگر وہ ذات موجود ہے تو سارے صحراوبیابان چمن زار وگلزار ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:
’’الدنیا کلہامتاع وخیرمتاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ‘‘
دنیا ساری کی ساری تمہارے فائدہ کی چیز ہے لیکن دنیا کا بہترین فائدہ کا سامان صالحہ خاتون ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کی آرائش کا سبب بنتی ہے۔
اقبال نے اپنے تخیلات اس شخصیت کے بارے میں اس طرح پیش کئے ہیں:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف سے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
اس ذات کی شرافت کے آگے بادشاہوں کے تاج کا غرور سرنگوں، اس کے عقل ودماغ نے ایسی ایسی عقدہ کشائی کی ہے جس کو انبیاء واولیاء بھی نہ کھول سکے۔ وہاں پہنچ کر تمام رنج وغم کافور ہوجاتے ہیں۔ عقل دوماغ کو وہاں تازگی اور سرور ملتا ہے۔ مصائب ومشکلات کا وہاں علاج ہوتا ہے۔وہاں سے دل مضطرب کو قرار مل جاتاہے۔ غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر جب صلح کی قرار دادیں پاس ہوکر لکھی جاچکیں اور دونوں طرف سے صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشادفرمایا۔ قربانی کے جانوروں کی یہیں قربانی کرڈالو یہاں سے ہم لوگ مدینہ واپس چلیں گے۔ اور فیصلہ کے مطابق آئندہ سال عمرہ اداکریں گے۔ صلح نامہ کی قراردادیں کسی کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھیں۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے باشعورآدمی کی سمجھ سے بھی یہ قراردادیں باہر تھیں۔ انہوںنے اپنی جرأت مندی کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات بھی کرڈالے۔ مگر اطمینان قلب حاصل نہ ہوسکا۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بھی اسی طرح کے سوالات کئے۔ جوابات اسی طرح ملے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے۔ اطمینان تو نہ ہوا لیکن پھر خاموشی اختیار کرلی اس معاملہ میں لوگوں کے اضطرابات ختم کرنے اور صحابہ کرام کو مطمئن کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ اس بے سکونی او ربے چینی کے عالم میں آپ اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ چہرہ سے آپ کے قلبی اضطرابات جھلک رہے تھے وہاں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ انہوںنے آپ کے چہرہ سے آپ کی بے سکونی پڑھ لی۔ اور پوچھ لیا کیا بات ہے اے اللہ کے نبی ﷺ۔ آپ بہت بے چین سے دکھائی پڑرہے ہیں کوئی بات ہو تو مجھ سے بتائیے ہوسکتا ہے اس کا حل میں کچھ سوچ سکوں۔ آپ نے فرمایا: کئی بار میں صحابہ کرام کو حکم دے چکا کہ قربانی کے جانور ذبح کر ڈالو ’’احرام کھول دو‘‘ روزہ توڑ ڈالو وہ لوگ جو ادنیٰ سے ادنیٰ حکم پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے لیکن آج وہی لوگ میرا حکم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تو حضرت ام سلمہ نے اپنی فراست سے جوبات بتائی اسی سے یہ عقدہ کھل گیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔ انہوںنے یہ رائے پیش کی کہ اے اللہ کے رسول! آپ خود ان چیزوں کے لیے اقدام کیجیے۔ پھر دیکھئے کون نہیں تعمیل کرتا ہے ابھی ان کو یہ لگتا ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس حکم کی منسوخیت نازل ہوجائے ۔ ہوسکتا ہے زیارت کا موقع اب بھی مل جائے۔ اسی وجہ سے وہ قربانی نہیں کرتے اور آپ کے اقدام کے بعد پھر آپ کے حکم کی بجاآوری اور تعمیل ضروری سمجھیں گے۔ چنانچہ ام المومنین کی بات مان کر آپ نے خود اپنے جانور کی قربانی کی، احرام ختم کیا اگر روزے سے تھے تو پیالہ اوپر اٹھاکر دکھایا اور اس کا دودھ نوش فرمالیا۔ پھر سارے لوگوں نے دیکھتے دیکھتے اپنے جانور قربان کئے احرام کھول دیا افطار کرلیا۔ اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عقل ودانش سے وہ عقدہ حل ہوگیا جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد تکلیف او رغم تھا۔
مجھے خود اس کا تجربہ ہوا کہ میں کسی معاملہ میں پریشان ہوں ذہن الجھا ہوا ہے گھر کے اندر میمونہ کے پاس گیا۔ ان کے سامنے اپنا غم اور الجھائو بیان کیا۔ انہوںنے جو رائے دی اس پر میں نے عمل کیا۔ اور مسئلہ حل ہوگیا۔ اور یہ اتنی زندگی میں ایک با رنہیں ہوا اس طرح کے مواقع آئے اور ان سارے مواقع پر اسی طرح کامیاب ہوا۔ عورت جس کو ناقص العقل کہاگیاہے اس کے یہاں ایسے ایسے حل موجود ہیں جو ایک مرد کامل العقل کے پاس نہیں ہیں۔
کہتے ہیں جہاں دوبرتن ہیں وہاں ٹکر لگتے ہیں۔ بشری تقاضا کے تحت ایسے بھی مواقع آئے۔ جب دونوں میں کسی بات پر تکرار بھی ہوئی غصہ اور ناراضگی بھی پیدا ہوئی مگر یہ حقیقت ہے کہ بولنے اور ملنے کی پیش قدمی میمونہ نے ہی کی۔ اور کبھی میں نے یہ کیا کہ غضبناکی کو برداشت کرلینے کی کوشش کی اور کسی بات کو ہنس کر ٹال دیا۔
زندگی میں ساتھ ساتھ جینے کی یہ صورت ہونی چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔ مرد روزی روٹی کے انتظام میں ،بچوں کو آرام پہنچانے کی غرض سے کہاں کہاں کی خاک چھانتا ہے۔ گھر پہنچنے پر بیوی کی مترنم آواز ، بچوں کی کلکاریاں کان میں پڑتی ہیں تو ساری کلفت اور تمام تکان گھر سے دوری کی تمام تر تکلیفات ختم ہوجاتی ہے اور زندگی خوشی سے بھر جاتی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات میں ان کی اہلیہ کے سلسلہ میں یہ مذکورہے کہ جب مولانا راتوں کو جاگ کر کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تو ان کی اہلیہ زلیخا بیگم انہیں پنکھا جھلتیں۔ آپ ان سے فرماتے جائو سوجائو کیوں میرے ساتھ پریشان ہوتی ہو۔ تو وہ فرماتیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ پریشان رہیں اور میں آرام سے بستر پر سوتی رہوں۔
مجھے یہ لگتاہے کہ اچھے اخلاق والی عورتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں جب اوسان کوئیاں میں میں پڑھاتا تھا تو ہر ایک کتاب کا مطالعہ کرنے میں بہت دیر تک جاگنا پڑتا تھا میمونہ کو میں دیکھتا تھا کہ وہ بھی عموماً جاگا کرتیں۔ دوبجے تین بجے تک پڑھتا رہتا۔ درمیان میں بھوک لگ جاتی۔ میں اپنی حاجت ذکر کرتا فوراً کوئی چیز جو گھر میں موجود ہوتی پیش کرتیں چاہے کیلا ہو یا سیب اور اگر کچھ نہیں ہے تو بھونا ہی بھون کر پیش کرتیں۔ اس نوجوانی کے زمانہ میں کوئی چیز بھی نقصان نہ کرتی تھی۔
یہ میںنے پہلے ہی ذکر کیاہے کہ میمونہ بہت کم پڑھی لکھی ہیں اس کا احساس ان کو خود بھی ہے لیکن جن دنوں میں پڑھائی نہیں ہوتی کہتیں کہ کوئی کتاب پڑھئے۔ میں ان کو کتاب پڑھ کر سناتا بہت دیر دیر تک سنتیں۔ کبھی اگر ایسی بات ہوتی جہاں رقت قلب طاری ہو تو دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے اور دونوں کے آنسومل کر ایک دوسرے کے رخسار کو بھگوتے۔ میں نے ان کو نسیم حجازی کی کتابیں سنائیں جن میں ادب ہے، تاریخ ہے، اصلاح ہے، اخلاق ہے، اور حسن عمل کی تعلیم بھی ہے۔ ان کے یہاں فحاشی نہیں ہے۔ نسیم حجازی کی کتابوں میں قیصر وکسریٰ ، شاہین، معظم علی اور تلوار ٹوٹ گئی انسان اور دیوتا وغیرہ بہت ساری کتابیں پڑ ھ کر سنائیں۔
عورت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے مزاج کو شوہر کے مزاج کے تابع رکھے۔ اس کی طبیعت اور منشا کو پہچانے۔ اگر اس کو کوئی تکلیف ہو تو عورت کو چاہیے کہ چہرے کے رنگ سے اسی کو پرکھ لے اور اس کی وجہ معلوم کرے اس کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضر ت جبریل علیہ السلام ملنے کا وعدہ کرکے گئے لیکن وقت مقررہ پر تشریف نہ لائے آپ کو اس بات کا شدید صدمہ تھا۔ امہات المومنین نے خصوصاً حضرت عائشہ اور حضرت میمونہ نے آپ کے چہرے کی ہیئت سے یہ بھانپ لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا۔ اے اللہ کے رسول آج کیا بات ہے آپ صبح سے بہت خاموش خاموش ہیں آپ کے چہرے کی رنگت بدلی ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت جبریل نے ملاقات کا وعدہ کیاتھا مگر اپنے وعدہ پر تشریف نہیں لائے ان کے نہ آنے کی کوئی وجہ ضرور ہے۔ امہات المومنین نے آپ کی بات سن کر کمرے میں جھاڑو کیا تو دیکھا کہ ایک کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے ہے۔ اسے نکال باہر کیا۔ پانی کا چھڑکائو کیا۔ کمرہ کی صفائی کے بعد فوراً حضرت جبریل تشریف لائے اور فرمایا کہ اسی کتے کی وجہ سے میں آپ کے پاس وعدہ کے مطابق نہ آیا۔ ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس میں کتا یا تصویر ہوتی ہوں۔
عورت کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کی پسند ناپسند کا خیال رکھے۔ اور شوہر کو بھی چاہیے کہ عورت کے مزاج کو پہچانے اگر کوئی نامناسب چیز دیکھے تو آسانی اور آہستگی سے سمجھائے۔ سختی سے ہمیشہ پرہیز کرے۔ ایک مرتبہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ام حمید جو نجد میں رہتی تھیں ان سے ملنے کی غرض سے آئیں تو اپنے گھر سے کچھ ہدیہ تحفہ بھی لائیں، گھی، شہد ،پنیر، بھنی ہوئی گوہ کا گوشت اور آپ کے دسترخوان پر کھانے کے لیے پیش کردیاگیا۔ آپ نے جوں گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا یہ بتایاگیا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے آپ نے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو حضرت میمونہ کی بہن کے لڑکے تھے انہوںنے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا گوہ حلال نہیں۔ آپ نے فرمایا بلاشبہ حلال ہے لیکن میری طبیعت اسے پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ سارے لوگوں نے آپ کے دسترخوان پر گوہ کا گوشت کھایا۔ اور آپ نے دوسری چیزیں کھائیں۔ حضرت میمونہ نے فرمایا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں مجھے بھی وہ ناپسند ہے۔ میں بھی نہیں کھائوں گی۔
بس اسی طر ح ایک صالحہ بیوی کو اپنے شوہر کی مزاج شناسی، اور پسند ناپسند کا خیال رکھنا چاہیے اس کی وجہ سے دونوں ہر ایک کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوں گے اور گھر گل وگلزار ہوگا۔
اللہ کا فضل وکرم ہے کہ میمونہ جن کے نام کے ساتھ میں نے شہناز کے لفظ کا اضافہ کیا اپنی خدمت گزاری اور خوش خلقی میں مشہور او رمنفر د ہیں۔ وہ تو غیروں کی خدمت کرکے اپنے دل میں خوشی وانبساط محسوس کرتی ہیں کوئی بھی تکلیف میں مبتلا ہو وہ اپنی سکت بھر اس کی خدمت کریں گی اور یہ خواہش کریں گی کہ ان کی بیماری دور ہوجائے تکلیف ختم ہوجائے۔ حالانکہ وہ خود بھی مریضہ ہیں۔ کافی بیماریاں جھیل چکی ہیں اور جھیل رہی ہیں لیکن جب کوئی دوسرا تکلیف میں مبتلا شخص مل جائے تو اس حالت میں بھی اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں کسی چیز میں وہ عار محسوس نہیں کرتیں۔ جانور تک کی تکلیف دیکھ کر وہ بیٹھی نہیں رہ سکتیں۔
ایک مرتبہ ایک کتا ہمار ی کھڑکی کی طرف یعنی پچھواڑے بیٹھا کراہ رہا تھا یہ کسی کام سے ادھر نکلیں اور اس کتے کو بھگانا چاہا مگر وہ اٹھ نہ سکا درد سے کراہ کر پھر سر نیچے کرلیا۔ انہوںنے اس کے پیر کی طرف دیکھا کہ اس کے پیر میں زخم ہے جیسے کسی نے دھاردار چیز سے مار دیا ہو۔ اور لگتا ہے کہ اس کا زخم بگڑ گیاہے۔ یہ گھر میں گئیں کسی چیز میں مٹی کا تیل نکالا ایک لکڑی لی اس میں کپڑا لپیٹا ، منہ او رناک پر اپنی اوڑھنی ڈال لی اور اس کا زخم دھونے لگیں۔ زخم صاف کرکے مزید مٹی کا تیل اس پر گرادیا۔ دوتین روز اسی طرح کیا تو اس کا زخم کچھ اچھا ہونے لگا۔ اب وہ کتا روزانہ اسی طرح اپنا زخم دھلاتا رہا اور یہ دھلتی رہیں یہاں تک کہ اس کتے کا زخم اچھا ہوگیا۔ تو جو آدمی نجس وناپاک جنس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا بھلا وہ انسان کی تکلیف کیسے گوارا کرلے گا۔
اسی اخلاق کے ناطے وہ میری دادی کی آخری وقت تک خدمت کرتی رہیں اور دادی ان کی خدمت سے خوش ہوکر اللہ کو پیاری ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
تقریباً ۱۲؍۱۳سال پیشتر ماہ رمضان میں والد صاحب کو روزہ کی حالت میں پیٹ میں درد اٹھا۔ ڈاکٹر کو بلایاگیا انہوںنے انجکشن اور دوائیں دیں۔ کچھ دیرآرام رہا۔ پھر درد شروع ہوا، پھر انجکشن لگوایا۔ رات میں پھر بڑی بے چینی کے ساتھ درد اٹھا۔ صبح اسپتال لے کر بھاگے۔ ڈاکٹر نے پہلے ایکسرے کے لیے کہا۔ ایکسرے ہوا، رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ گیس اٹھنے کی وجہ سے آنت میں سوراخ ہوگیاہے۔ آپریشن کرانا پڑے گا۔ بہرحال وہاں سے کچھ دوا کراکے ڈاکٹر ایوب کے یہاں بڑہل گنج لے کر گئے۔ انہوںنے آپریشن کیا۔ تقریباً ہفتہ دس روز وہاں روزہ کی حالت میں گذارے ۔ بریڈ، پکوڑی، پوڑی وغیرہ کھاکر روزہ رکھتے کچھ ٹانکا کٹنے کے بعد گھر لائے۔ اس کے بعد ان کا زخم دھلنا، دوا اور مرہم لگانا، پٹی بدل کر باندھنا، وقت پر دوا کھلانا یہ ساری ذمہ داریاں میمونہ شہناز کے سرچلی گئیں۔ انہوںنے بہ خوشی یہ ساری ذمہ داریاں اداکیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری لڑکیاں اور لڑکے بھی اسی طرح کا مزاج رکھتے ہیں۔
اسی سال شوال میں جامعہ کھلا تو بنارس پہنچتے ہی میری ریڈھ کی ہڈی میں درد شروع ہوگیا۔ اتنا ہٹیلا اور بھیانک درد کہ نہ پیر پھیلایا جاسکے، نہ موڑا جاسکے، کروٹ بدلنا مشکل، لنگی اور کپڑے درست کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا مگر درد کم نہ ہوا۔ درد میں اضافہ ہی ہوتاجائے۔ میںنے میمونہ کو اپنی حالت کی اطلاع دی۔ مطیع الرحمٰن عزیز(میرے فرزند) انہیں لے کر بنارس آئے۔ بنارس ایک ایلوپیتھ ڈاکٹر کی دوا سے کچھ فائدہ ہوا۔ کچھ دس قدم چلنے پھرنے کی طاقت آئی تو دہلی جاکر ڈاکٹر(حکیم) عبدالحنان (جو میرے دوست اور معاصر ساتھی ہیں، اس سال کرونا کی بیماری میں مبتلا ہو کر وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بڑے سیدھے سادے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین) کو دکھایا۔ انہوںنے کئی طرح کے ایکسرے اور ٹیسٹ لکھے۔ ہر چیز کی رپورٹ آجانے کے بعد انہوںنے دوا شروع کی۔ اس موقع پر میمونہ شہناز نے تقریباً چارماہ بنارس میں رہ کر میری خدمت کی۔ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس کے بعد پھر اس طرح کا سخت اور ہٹیلا درد دوبارہ نہیں اٹھا۔ وہی دوا ڈاکٹر عبدالحنان والی چل رہی ہے لیکن اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا یا ان جیسے کاموں میں بڑی احتیاط بتلائی ہے۔ کمربوجھل رہتی ہے ۔ ٹیک لگاکر اٹھنا بیٹھنا، ایک پہلو پر دس منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھ سکتے۔ زیادہ دیر کھڑے رہنا اور زیادہ دیر بیٹھنا دونوں مشکل، خاص طور پر لکھنے میں پریشانی ہوتی ہے، اس لیے کہ لکھنے میں کچھ جھکنا پڑتاہے۔ اللہ تعالیٰ میمونہ شہناز کی خدمت کو قبول فرمائے اور دونوں جہان کی بھلائیوں سے نوازے۔ آمین۔ آخرت میں ان کی خدمات کا صلہ جنت کی شکل میں دے اور مجھے جنت میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
میمونہ شہناز کو میں نے کس نظر سے دیکھا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے میری شاعری کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ میری شاعری کے مجموعہ ’’پرواز‘‘ مطبوع میں ایک حصہ غزلیات کا بھی ہے۔ اس کا نام میں نے ’’فریادنَے‘‘ رکھاہے۔ اور اس کی تشریح اس کے نیچے ان الفاظ سے کی ہے’’ ہجوم غم میں علاج دل بے قرار‘‘ ان غزلوں میں میرا محبوب کوئی دوسرا نہیں، میمونہ ہیں۔ ضمیر خطاب یا غائب سے ان ہی کی شخصیت مراد لی گئی ہے۔ مجھے شروع میں ان ہی کا سہارا ملا اور ان سے اور گھر سے دور رہ کر بھی میں نے ان ہی کو اپنے دل میں بسائے رکھا۔ کسی اور کو میرے دل نے پائیداری نہیں دی۔ غم وخوشی اور فرحت ومسرت میں ہمیشہ وہ میرے ساتھ رہیں۔ اور جب کوئی خوشی یا غم پڑا تو میں نے ان ہی سے بیان کیا۔ میرا دل یہ چاہتاہے کہ ایک غزلیہ نظم یہاں ذکر کردوں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ میمونہ کو میں نے کس نظر سے دیکھا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ میری غزلیات کا محبوب کوئی دوسرا نہیں میمونہ شہناز ہی ہیں۔
یہ نظم جسے میں آئندہ کی سطروں میں تحریرکروں گا بنارس میں رہ کر، اپنے کمرہ میں بخار کی تکلیف میں مبتلا ہوکر لکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے بہتر ثبوت او رکچھ نہیں ہوسکتا۔ اس نظم کے تین حصے ہیں۔ نظم کا ابتدائی عنوان ہے’’یاددلربا‘‘ اس کا پہلا حصہ ’’لطافتیں‘‘ دوسرا حصہ ’’تلخیاں‘‘ تیسرا حصہ ’’التجا‘‘ ہے۔ نظم دیکھئے :
’’ یاد دل ربا‘‘
(’’لطافتیں، تلخیاں، التجا‘‘)
۱۱؍ستمبر ۱۹۸۲ء بوقت شام
’’لطافتیں‘‘
اے مری شہناز میرے حال دل کی راز دار
تو بتا کیسے رہے تجھ بن مرے دل کو قرار
تو ہے میری حور جنت، تو مرے دل کا سکوں
تیرے آگے اس جہاں کی جستجوئیں سرنگوں
تیری ہستی سے مرے دل کا چمن ہے پُر بہار
تو نہ ہو تو گل فسردہ آنکھ میری خوں فشار
اے مری ملکہ! تو میری مملکت میں سر کا تاج
تیری ابرو کے اشاروں کا مری دنیا میں راج
میری دنیا تیری ہستی سے ہے فردوس بریں
تو مرے گلشن کی کیاری تو مری خلد بریں
تو رہے تو غم مرا سارے جہاں کا بھول جائے
مسکرائے تو کلی دل کی خوشی میں جھول جائے
تو ہنسے غم خانہ میں بجنے لگیں شہنائیاں
گل فسردہ کھل اٹھیں چلنے لگیں پروائیاں
لب کھلیں تو زخمہائے دل مرے ہوں مندمل
روئے روشن دیکھ کر سوکھی کلی بھی جائے کھل
تیری اک اک بول میرے واسطے ہو انگبیں
تو مرے آنگن میں ہے رشک قمر اے مہ جبیں
تیری ہر آواز پا سے ہے مرے دل کا سرور
تیری چوڑی کی کھنک افزوں کرے دل کا غرور
قہقہوں سے یہ چمن شاداب ہے اور شاد ہے
تیری خوشبو سے ہر اک گوشۂ شمیم آباد ہے
سرخی رخسار ولب سے گل نے پائی تازگی
تجھ سے بخشا ہے خدا نے مجھ کو لطف زندگی
اے مری میمونہ تو میری فقط شہناز ہے
تو سراپا ناز میرے دل کو تجھ پہ ناز ہے